Topics
میں بہت دکھی ہوں۔ موت بھی مجھ سے روٹھ گئی ہے۔ رشتہ دار
طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ شوہر کہتے ہیں بیماری کی گٹھڑی میرے پلے باندھ دی ہے۔
بیماری کا یہ حال ہے کہ۔۔۔۔۔
جواب: باریک قلم سے
لکھے ہوئے فل اسکیپ سائز کے چھ صفحوں پر مشتمل آپ کے خط کے مندرجات میں جو باتیں
اہم ہیں وہ چار ہیں۔
۱۔
معدہ کے اندر چبھن ہوتی ہے اور بیٹھنے سے پیٹ میں جلن ہوتی ہے۔
۲۔میں
ایک صنف نازک ہوں ، میرے چہرے پر مردوں کی طرح بال ہیں۔
۳۔
آنکھوں کے سامنے مکڑی کا جالا اجاتا ہے اور ہر چیز دھندلی نظر آتی ہے۔
۴۔
جاگ اُٹھنے کے بعد پیروں کی ایڑی میں شدید درد ہوتا ہے۔
ان چار
کیفیات کو بنیاد قرار دے کر آپ کے خط کا مختصر تجزیہ درجِ ذیل ہے،
1.
انسان کی زندگی دراصل ان کرنوں کا مجموعہ ہے جو کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں اور
ایک ستارہ سے دوسرے ستارہ میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ یہ کرنیں مل جل کر جو رنگ بناتی
ہیں وہ تاریک ہوتا ہے اور اس تاریکی کو نگاہ آسمانی یا نیلا دیکھتی ہے۔ آسمانی فضا
سے جو تثرات دماغ کے اوپر مرتب ہوتے ہیں وہ ایک بہاؤ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اس بہاؤ کو توہمات، خیالات کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔
خیالات
اور توہمات جن کی مقداروں پر کام کرتے ہیں اگر یہ مقداریں غیر متوازی ہو جائیں تو
نیلی روشنیوں کا ٹوٹ کر بکھرنے کا عمل اور حواس بنانے کا عمل ناقص ہو جاتا ہے۔ یہ
صورت واقع ہو جائے تو دماغ میں تسلسل کے ساتھ انے والی نیلی رو دوسرے رنگوں میں تبدیل
ہونے میں دقت محسوس کرتی ہے اور پیروں کے ذریعہ زمین میں پوری طرح ارتھ نہیں ہوتی
یا بہت زیادہ ارتھ ہو جاتی ہے۔
پیرا سائیکولوجی
کے قانون کے تحت آسمانی رنگ کی رو سے متاثر ہو کر دماغ کے دو کھرب خلیے بے شمار
رنگوں کے امتزاج سے حواس تخلیق کرتے ہیں
یہ حواس جسمانی نظام کو اپنی گزر گاہ بنا کر پیروں کے ذریعہ زمین میں ارتھ ہوتے
رہتے ہیں۔ صحیح مقدار میں اگر یہ ارتھ نہ ہوں تو آسمانی یا نیلا رنگ دوسرے رنگوں
میں پوری طرح خلط ملط نہیں ہوتا، نتیجہ میں صحت مند حواس تشکیل نہیں پاتے اور دماغ
پر ابنارمل (Abnormal) دباؤ رہتا ہے۔
دماغ
قدرت کا بنایا ہوا ایسا کمپیوٹر ہے جو ضرورت سے زیادہ پریشر جسم کے دوسرے حصوں پر
پھینک دیتا ہے۔ روکے اس غیر معمولی دباؤ کو دماغ سب سے پہلے معدہ میں ڈال دیتا ہے۔
معدہ اس بوجھ سے متاثر ہونے لگے تو یہ دباؤ پنڈلیوں پر اور اس کے بعد جگر میں منتقل
کر دیتا ہے اور پھر خود دماغ بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ دماغ میں وہ خلیے جو ہمیں
بصارت (نگاہ) بخشتے ہیں اگر متاثر ہو جائیں تو انسان رنگوں میں امتیاز کرنے کی قوت
سے محروم ہو جاتا ہے اور نظر کے سامنے مختلف پردے انے لگتے ہیں۔ دماغی خلیوں کی
کارکردگی میں میزان نہ رہے تو جسم کی مشینری میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہونے لگتی ہے جس کے
نتیجہ میں اعصابی نظام مفلوج ہو جاتا ہے اور اس ٹوٹ پھوٹ سے زندگی ضائع ہونا شروع
ہو جاتی ہے۔ زندگی قائم رکھنے والی انرجی کسی بھی ذریعہ سے ضائع ہو سکتی ہے۔ بول و
براز کے ذریعہ، قے اور خون کے ذریعہ یا فضا میں پھیلی ہوئی گرد و غبار اور دھوئیں
کے ذریعہ وغیرہ وغیرہ۔
۱۔ نظام ہضم ایک عرصہ سے خراب ہے۔ بالآخر
نظام ہضم کی یہ خرابی بادی بواسیر کا مرض بن گیا ہے۔
دانتوں
میں پائیوریا ہونے کی وجہ بھی یہی نظام ہضم کی خرابی ہے۔
۲۔ آپ طویل عرصہ سے سیلان (لیکوریا) میں
مبتلا ہیں۔ اس مرض کی شدت نے آپ کے اندر مخصوص
ماہانہ
نظام کو خراب کر دیا ہے۔ ہر مہینہ شدید درد میں مبتلا رہنے کے باوجود آپ قدرتی
صفائی سے
محروم
رہتی ہیں۔
۳۔ قدرتی صفائی نہ ہونے سے آپ کا پیٹ بڑا ہو
گیا ہے اور سینہ پر لمبے لمبے بال نکل آئے ہیں۔
۴۔ وہ رو جس پر دورانِ خون کا انحصار ہے یا
باالفاظ دیگر دوران خون کو متوازن رکھتی ہے زمین میں پوری
طرح
ارتھ نہیں ہوتی۔ نیند کی حالت میں شعور خود سو جاتا ہے اس لئے ارتھ ہونے کا یہ
سلسلہ بیداری
نسبت اور زیادہ کمزور
ہو جاتا ہے۔ بحالت خواب پورے وقت اس رو کا دباؤ پیروں پر رہتا ہے، اس لئے سو کر
اُٹھنے کے بعد تلوؤں اور ایڑیوں میں درد
رہتا ہے۔
میرا
مشورہ ہے کہ آپ کسی ماہر امراض چشم سے رجوع کریں اور آنکھوں کا علاج کرائیں۔
آنکھوں کا علاج ہونے سے اس بات کا امکان ہے اور امراض بھی ختم ہو جائیں گے اور اگر
پوری طرح ختم نہ ہوں تو دوسرے نمبر پر ”سیلان“ کا علاج کرائیں۔ کوئی بھی ماہر علاج
یہ بات جانتا ہے کہ کسی مرض کے دفیعہ کے لئے معدہ کا نظام درست ہونا شرط اول ہے۔
یہ دو بیماریاں ختم ہونے پر تمام بیماریاں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔
درخواست
ہے کہ
٭
خطوط جلی قلم سے اور مختصر لکھے
جائیں۔
٭ ایک سطر چھوڑ کر اور کاغذ کے ایک طرف
لکھنا بہتر ہے۔
خیال رہے
کہ میں اس وقت ایک کم ستر سال کا بوڑھا آدمی ہوں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔