Topics
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں ایک اسم
ذات ہے اور باقی اسمائے صفات ہیں۔ بعض صوفیاء کرام نے اسم اللہ کے ساتھ اسم قدیر
اور اسم الرحیم کو بہت اہمیت دی ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے اور بہت سے صفاتی نام
ہیں لیکن ان دو ناموں کا خصوصی تذکرہ کیا معانی رکھتا ہے؟
ذولقرنین (کراچی)
جواب: ابدال حق
حضور بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے نام جو کسی صفت کو ظاہر کرتے
ہیں کے بارے میں کتاب لوح و قلم میں تحریر فرمایا ہے۔
اللہ
تعالی کے دو نام کو کسی صفت کو ظاہر کرتے ہیں، اسمائے صفاتی کہلاتے ہیں۔ یہی وہ
نام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہیں۔ صفت کی تعریف کے بارے میں یہ جاننا
ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کے
ساتھ قدرت اور رحمت کی صفات بھی جمع ہیں مثلاً ربانیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور
رحمت بھی شریک ہے یا صمدیت کی صفت ے ساتھ
قدرت اور رحمت بھی شامل ہے۔جب اللہ تعالیٰ کو بصیر کہتے ہیں تو اس کا منشاء یہ
ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بصیر ہونے کی صفت میں قادر اور رحیم بھی ہیں یعنی بسیر
ہونے میں کامل قدرت اور کامل خالقیت کی استطاعت حاصل ہے۔
اب ہم اس
بات کی تشریح انسانی زندگی کی معرفت کرتے ہیں۔ انسان کی زندگی لاشمار حرکات کا
مجموعہ ہے۔ جب انسان نے اپنی زندگی کی پہلی حرکت کی تو اس حرکت کی ابتداء کو الگ
اور انتہا کو الگ مظہر بننے کا موقع ملا۔ حرکت کی ابتداء خالقیت کی صفت کا مظہر
تھی۔ یہ حرکت ابتدائی مراحل سے گزر کر تکمیل تک پہنچی۔ پہلا جزو ابتدائی حرکت اور
دوسرا جزو تکمیل دونوں مل کر حیات انسانی کی تمثیل بنی۔
اس حرکت
کے بعد حیات انسانی کی دوسری حرکت شروع ہوگئی ،پھر اس کی بھی تکمیل ہوئی، یہ دونوں
تمثیلیں ہوئیں۔ یہ دونوں تمثیلیں جداگانہ ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر پہلی
تمثیل کا ریکارڈ محفوظ نہ رہتا تو دوسری حرکت فنا ہو جاتی۔ اگر فنائیت کا یہ سلسلہ
جاری رہتا تو زندگی کی ہر حرکت جیسے ہی
وقوع پذیر ہوتی ویسے ہی فنا ہو جایا کرتی
چناچہ زندگی کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی تھی اس لئے ضروری ہوا کہ زندگی کی ہر
حرکت محفوظ رہے۔ زندگی کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کی سفت خالقیت کے تحت واقع ہوئی ہے۔
اس حرکت کا محفوظ رہنا اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت میں ممکن تھا جو احاطہ کر سکتی
ہو اور حفاطت کی صلاحیت رکھتی ہو چناچہ یہ لازم ہو گیا کہ جو حرکت صفت خالقیت کے
تحت شروع ہوئی تھی اس کی تکمیل صفت قدرت کی حدود میں ہو۔ اب ہر حرکت کے لئے لازم
ہو گیا کہ وہ سفت خالقیت یعنی رحمت کی حدود میں شروع ہو اور سفت مالکیت یعنی صفت
قدرت کی حدوں میں تکمیل پذیر ہو۔ اس اصول سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ رحمت اور قدرت
کے سائے میں ہی حرکت وجود پا سکتی ہے۔ ان دونوں صفات کا سہارا لئے بغیر حرکت کا
وجود ناممکن ہے زندگی رحمت اور قدرت کا
مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جس قدر صفات ہیں ان میں سے ہر صفت کے ساتھ رحمت اور
قدرت کا جذب ہونا یقینی ہے۔
جب ہماری
نگاہ کسی ستارے پر پڑتی ہے تو ہم اپنی نگاہ کے ذریعے ستارے کے بشرہ کو محسوس کرتے
ہیں۔ ستارے کا بشرہ کبھی ہماری نگاہ کو اپنے نظارے سے نہیں روکتا وہ کبھی نہیں
کہتا کہ مجھے نہ دیکھو اگر کوئی مخفی رشتہ موجود نہ ہو تا تو ہر ستارہ اور ہر
آسمانی نظارہ ہماری زندگی کو قبول کرنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا۔
یہی مخفی رشتہ کائنات کے تمام افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔
اس کی
وجہ یہ ہے کہ تمام کائنات ایک ہی ہستی کی ملکیت ہے۔ قرآن پاک نے اس ہی مالک ہستی
کا تعارف لفظ ”اللہ“ سے کرایا ہے۔ اسمائے مقدسہ میں یہی لفظ اللہ اسم ذات ہے۔
اسم ذات
مالکانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے اور
اسم صفات قادرانہ حقوق رکھنے والی
ہستی کا نام ہے۔ ہر اسم قادرانہ صفت رکھتا ہے اور اسم ذات مالکانہ یعنی خالقیت کے
حقوق کا حامل ہے۔ اس کو تصوف کی زبان میں رحمت کہتے ہیں چناچہ ہر صفت کے ساتھ اللہ
تعالیٰ کا قادرانہ اور رحمانیہ وسف لازم
آتا ہے۔ یہی دو اوصاف ہیں جو مجودات کے
تمام افراد کے درمیان مخفی رشتہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سورج کی روشنی اہل زمین کی
خدمت گزاری سے اس لئے انکار نہیں کر سکتی کہ اہل زمین اور سورج ایک ہی ملکیت ہیں۔
وہ ہستی مالکانہ حقوق میں حاکمانہ قدرتوں سے متصف بھی ہے اور اس کی رحمت اور قدرت
کسی وقت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی کہ اس کی ملکتیں ایک دوسرے کے وقوف سے
منکر ہو جائیں کیونکہ ایسا ہونے سے اس کی
قدرت پر حرف آتا ہے۔
اس تشریح
سے یتانا یہ مقصود ہے کہ نظام کائنات کے
قیام ، ترتیب اور تدوین پر اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کی حکمرانی ہے ایک نام اللہ
اور دوسرا اسم قدیر۔ تمام اسماء سفات میں سے ہر اسم ان دونوں اسماء کے ساتھ منسلک
ہیں اگر ایسا نہ ہوتا توافراد کائنات ایک دوسرے سے روشناس نہیں رہ سکتے تھے اور
نہ ان سے ایک دوسے کی خدمت گزاری ممکن
تھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔