Topics
آپ لاعلاج بیماریوں کے علاج اور نفسیاتی امراض سے نجات پانے
کے لئے مختلف مراقبے تجویز کرتے ہیں۔ یہی تعلیم آپ ماورائی علوم سیکھنے کے
خواہشمند طالبات اور طلبہ کو بھی دیتے ہیں۔
مراقبہ
میں کسی روشنی کا تصور کرنے سے مرض ٹھیک کیسے ہو جاتا ہے۔۔۔۔
تصور
سے کسی طالب علم کے اندر کیا تبدیلی آتی ہے۔۔۔۔
تصور
کیا ہے۔۔۔۔
خود
کو ترغیب دینا کہ ہم فلاں چیز دیکھ رہے ہیں یعنی خیالوں میں تصویر کشی کرنا یا پھر
تصور
سے کچھ اور مراد ہے۔
براہ
مہربانی اس کی وضاحت کر دیں۔
روز مرہ
کا مشاہدہ ہے کہ ہم جب کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ چیز اور اس کے اندر
معنویت ہمارے اوپر آشکارہو جاتی ہے۔ کوئی چیز ہمارے سامنے ہے لیکن ذہنی طور پر ہم
اس طرف متوجہ نہیں ہیں تو وہ چیز ہمارے لئے بسا اوقات کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس
کی مثال یہ ہے ہم گھر سے روانہ ہوتے ہیں ہمارے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ فلاں دوست سے
ملنا ہے۔ ذہن کی مرکزیت دوست اور دوست کی جائے رہائش ہوتی ہے۔ راستہ میں بے شمار
چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں اور انہیں ہم دیکھتے ہیں لیکن دوست کے گھر پہنچنے کے
بعد اگر وہ ہم سے سوال کرے کہ راستے میں آپ نے کیا کچھ دیکھا تو ہم خاموش ہو جاتے
ہیں حالانکہ چیزیں سب نظر کے سامنے سے گزریں لیکن چونکہ کسی بھی چیز میں ذہنی مرکزیت
قائم نہیں تھی اس لئے حافظہ پر اس کا نقش مرتب نہ ہو سکا۔ قانون یہ بنا کہ جب ہم
کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس چیز کے اندر معنویت سے ہم واقف ہو جاتے ہیں۔
مثال:
ہم کوئی بہت دلچسپ فلم دیکھتے ہیں۔ شروع
سے آخر تک ہماری دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ فلم ختم ہونے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ
ڈھائی یا تین گھنٹے گزر گئے ہیں تو ہمیں یقین نہیں آتا کہ تین گھنٹے گزر گئے ہیں۔ اسی طرح ہم ایک ایسی
کتاب پڑھتے ہیں جس کے مضمون میں ہماری دلچسپی نہیں ہے تو پانچ دس منٹ کے بعد طبیعت بوجھل اوربیزار ہو جاتی اور ہم کتاب پڑھنا چھوڑ
دیتے ہیں۔ اس مثال سے دوسرا قانون یہ بنا کہ ذہنی مرکزیت کے ساتھ ساتھ اگر دلچسپی
قائم ہو تو کام آسان ہو جاتا ہے اور وقت کا احساس نہیں رہتا۔
وقت کے
دو رُخ ہیں۔ عرف عام میں ان کو ذوق و شوق کہا جاتا ہے یعنی ایک طرف کسی چیز کی
معنویت کو تلاش کرنے کی جستجو ہے اور دوسری طرف سے جستجو کے نتیجے میں کوئی چیز
حاصل کرنے کا شوق ہے۔
ذوق اور شوق کے ساتھ جب کوئی بندہ کسی راستہ کو اختیار کرتا ہے
تو وہ راستہ دین کا ہو یا دنیا کا اس کے نتائج مثبت مرتب ہوتے ہیں۔
”مراقبہ“
میں تصور کا منشا یہی ہے کہ آدمی ذوق و شوق کے ساتھ ذہنی مرکزیت اور اس کے نتیجہ
میں باطنی علم حاصل کرے چونکہ یہ علم کتابی نہیں ہے اس لئے اس علم کو سیکھنے کے
لئے ایسے طریقے اختیار کئے گئے ہیں جو مروجہ طریقوں سے الگ نظر آتے ہیں لیکن فی
الواقع ان میں کوئی ماورائیت نہیں ہے۔
روح نور
ہے، روشنی ہے۔ روحانی علوم بھی نور ہیں، روشنی ہیں۔ نور یا لہروں کا علم نور یا
لہروں کے ذریعے ہی منتقل ہوتا ہے۔ نور کا تصور جب تجویز کیا جاتا ہے اور روحانی عل
سیکھنے والا شاگرد جب نور کا تصور کرتا ہے تو نور کی لہریں یعنی علم روحانیت کی
روشنیاں ذوق و شوق کے مطابق طالب علم کے اندر منتقل ہو جاتی ہیں۔
مراقبہ
سے بھر پور فوائد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صاحب مراقبہ جب آنکھیں بند کر کے
تصور کرے تو اسے خود سے اور ماحول سے بے نیاز ہوجانا چاہیئے۔ اتنا بے نیاز کہ اس
کے اوپر سے بتدریج زمان و مکان کی گرفت ٹوٹنے لگے یعنی اس تصور میں اتنا منہمک ہو
جائے کہ وقت گزرنے کا مطلق احساس نہ رہے۔
تصور کے
ضمن میں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اگر نیلی روشنی کا تصور بتایا گیا ہے تو
آنکھیں بند کر کے کسی خاص قسم کی روشنی کو دیکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ صرف نیلی
روشنی کی طرف دھیان دیں نیلی روشنی جو کچھ
بھی ہے اور جس طرح بھی ہے ازخود سامنے آجائے گی۔
دوست سے
ملاقات کی مثال سے واضح ہے کہ ہم دوست کے گھر جاتے ہوئے اس کے گھر کا نقشہ یا
بناوٹ یا طرزِ تعمیر ذہن میں نہیں لاتے۔ اس کا گھر یا گھر کا مخصوص کمرہ یا ڈرائنگ روم جہاں ہم اُٹھتے بیٹھتے ہیں آٹو میٹک
طریقے سے اس کا عکس ہمارے ذہن میں آجاتا ہے۔ اسی طرح دوست کی شکل و صورت اور وضح
قطع کی تصویر کشی بھی ذہن میں نہیں کرنا پڑتی۔ دوست جیسا بھی ہے اس کی صفات اس کی
عادات و خصائل سب کچھ ایک ہیولیٰ کی صورت میں ذہن پر واضح ہو جاتی ہے اور اس کے
لئے ہمیں ذہن کے کینوس پر کوئی اسکیچ بنانا نہیں پڑتا۔ اصل بات یہ ہے کسی ایک طرف
دھیان کر کے ذہنی یکسوئی حاصل کرنا اور اس کے نتیجے میں منتشر خیالات سے نجات پانا
ہے جس کے بعد لاشعوری کیفیات کڑی در کڑی ذہن پر منکشف ہونے لگتی ہیں۔ تصور کا مطلب
اس بات سے کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے جس کو حرف عام میں بے خیال ہونا کہتے ہیں۔
ہم اگر
کھلی یا بند آنکھوں سے کسی چیز کا تصور کرتے ہیں اور تصور میں خیالی تصویر بنا کر
اسے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ عمل ذہنی یکسوئی کے زمرے میں نہیں آتا۔ ذہنی
یکسوئی سے مراد یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر دیکھنے اور سننے کے عمل سے وقتی طور پر
بے خبر ہو جائے۔
قانون: آدمی کسی لمحے بھی حواس سے ماوراء نہیں ہو سکتا
جب ہمارے
اوپر
شعوری حواس کا غلبہ نہیں رہتا تو آٹومیٹک لاشعوری حواس
متحرک
ہو جاتے ہیں اور لاشعوری حواس سے متعارف ہونا ہی
ماورائی
علوم کا حصول ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔