Topics

فکر سلیم کیا ہے؟


             میں روحانی ڈاک کا پرانا قاری ہوں اور بڑے ذوق و شوق سے ہر ہفتہ اس کالم کا مطالعہ کرتا ہوں اور گراں قدر فیض و معلومات سے مستفید ہوتا ہوں۔ آپ کی تحریروں میں جگہ جگہ فکر سلیم کا تذکرہ پڑھا ہے، براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں کہ فکر سلیم کیا ہے؟

            محمد منیر                (اوکاڑہ)


جواب:   قرآن پاک کے قانون کے مطابق انسانی خیالات کے دو رخ متعین ہیں۔ ایک اعلیٰ اور دوسرا اسفل۔ اعلیٰ خیالات کو فکر سلیم کا نام دیا جاتا ہے اور اسفل خیالات کو شک و شہبات اور وسوسوں کی آماجگاہ بتایا جاتا ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کو فکر سلیم کا دائرہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کو کسی ایک مذہب ، قوم یا گروہ کی میراث قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فکر سلیم دراصل بہترین افکار، اخلاق، اقدار و اعمال کا دوسرا نام ہے نوع انسانی کے کسی بھی فرد میں اگر انسانی قدریں موجود ہیں اور وہ انبیاء کی تعلیمات پر پوری اُترتی ہیں تو آخری خطبے میں سرکار دو عالم ﷺ کے ارشاد

لَا فَضْلَ لِعَرَبِیَّ عَلَی اَعْجَمِیَّ وَ لَا لِعَجَمِیَّ عَلَی عَرَبِیّ وَ لَا لِا حّمَرَ عَلَی اَّسْوَدَ وَ لَا اَّسْوَدَ عَلَی اَّ حَمَ رَ اِ لَّا بِالتَّقْوَی

            کے مطابق

                        تم میں عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ اس لئے کسی

عربی کو  کسی عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، اسی طرح

کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر فضیلت نہیں۔

            جن لوگوں میں انسانی قدریں موجود نہیں ہیں خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو وہ ہرگز انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔

            قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے

                                    مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں،

                                    جو کوئی بھی اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن ایمان لائے

                                     اور نیک عمل کرے اور ان کے اجر  ان کے رب کے

                                    پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ غم۔

                                    (سورۃ البقرہ)

            آیت مقدسہ میں اللہ تعالی نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ کسی قوم اور کسی فرد کا نیک عمل ضائع نہیں کیا جاتا۔ اس نیک عمل کا اجر اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ اس کا یہ عمل خالصتاً اللہ کی خوش نودی کے حصول اور بھلائی کے لئے ہو۔ وہ اعمال جو اللہ خالق کائنات کی خوش نودی کے حصول اور بھلائی کے لئے انجام دیئے جائیں گے فکر سلیم کے دائرہ میں آئیں گے۔

            فکر سلیم انسان پر حقیقت اور حقائق کا انکشاف کرتی ہے ۔ یہی بات اس کو روح اور روحانیت سے قریب  کرتی ہے۔ حقائق کا کھلنا اور روح سے قریب ہونا عرفان ہے۔ یہی ”عرفان“ روحانیت کا اصل مشن ہے۔ روح اور روحانیت کی پیدا وار ہی اصل انسانیت ہے۔ انبیاء کا مشن یہی ہے کہ وہ فکر سلیم اور خیالات کو اللہ کی مخلوق کے دلوں میں منتقل کر دیں اور ان کو برے کاموں سے بچا کر شکوک و شہبات اور وسوسوں سے پُر باغیانہ طرزِ زندگی سے نجات دلائیں۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور آسمانی صحائف کا بنیادی مقصد نوع انسانی کو اسی فکر سلیم سے متعارف کرانا ہے تاکہ انسان اپنی روح اور روحانیت سے قریب ہو کر شرف انسانیت سے واقف ہو سکے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔