Topics
یہ ہمارا روز مرہ کا
مشاہدہ ہے کہ کائنات میں جو چیز بھی ظاہر ہوتی ہے
یا پیدا ہوتی ہے اس کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ اسباب و وسائل ایک خاص
ترتیب سے جمع ہوتے ہیں تو کسی چیز کا ظہور ہوتا ہے۔ میرے بعض دوست کہتے ہیں کہ جب
ہر چیز کسی وسیلے سے پیدا ہوتی ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ سب چیزوں کو اللہ
تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے کیا تھا۔
جواب: اس سوال کے
جواب کے لئے علم روحانیت اور تصوف کی بعض اصطلاحات کا تذکرہ ضروری ہے۔ وہ انوار جن
کو ”الف“ کا نام دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جس کا تجزیہ پم ذات انسانی
میں کر سکتے ہیں۔ یہی صفت انسان کا لاشعور ہے ۔ عمومی طرزوں میں لشعور اعمال کی
ایسی بنایدوں کو قرار دیا جاتا ہے جن کا علم عقل انسانی کو نہیں ہوتا۔ اگر ہم کسی
ایسی بنیاد کی طرف پورے غور و فکر سے مائل ہو جائیں جس کو ہم یا تو نہیں سمجھتے یا
سمجھتے ہیں تو اس کی معنویت اور مفہوم ہمارے زہن میں صرف ۔' لا“ کی ہوتی ہے یعنی
ہم اس کو ”نفی“ تصور کرتے ہیں۔ جب ہم اللہ کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
تو اس وقت ہمارے تصور کی گہرائیوں میں صرف ”لا“ کا مفہوم ہوتا ہے یعنی ہم ابتداء
کے پہلے مرحلے میں سرف نفی سے متعارف ہوتے ہیں۔ ہر وہ حقیقت جس سے ہم کسی طرح چاہے
تو ہماتی طور پر یا خیالاتی طرز پر یا تصوراتی طرز پر روشناس ہیں ایک ہستی رکھتی
ہے خواہ وہ ہستی نفی یا ”لا“ ہو یا”اثبات“ ہو۔ جب ہم اثبات کو ”ہے“ کہتے ہیں یعنی
اس کو ایک ہستی سمجھتے ہیں تو نفی کو”نہیں“ کہتے ہیں یعنی اس کو بھی ایسی ہستی
قرار دیتے ہیں جس کے ہونے کا علم ہمیں حاصل نہیں ہے۔ گویا ہم لاعلمی کا نام نفی
رکھتے ہیں اور علم کا نام اثبات۔
جب ہمیں
ایک چیز کی معرفت حاسل ہوگئی خواہ وہ لاعلمی کی معرفت ہو بہر صورت معرفت ہے اور ہر
معرفت ایک حقیقت ہوا کرتی ہے۔ پھر بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ہم لاعلمی کی معرفت کا
نام بھی علم رکھیں۔ اصل تصوف لاعلمی کی معرفت کو ”علم لا“ اور علم کی معرفت کو
”علم لَا“ کہتے ہیں۔ دونوں معرفتیں ” الف
انوار“ کی دو تجلیاں ہیں۔
جب
کوئی طالب روحانیت لاشعور یعنی ” علم لا“ سے متعارف ہونا
چاہتا ہے تو اسے خارجی دنیا کے تمام توہمات، تصورات اور خیالات کو بھول جانا پڑتا
ہے۔ ”لا“ کے انوار اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتی ہیں۔
ایک صوفی
کے یہاں جب سلوک کا ذہن پوری طرح ترتیب پا جاتا ہے اور ”لا“ کے انوار کی صفت سے
واقف ہو جاتا ہے تو پھر اس کے ذہن سے اس سوال کا خانہ حذف ہو جاتا ہے کیونکہ صوفی
اللہ تعالیٰ کی ”صفت لا“ سے واقف ہونے کے بعد اس خیال کو بھول جاتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ کی موجودگی سے پہلے بھی کسی موجودگی کا امکان ہے۔”لا“ کے انوار سے واقف
ہونے کے بعد سالک کا ذہن پوری طرح وحدانیت کے تصور کو سمجھ لیتا ہے یہی وہ نقطہ
اول ہے جس سے ایک صوفی یا سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت میں پہلا قدم رکھتا ہے۔ اس
قدم کے حدود اور دائرے میں پہلے پہل اسے اپنی ذات سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے
یعنی وہ تلاش کرنے کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی
وحدانیت کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں کروٹیں بدلنے لگتا
ہے۔ اس مقام کو فنائیت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
مختصر یہ
کہ جب تک ”لا“ کے انوار کا مشاہدہ حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک کوئی شخص اس بات کو
صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی سے پہلے کسی موجودگی کا
امکان نہیں ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔