Topics
بحیثیت ایک ایسے انسان کے جسے چاند تاروں کی ہوس نہیں ہے،
میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے میرے مالک نے ہر نعمت سے نوازا ہے ہوا ہے۔
عزت،صحت،رزق وافر، اولاد غرض میرے مرحوم والد اور والدہ، ان دو کی دعاؤں کے طفیل
اور اپنی رحمت کے صدقہ میں مجھے میرے دینے والے نے ہر چیز دی ہوئی ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسی
چیز پڑھنے کے لئے تجویز فرمائی جائے جس
میں اعتراف و تشکر نعمت ہو۔
جواب: میں گزشتہ
تقریباً سولہ سال سے خطو کتابت کے ذریعے مخلوق کی خدمت میں کمر بستہ ہوں۔ اسی عرصہ
میں میں نے تقریباً تین لاکھ سے زیادہ خطوط کے جوابات دیئے ہیں۔ ان میں سے ہر خط
کو خواہ اس میں تحریر کردہ مسئلہ بظاہر کتنا معمولی کیوں نہ ہو میں نے پوری اہمیت
دی ہے کیونکہ خط لکھنے والے کے نزدیک بظاہر غیر اہم نظر آنے والی بات بھی بے انتہا
اہمیت کی حامل تھی، اتنی اہم کہ اس نے
کاغذ قلم سنبھال کر خط لکھا اور جواب کا طلبگار ہوا۔
اسی
اثناء میںمسائل و مشکلات، دکھ، بیماری، نفسیاتی الجھنیں، پر اسرار اور ماورائی
سمجھے جانے والے امراض اور بیشمار دوسرے اقسام کے خطوط نظر سے گزرے مگر شاذ ہی
ایسا ہوا ہے کہ کسی بندہ نے کبھی یہ لکھا کہ میں بالکل مطمئن اور مسرور ہوں اور
میرے اوپر خدا کی نعمتیں محیط ہیں۔ آج آپ کا خط پڑھ کر جی چاہا کہ میں اپنے قارئین
کو یہ بتاؤں کہ شکر کرنا کتنی بڑی صفت ہے۔ تین لاکھ سے زائد خطوط میں اپ کے خط کا
انتخاب کر رہا ہوں۔ یقیناً یہ بہت بڑی بات ہے کہ انسان اپنے رب کا، اپنے خالق کا
شکر گزار بندہ ہو جائے۔ وہ خالق جو اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے
اور جس نے زندگی گزارنے کے تمام واسائل فراہم کئے ہیں۔
اس خالق
کی نعمتوں اور اس کے احسانات کا سب سے بڑا شکر یہ ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمتوں اور
اس کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کو اس کی خوشنودی کے لئے استعمال کیا جائے اور خدا کی
خوشنودی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ میری نظر میں یہ ہے کہ بندہ کے طرز عمل،
گفتار، کردار اور برتاؤ سے کسی دوسرے کو تکلیف اور دکھ نہ پہنچے اور اس کی ذات
دوسروں کے کام ائے۔ عامے، سخنے، قدمے اپنے بہن بھائیوں کی خدمت کیجیئے اور آدم و
حوا کے ناطے سے تمام انسان اسی زمرے میں آتے یں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔