Topics
گھر کا ماحول ایسا ہے کہ اپنے وجود پر
ندامت ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں اتا میں کس لئے زندہ ہوں۔ اس زندگی سے فرار کے لئے
سروس کرنا چاہی مگر اجازت نہ ملی۔ اب تک کی زندگی تو باعث شرمندگی ہے لیکن آئندہ
زندگی کو کامیاب اور مثالی بنانا چاہتی ہوں۔
میری
آئیڈیل شخصیت مجھے مل گئی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ آئیڈیل کے حصول میں کوئی پریشانی
لاحق نہ ہو۔ ہمیشہ کی طرح گھر والوں سے
خیر کی اُمید نہیں ہے اس لئے آپ کو خط لکھ رہی ہوں کہ میرے لئے خصوصی دعا کر
دیجیئے۔
جواب: بلا شبہ یہ
دنیا کھیل تماشا ہے لیکن اس تماشے میں ایک قاعدہ اور ضابطہ ہے۔ کچھ اصول فطری ہیں
اور کچھ ضابطے جبلی ہیں۔ جبلی ضابطوں سے فطرت نہیں بدلتی البتہ فطرت سے قریب ہو
جانے سے جبلت کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور جبلت پر فطرت غالب آجاتی ہے تو قانون یہ
سمجھ لیتا ہے کہ میرا سوچنا، میرا سونا، جاگنا سب فطرت کے تابع ہے۔
جہاں آپ
شادی کرنا چاہتی ہیں یہ سب جبلی جذبات کی عکاسی ہے۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ کس کا
مستقبل کیا ہو گا البتہ جذباتی فیصلوں کا انجام اکثر اچھا نہیں ہوتا۔ آدمی اعتدال
سے ہٹ کر جب زندگی گزارتا ہے تو بے اعتدای اس کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے۔ مختصر یہ
کہ یہ شادی آپ کو زیادہخوش نہیں رکھ سکے گی۔
والدین
کے بارے میں اولاد کے احساسات جو بھی ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ والدین اولاد کا بُرا
نہیں چاہتے، اولاد خود احساس کمتری کے خول میں بند ہو جاتی ہے۔ ایک باپ جس کی عمر
ساٹھ سال ہے، اولاد جس کی عمر اٹھارہ سال ہے دونوں کا تجربہ برابر نہیں ہو سکتا۔
اٹھارہ سال کی اولاد کو بیالیس سال کا تجربہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ساٹھ سال کی ہو
جائے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔