Topics

تصوف کیا ہے؟


تصوف کیا ہے؟۔۔۔۔

            تصوف میں یار روحانیت سیکھنے کے لئے بیعت ہونا کیوں ضروری ہے۔۔۔ ایک دفعہ کسی سے بیعت ہونے کے بعد

            کیا آدمی کسی اور سے بیعت ہو سکتا ہے۔۔۔۔ وہ بھی ایسی صورت میں جب پیر و مرشد کا وصال ہو چکا ہو۔

 

جواب:   تصوف نام ہے نور باطن کا اور نور باطن ایسا خالص ضمیر ہے جو تمام آلائشوں سے پاک ہو۔تصوف سالک کو غیب سے متعارف کراتا ہے اور غیب میں مصروف روحانی  دنیا کا مشاہدہ و مطالعہ کراتا ہے۔ تصوف بندہ کو خدا تک لے جاتا ہے اور بندہ کو خدا سے ملا دیتا ہے۔ تصوف وہراستہ ہے جس پر چل کر کوئی سالک غیب کی منزلوں کو طے کر کے عرفان کی اس منزل پر پہنچ جاتا ہے جس مقام کے حامل بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

                                    میں ان کا ہاتھ، ان کی آنکھ، ان کی سماعت اور ان کی زبان

                                    بن جاتا ہوں۔

            کسی بھی علم کو سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت مسلمہ ہے۔ استاد کے بغیر کوئی بھی علم شجر بے ثمر ہے۔ استاد اپنے شاگرد کی اس طبیعت ، صلاحیت، سکت اور سمجھ کے مطابق تربیت کرتا ہے۔ استاد اس روحانی شخصیت کا نام ہے جس کو کسی علم پر پورا پورا عبور حاصل ہو۔ اس علم کے اصول و ضوابط اور قوانین سے پوری طرح واقف ہو اور اس کے حصول میں پیش آنے والے مسائل آسانیاں، مشکلات وغیرہ سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہو بلکہ ان کا سدِباب بھی جانتا ہو۔ استاد سالک کو مختلف منزلوں سے گزار کروہ گوہر مقصود سالک کے حوالے کر دیتا ہے جو کسی سالک کا مقصود اور منشاء ہوتا ہے۔ اسی لئے روحانیت سیکھنے کے لئے، بیعت ہونا ضروری ہے۔   

                                    ایک دفعہ بیعت ہونے کے بعد قانوناً آدمی کسی دوسری جگہ

                                    بیعت نہیں کر سکتا۔ جس طرح کسی شخص کی دو مائیں نہیں

                                    ہو سکتیں اسی طرح روحانیت کے حصول کے سلسے میں وہ

                                    پیر و مرشد کا تصور ممکن نہیں۔

            جہاں تک فیض کا تعلق ہے وہ  پیر و مرشد کے وصال کے بعد ان کی روح پر فتوح سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

            یاد رکھیئے! روح کبھی نہیں مرتی وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے کیونکہ وہ قائم بالذات ہے لیکن اگر مرید کا ظرف بننے سے پہلے پیر ومرشد کا وصال ہو گیا ہو اور وہ اسکی تربیت پوری نہ کر سکا ہو تو مرید اس ظرف کو بنانے اور تربیت پوری کرنے کے لئے کسی روحانی استاد جس کو اس نے اچھی طرح پرکھ لیا ہو کے حضور طالب ہو سکتا ہے لیکن فیض صرف اسی پیر و مرشد سے حاصل ہوگا جس کے ہاتھوں پر پہلی بار اس  نے بیعت کی ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔