Topics
میں مادی علوم کے لحاظ سے M.Sc باٹنی ہوں اور روحانی علوم میں
طفل مکتب کی حیثیت ہے۔ بیالوجی میں Biogenesis اور Anti Biogenesis کے نظریات بہت اہم ہیں۔ اولالذکر کے مطابق
جاندار صرف جاندار سے ہی پیدا ہوتے ہیں جبکہ دوسرے نظریے کے مطابق جاندار بے جان
سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔
ارسطو Anti Biogenesis کا قائل تھا۔ اس کے مطابق برسات میں مینڈکوں کی
بارش ہوتی ہے جبکہ اب اس کو کوئی نہیں مانتا۔ مادی علوم کی کتابوں میں بھی یہی بات
لکھی گئی ہے بلکہ میں اور دنیا کے تمام Biologist یہی پڑھاتے ہیں کہ مینڈکوں کی بارش نہیں ہوتی
بلکہ زمین پر انڈے ہوتے ہیں جو بارش کی وجہ سے پھٹتے ہیں اور ان سے بچے جنم لیتے
ہیں۔
فروری
کے صدائے جرس میں مندرجہ زیل عبارت ہے۔
”بارش کی
چھینٹیں زمین پر پڑنے سے ایک مخصوص گیس فضاء میں اُڑتی ہےاور
اس مخصوص گیس سے بارش کے قطرے ہم جان ہوتے ہیں
تو فضاء سے
مینڈکوں
کے چھوٹے چھوٹے بچے زمین پر برستے ہیں۔“
یہ عبارت ہماری ناقص (مادی) سمجھ سے بالا ہے۔ اسی عبارت کو
پڑھ کر Anti Biogenesis کے عمل کا گمان ہوتا ہے۔ برائے مہربانی بذریعہ
روحانی ڈائجسٹ وضاحت فرما دیں۔۔
شبیر
احمد (معراج
پورہ، ضلع شیخوپورہ)
جواب: ہر تخلیق کا
کوئی خالق ہوتا ہے اور ہر تخلیقی عمل خالق کے علم کا مظاہرہ ہے لہذا کسی بھی
تخلیقی عمل کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس علم سے واقفیت حاصل کی جائے جس علم کے
تحت تخلیق کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ یہ ایسا طریقہ عمل ہے کہ جس سے تخلیق اور خالق
دونوں کی وضاحت ہو جاتی ہے۔
سورۃ
یٰسین میں ارشاد ہے
وہ
زندہ کرے گا ان کو جس نے بنایا ان کو پہلی بار۔۔(۷۹)
اس
کا امر یہی ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے
فرماتا
ہے ، ہو جا ، پس وہ فوراً ( موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے۔ (۸۲)
دنیا کا
ہر انسان جانتا ہے کہ زندگی کی تجدید ہر لمحہ ہوتی رہتی ہے۔ دو روز کا بچہ پہلے
روز سے مختلف ہوتا ہے اور ایک سال کا بچہ دو روز کے بچے سے مختلف ہوتا ہے۔ وہی بچہ
جوان ہوتا ہے اور زندگی کی منازل طے کرتا ہوا بوڑھا ہو کر مر جاتا ہے۔
سائنسدان
کہتے ہیں کہ تجدید کے عمل کو برقرار رکھنے والے وسائل، آکسیجن، ہوا، پانی اور غذا
ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی جسم پر ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ جب ہوا،
پانی اور غذا زندگی کی تجدید نہیں کرتی۔ اگر ہوا، پانی اور غذا ہی انسانی زندگی کا
سبب ہوتے تو کسی مردہ جسم کو ان چیزوں کے ذریعے
زندہ کرنا ممکن ہو جاتا۔
سورۃ
یٰسین میں ہے کہ
پاک
ہے جس نے جوڑے بنائے سب چیز کے، اس قسم
کے
جو اُگتا ہے زمین میں اور آپ ان میں اور جن چیزوں
میں
کہ ان کو خبر نہیں۔ (۳۶)
اسی آیت مبارکہ کی روشنی میں زندگی کے اسباب میں
ایک طرف شعوری اسباب ہیں اور دوسری طرف لاشعوری اسباب ہیں اور اسباب حرکت کے تابع
ہیں۔
جب ہم شے
کو زندگی کی حرکت کہتے ہیں تو حرکت کی تشریح کرنا ضروری ہے۔ حرکت کے دو رخ ہیں۔
ایک رخ رنگین روشنی ہے جو مظہر یا جسم ہے اور یہ متغیر ہے۔ حرکت کا دوسرا رخ بے
رنگ روشنی ہے جس کو فطرت کہا جاتا ہے اسی رخ میں تغیر نہیں ہے۔
حرکت کے
جس رخ میں تغیر ہوتا ہے وہ مکان Space ہے اور جس رخ میں تغیر نہیں ہے وہ زمان Timeہے۔ وہ تمام صفات جو
کسی ہستی ی اصل ہیں ان کا قیام زمان و مکان کے اندر ہے۔
اور وہی ہے جس نے بنایا ہے پانی سے آدمی، پھر ٹھہرایا اس کا جد اور سسرال۔
(
سورۃ الفرقان : ۵۴)
اور اللہ نے بنایا ہر پھرنے والا ایک پانی سے، پھر کوئی ہے کہ چلتا ہے اپنے
پیٹ پر اور کوئی ہے کہ چلتا ہو دو پاؤں پر
اور کوئی ہے کہ چلتا ہی چار پر۔ بناتا ہے اللہ جو چاہتا ہے۔
بے شک اللہ ہر چیز کر سکتا ہے۔
(سورۃ النور : ۴۵)
جو
اطلاعات خلا ء (ذرہ) میں داخل ہوتی ہیں تصورات کہلاتی ہے۔ ان تصورات کو اللہ
تعالیٰ نے ماء (پانی) کا نام دیا ہے۔
دراصل پانی تصورات کا خول ہے یا وہ ایسے جو ہروں کا مجموعہ
ہے جس میں ہر جوہر تصور کی حیثیت رکھتا ہے۔ پانی کے خواص یہ ہیں کہ وہ پھول میں جا
کر پھول بن جاتا ہے۔ کانٹے میں جا کر کانٹا بن جاتا ہے۔ پتھر میں جا کر پتھر بن
جاتا ہے۔ سونے میں جا کر سونا بن جاتا ہے اور ہیرے میں جا کر ہیرا بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اتارا
آسمان سے پانی ، پھر قائم کیا زمین کو مر گئے پیچھے اور بکھیرے اس میں
سب قسم کے جانور اور
دریاؤں کا پھیرنا اور ابر جو حکم کا تابع ہے درمیان آسمان اور زمین
کے ان میں نمونے ہیں
عقل مند لوگوں کے لئے۔ (سورۃ
البقرہ۔ ۱۶۳)
اور بنائی ہم نے پانی
سے جس چیز میں جی ہے ۔ (سورۃ
النباء: ۲۰)
نکالیں گے ہم ان کے
آگے ایک جانور زمین سے، ان سے باتیں کرے گا۔
(
سورۃ النمل : ۸۶)
مادی دنیا کا ہر مظہر
ایک خول ہے جس میں تصورات کا الگ الگ مجموعہ مقید ہے۔ ان میں ہر مجموعہ ادراک ہے۔
یہی کائنات کی اساس ہے۔
ہم جس چیز کو ظاہر
کرتے ہیں اس کے تمام نقش و نگار مکانیت پر مشتمل ہیں لیکن یہ جس بساط پر قائم ہے
وہ زمانیت ہے۔ زمانیت کی بساط کے بغیر کائنات کا کوئی نقش ظہور میں نہیں آتا۔ جب
یہ قانون معلوم ہوگیا کہ مظاہرہ کی بساط زمانیت ہے جسے ہم مادی آنکھوں سے نہیں
دیکھ سکتے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مظاہرہ کی بنیادیں ہماری آنکھوں سے مخفی
ہیں۔ یہ مخفی بنیادی ہی خلا ہے۔
اللہ نے اتارا آسمان
سے پانی ۔پھر ہم نے نکالے اس میں سے میوے طرح طرح کے رنگ
ان کے۔۔(سورۃ فاطر: ۲۷)
اور آدمیوں میں اور
کیڑوں میں اور چوپاؤں میں کئی رنگ کے ہیں اسی طرح۔
(سورۃ
فاطر:۲۸)
خلاء (Space) میں حواس کا داخل ہو جانا
تخلیقی عمل ہے۔ خلا مٹی کی نیچر ہے۔ کرہ ارض پر ہونے والے ہر تخلیقی عمل میں پانی
ڈائی کا کردار ادا کر رہا ہے یعنی پانی ایک نقطہ ماسکہ ہے۔
بارش میں زمین سے
اُٹھنے والی گیس نوعی ڈائی مینشن ( Dimension) ہے۔
تصور میں اس کا نام نسمہ مفرد ہے۔ نسمہ مفرد جب گیس میں داخل ہو جاتی ہے تو مفرد
لکیریں مرکب بن جاتی ہیں۔ روشنی سے بہتی ہوئی مرکب لکیریں مادی وجود ہیں یہ عمل
کائنات میں ہر لمحہ جاری ہے۔ کائنات کا ہر فرد ، ہر لمحہ مرتا ہے اور نئی ڈائی میں
منتقل ہوتا ہے۔ نئی ڈائی میں منتقل ہونا ہی ارتقاء ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی بھی
پیدا ہونے والا بچہ جوان ہوتا نہ بوڑھا بلکہ سو سال کی عمر میں بھی پہلے روز جیسا
بچی ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
اور تمام جاندار
چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔
(
سورۃ الانبیاء: ۳۰)
اور خدا ہی نے ہر
چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ
پیٹ کے بل چلتے ہیں
اور بعض ایسے ہیں کہ دو پیروں پر چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ چار پاؤں
پر چلتے ہیں۔ اللہ جو
چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ( سورۃ النور:۴۵)
وہ بڑا مہر والا ہے۔ سو
پوچھ اس سے جو اس کی خبر رکھتا ہو۔
(سورۃ الفرقان: ۵۹)
اللہ تعالیٰ کے ودیعت
کئے گئے تخلیقی علوم ( اسماء الٰہیہ ) کے حامل اللہ کے بندوں سے بعض دفعہ ایسی
کرامتیں صادر ہو جاتی ہے جن میں روشنیوں کا تصرف پایا جاتا ہے۔
تذکرہ بابا تاج الدین
میں حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے نانا تاج الدین ناگپوری رحمتہ
اللہ علیہ کا واقعہ قلم بند فرمایا،
حالت استغراق میں
نانا تاج الدین کی آنکھیں کچھ کھلی رہتی تھیں۔
ایک دفعہ استغراق کی
حالت میں حیات خان نے مجھے اشارے سے بلایا۔ کہنے لگا اس پتے کو دیکھو۔ میری نظر
یکے بعد دیگرے کئی پتوں پر گئی۔ جس پتہ کی طرف اس نے اشارہ کیا تھا اس میں سے
ٹانگیں، چہرہ کے خدوخال اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں رونما ہو رہی تھیں۔ یہ پتہ تقریباً
تین انچ لمبا ہوگا۔ یکا یک میری نظر برابر
والے پتے پر جا پڑی۔ اس میں بھی ایسا ہی تغیر ہو رہا تھایہ دونوں پتے ایک دوسرے کے
پیچھے چلنے لگے۔ ایک دو منٹ میں ان کی ہیت اتنی بدلی کہ کوئی شباہت ان میں باقی نہ
رہی تھی۔ نانا تاج الدین کی نیم آنکھیں
ان پر جمی ہوئی تھیں۔
کئی مہینے بعد میں نے
نانا سے اس کی علمی توجیہ معلوم کی۔ فرمایا
دیکھ یہ درخت ہے اس کے اندر زندگی کے سارے ٹکڑے جڑے ہوئے
ہیں۔ دیکھنا، ہنسنا، جنبش کرنا، یہ سب ٹکڑے اس درخت کے اندر جھانکنے سے نظر آتے
ہیں۔ اس کے ہر پتے میں سچ مچ کا منہ ہے۔ سچ مچ کے ہاتھ پیر ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ جب
تک پتہ دوسری زندگی سے ٹکراتا نہیں ہے اس کے اندر عام لوگ یہ نیرنگ نہیں دیکھ سکتے
اور جب کوئی پتہ دوسری زندگی سے گلے ملتا ہے تو جیتا جاگتا کیڑا بن
جاتا ہے ۔ یہ سمجھ کہ آنکھ سے بھی گلے ملتے ہیں۔
یاد رکھ
زندگی سے زندگی بنتی ہے اور زندگی زندگی میں سما جاتی ہے۔
اور
اتارا ہے آسمان سے پانی ، پھر جلاتا ہے اس سے زمین کو مر گئے پیچھے۔ (سورۃ الروم: ۲۳)
اور
وہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے اور اس کا تخت پانی پر تھا۔
(سورۃ
ہود: ۷)
مندرجہ
بالا وضاحتوں سے یہ منکشف ہو جاتا ہے کہ مٹی سے پیدا ہونے والے جاندار میں تخلیقی
عنصر پانی ہے جو مٹی کی نیچر ہے۔
پانی اس
اطلاعات کا حامل ہے جو قدرت اسے مہیا کرتی ہے اور ان اطلاعات کے ذریعے ہی مٹی سے
پیدا ہونے والا ہر جاندار مادی زندگی کی ارتقائی منازل طے کرتا ہے۔
بارش میں
مینڈکوں کو برسنا اور اس کے فوراً بعد بیر بہوٹی کا پیدا ہونا میرا ذاتی مشاہدہ ہے
اور یہ تخلیقی عمل میرے شاگردوں نے بھی دیکھا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔