Topics

روح کی بالیدگی


میری منگنی چار سال پہلے میرے چچا زاد سے طے پائی تھی۔ منگنی سے ایک دن پہلے ظہر کی نماز پڑھ کر میں لیٹی تو خواب میں دیکھا کہ میرا ہونے والا منگیتر ہمارے گھر آیا ہے۔ اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا میں ہمیشہ کے لئے کہیں جا رہا ہوں اور اجازت لے کر صرف تم سے ملنے آیا ہوں تاکہ خداحافظ کہہ دوں۔ پھر اس نے بتایا کہ اسے بے گناہ قتل کر دیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ اس دنیا میں تو ہم ایک نہیں ہو سکے مگر اگلی دنیا میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ خواب ہی میں اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر گئی۔ سو کر اٹھنے  کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ٹھیک اسی لمحے میرے کزن کو قتل کر دیا گیا  تھا۔

            اس کے بعد سے وہ مسلسل مجھے خواب میں نظر اتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کبھی کبھار بیداری کے عالم میں وہ آکر میرے سامنے بیٹھ جاتا ہے اور مجھ سے کہتا ہے کہ اللہ تعالی سے اجازت لے کر اس دنیا میں تم سے ملنے آتا ہوں ، تم میرے پاس اس دنیا میں  آجاؤ۔ عموماً بڑی سی سونے کی تشری میں اعلیٰ قسم کے سیب اور دوسرے پھل ساتھ لاتا ہے ، کہتا ہے جنت سے تمہارے لئے سیب لایا ہوں مگر میں خوف سے پھلوں کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ وہ جب بھی اس طرح آتا ہے پورے گھر میں گلاب کی خوشبو پھیل جاتی ہے جو فجر کی اذان تک رہتی ہے۔

            مسئلہ یہ ہے کہ والدین اب میری شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن میرے کزن کی روح میری شادی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ جب بھی کوئی  رشتہ آتا ہے اس رات خواب میں آ کر  وہ کہتا ہے کہ تم نکاح سے انکار کر دو۔ یہ سلسہ چار سال سے چل رہا ہے میں سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں۔ میں اپنے مرحوم کزن سے کہتی ہوں میرا پیچھا چھوڑ دو میں تم سے شادی نہیں کروں گی تو وہ ہنستا ہے اور کہتا ہے تمہاری شادی میرے علاوہ کسی سے نہیں ہوگی۔۔۔ پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ رشتے پلٹ کر نہیں آتے۔

            میری حالت اب یہ ہوگئی ہے کہ جیتی ہوں نہ مرتی ہوں۔ ہر وقت بیمار رہتی ہوں۔

            بے حد کمزور ہوگئی ہوں۔ گورا رنگ کالا پڑ گیا ہے۔ سر کے بال اُڑ گئے ہیں۔ انکھیں ویران ہوگئی ہیں۔ زندگی کی تمام دلچسپیاں ختم ہو گئی ہیں۔ بد اخلاقی بد مزاجی اور چڑچڑے پن نے میری شخصیت مسخ کر دی ہے۔ مجھے کوئی دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا سب مجھ پر ہنستے ہیں اور پاگل سمجھتے ہیں شدید احساس کمتری کا شکار ہوں۔ خدا را میری مدد کیجیئے۔

 

جواب:   عام طور پر مرنے کا مفہوم ختم ہو جانا لیا جاتا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے اس کا مفہوم اور ترجمہ منتقل ہونا ہے یعنی ایک آدمی اس گوشت پوست کے جسم کو شچھوڑ کر دوسرے عالم میں منتقل ہو گیا۔ عالم اعراف وہ عالم ہے جہاں اس دنیا  کے باسی مرنے کے بعد منتقل ہو جاتے ہیں۔

            عالم اعراف اور اس دنیا میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح دنیا میں کوئی فرد کھاتا پیتا ہے، سوتا جاگتا ہے، ہنستا روتا ہے، غمگین اور خوش ہوتا ہے، اس کے اندر محبت کا طوفان اُٹھتا ہے یا نفرت کا لاوا ابل پڑتا ہے۔ جس طرح کسی بندے کو دنیا میں دوستوں کی ضرورت پیش آتی ہے اور وہ دوستوں کے کام کرتا ہے اور دوست اس کے کام آتے ہیں۔ جس طرح دنیا میں اسے سردی اور گرمی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وسائل کی احتیاج ہوتی ہے اسی طرح عالم اعراف کی زندگی میں وہ کھاتا پیتا ہے، سوتا جاگتا ہے اور زندگی کی ساری ضروریات پوری کرتا ہے۔  اگر اس عالم رنگ و بو (ناسوتی دنیا) میں آدم زاد کو سر چھپانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس عالم  میں بھی چھت کے نیچے رہتا ہے۔ جس طرح اس زمین پر مکانات اور بلڈنگیں ہیں اسی طرح عالم اعراف میں بھی مکانات اور بلڈنگیں ہیں۔ بڑے بڑے شہر ہیں، جس طرح زمین پر آباد شہر ہیں وہاں بھی آبادیاں ہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ ہے کہ آدمی کے اوپر لباس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔

            عالم ناسوت میں روح نے گوشت پوست اور پٹھوں کو جمع کر کے اپنے لئے لباس بنایا تھا۔ گوشت پوست اور رگ و پے کا تانا بانا مٹی کے ذرات تھے، وہاں روح نے گوشت پوست اور پٹھوں کا جو لباس بنایا ہے اس کا تانا بانا روشنیوں سے بنا ہوا ہے چونکہ مٹی میں وزن ہوتا ہے ، مٹی کشش ثقل کا دوسرا نام ہے اس لئے اس زمین پر آدمی خود کو پابند اور مجبور دیکھتا ہے۔ اس دنیا میں چونکہ تانا بانا روشنیوں کے اوپر بنا  ہوا ہے اس لئے آدمی خود کو  پابند اور مجبور نہیں دیکھتا۔ اس کے اوپر زماں اور مکاں کی پابندیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ ٹائم اسپیس کی پابندیاں ٹقٹنا الگ بات ہے اور ٹائم اسپیس کا ختم ہونا دوسری بات ہے۔

            عالمِ اعراف میں آدمی کے ذہن میں ٹائم اور اسپیس دونوں موجود رہتے ہیں۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ شعور کی رفتار اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی پیدل چل کر کراچی سے لندن پہنچے تو مہینوں کا وقفہ درکار ہو گا لیکن اگر ہوائی جہاز میں بیٹھ جائے تو چند گھنٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔

            جب ہم روح کے بارے میں غور کرتے ہیں تو یہ قانون منکشف ہوتا ہے کہ کوئی شے سامنے اسی وقت آتی ہے جب وہ پہلے سے کہیں موجود ہو۔ مثلاً روح لکڑی کی میز کو دیکھتی ہے، میز کا تصور روح میں موجود  رہتا ہے لیکن جب کوئی میز روح کے سامنے آتی ہے تو دراصل میز کا وصف روح کے سامنے ہوتا ہے، فی الواقع وہ میز نہیں ہوتی جس کو ہاتھ چھوتے ہیں۔ رُخ دو ہیں ایک وہ میز ہے جو مستقلاً روح کے اندر  رہتی ہے اور ایک وہ میز ہے جو روح سے باہر آتی ہے۔ اب اگر ہم میز کو آگ لگا دیں تو لکڑی کی میز جل کر راکھ ہو جائے گی لیکن روح کے اندر جو میز ہے وہ قائم رہتی ہے۔ آپ کی طبیعت میں اپنے ہونے والے منگیتر کو دیکھ کر خاص کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس کا عکس آپ کی روح نے قبول کر لیا اور اپنا جزو بنا لیا۔ ظاہر ہے جو چیز روح میں ہے وہ آنکھوں کے سامنے ضرور آئے گی۔

            چاہے وہ ہر وقت اتی رہے یا کسی خاص وقت میں آئے۔ چناچہ چار سال تک آپ کی انکھوں کے سامنے روح کا ہی عکس آتا رہا ہے اور اسی عرصہ میں روح کی بالیدگی میں جذب ہو گیا یعنی روح کے اندر مرحوم کزن کا عکس قائم رہا اور وہ نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہا۔ اگر آپ  یہ چائیں کہ اسے چھو کر محسوس کریں تو ایسا ہونا اس لئے ناممکن ہے جو کچھ آپ دیکھ رہی ہیں اس کی مادی حیثیت نہیں ہے۔ یہ واقعہ صرف آپ ہی کے ساتھ پیش نہیں آیا، لاکھوں میں چند آدمیوں کے ساتھ پیش آتا رہتا ہے۔ اس طرف سے اگر بتدریج ذہن ہٹا لیا جائے تو مرحوم منگیتر نظروں کے سامنے نہیں آئے گا۔

            دوسرا مسئلہ آپ کے ساتھ یہ پیش آیا ہے کہ دماغ کے اندر کام کرنے والے خلیے جو اعصاب کو کنٹرول کرتے ہیں کمزور ہوگئے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ۲x۲ فٹ سفید پلاسٹک شیٹ پر کسی پینٹر سے سیاہ چمکدار روشنائی کے ذریعہ

                                                الرضاعت عمانویل

            موٹا موٹا خوشنما لکھوا کر اس کمرے میں جہاں آپ سوتی ہیں دیوار پر لٹکا دیں۔ رات کو سونے سے پہلے اور صبح بیدار ہونے کے فوراً بعد اس تحریر کو دس دس منٹ دیکھیں۔

            ذہنی خلفشار سے نجات پانے کے لئے ہر وقت باوضو رہیں۔ باوضو رہنے میں طبیعت پر جبر نہ کریں۔ بول براز سے فارغ ہو کر تازہ وضو کر لیں۔ رات سونے سے پہلے نیلی روشنی کا مراقبہ کریں۔

                                                یا مھیلائیل

                                                یا منیائیل

                                                یا میکائیل

                                                یا جبرائیل

            مومی کاغذ پر لکھ کر موڑ لیں اور روئی میں لپیٹ کر اس طرح بتی بنا لیں جیسی دیئے میں جلائی جاتی ہے۔ رات سوتے وقت زیتون کا تیل کورے چراغ میں ڈال کر اس بتی کو اس طرح جلایا جائے کہ دھواں اپ تک پہنچتا رہے۔ یہ عمل چالیس روز کریں۔

            بازار کا پسا ہوا نمک بالکل استعمال نہ کریں۔ اصل لاہوری نمک کم سے کم مقدار میں استعمال کریں۔ خالص شہد روزانہ تین وقت ایک ایک چمچہ کھائیں۔ ہر جمعرات پانچ روپے خیرات کریں۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔