Topics
مزارات
سے وابستگی کے کیا عوامل ہیں اور رتعویذ
گنڈوں کے اثرات کس طرح مرتب ہوتے ہیں۔۔۔۔
درخواست ہے کہ اگر آپ ان سولاوں کا جواب دے سکیں تو وضاحت کے ساتھ جواب دیں۔
اگر آپ جواب دے سکیں کا جواب تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ میں نے چونکہ کبھی اپنے بارے میں عالم و فاضل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے میں جواب دینے سے قاصر ہوں مگر اوال ایسا ہے کہ جس کے بارے میں اکثر قارئین جواب سننا چاتے ہوں گے اس لئے جواباً عرض ہے کہ جس طرح نوع انسانی کا ورثہ علم ہے بالکل اسی طرح جہالت بھی آدم ذات کا ورثہ ہے۔ جس طرح تاریخ انسانی علوم سے فیض یاب ہے اسی طرح جہالت بھی تاریخ کےصفحات پر سیاہی پھیلا رہی ہے۔ نوع انسانی دو گرہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جہالت اور علوم جہالت میں اسیر قومیں گھٹیا درجہ کی دماغی کیفیت میں مبتلا رہتی ہیں اور علم سے فیضیاب قومیں اعلیٰ دماغ اور روشن زہن کی حامل ہوتی ہیں۔
جاہل بھی
دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک پڑھے لکھے بے علم جاہل، پڑھے لکھے جاہل وہ لوگ ہوتے ہیں
جو علم کو اپنی ذاتی انا اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور علم سے
کم عقل لوگوں کو اپنا آلۂ کار بنا لیتے ہیں اور اس طرح خود غرضی، نفسیات ، ذاتی
خوشحالی اور منفعت کے لئے ایسے ایسے دروازے کھل جاتے ہیں جس میں سے گزر کر کوئی آدمی شکوک و شہبات کا شکار
ہو کر بے یقینی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ آدمی کسی بات کو محض قیاس کی بنا پر تسلیم
کر لیتا ہے وہ دلیل یا حقیقت کی طرف ذہن
متوجہ نہیں کرتا۔ وہ اپنے وہم اور بے یقین ارادے سے متعدد چیزوں کے متعلق یہ فرض
کر لیتا ہے کہ وہ گیر معمولی طاقت کی مالک ہے۔ ایسے لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنے
جال میں پھنسانے کا چالاک لوگوں کو موقع مل جاتا ہے۔
کوئی فرعون
بن جاتا ہے اور کوئی شداد بن کر خدائی کا دعویٰ کرنے لگتا ہے ، کوئی مجاور بن جاتا
ہے اور لوگوں کو باور کراتا ہے کہ قدرت سے ان کا قریبی تعلق ہے۔ اگر تم قدرت سے
قریب ہونا چاہتے ہو تو ہماری قربت اختیار کرو، تم جو چاہتے ہو مل جائے گا۔ کوئی
عامل بن کر جھاڑ پھونک کر اور دوسرے عملیات کے طلسماتی طریقں سے آدمی کو یہ یقین دلاتا
ہے کہ تمہارے اوپر سفلی کا اثر ہے، تمہارا
ستارہ ساڑھ ستی میں ہے، ہمارے عملیات تمہاری حاجتیں پوری کر دیں گے۔ کم عقل اور بے
یقین معاشرہ کے لوگ ان کے چکر میں پڑ جاتے ہیں اور یہ چالاک لوگ ان کو اپنا خادم
بنا لیتے ہیں۔
اس کے
برعکس وہ لوگ ہیں جو صالحین اور انبیاء علیہ السلام کے علوم کے وارث ہیں، نوع
انسانی کے لئے رحمت بن کر دنیا میں رہتے ہیں۔
فطرتاً نیک اور پاکیزہ کردار کے حامل لوگ ہوتے ہیں، ان ہی پاکیزہ لوگوں کو
عرف عام میں اولیاء اللہ کہا جاتا ہے۔ اولیا اللہ جب اس دنیا سے پردہ کرتے ہیں اور
اپنی قبروں میں جا سوتے ہیں تو زندگی کی طرح عوام کا رجوع ان کی طرف برقرار رہتا
ہے۔ لوگ ان کی قبور پر اس لئے جاتے ہیں کہ انھیں وہاں سکون ملتا ہے اور ان بزرگوں
سے روحانی رشتے کی بنیاد پر ان کا تعلق اللہ سے قائم ہوتا ہے۔ جہاں تک منت ،
مرادوں اور دعاؤں کا تعلق ہے اگر کوئی شخص اس لئے دعا کرتا ہے کہ صاحب مزار نعوذ
بالللہ خدائی درجہ پر فائز ہے تو یہ شرک ہے لیکن کوئی اگر ان بزرگوں کی روحوں کے
واسطہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے
یا ان بزرگوں کی روحوں سے دعائیں کرتا ہے تو یہ ایک انسانی ضرورت ہے۔
انبیاء اللہ کے دوست اور شہداء کے اجسام بدستور قائم رہتے ہیں۔ ان کی ارواح متحرک
اور فعال رہتی ہے۔
رسول
اللہ ﷺ نہایت اہتمام کے ساتھ قبرستان تشریف لے جاتے اور وہاں قیام فرماتے تھے۔ آپ
ﷺ فرماتے تھے” السلام علیکم یا اہلِ
القبور۔“
حضور
تاجدار مدینہ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جب قبرستان جاؤ تو سلام کرو اور قبر میں
رہنے والے تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں لیکن تم نہیں سنتے۔
صاحب ِ
حال اور کشف القبور والے حضرات اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں اور یہ بات ان کے
مشاہدے میں ہے کہ دنیا سے جانے وا لا ہر شخص اعراف میں زندہ رہتا ہے اور وہاں اس
دنیا کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ وہاں کے لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے آتے ہیں اور ان
کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔
میں نے
ایک کتاب میں پڑھا ہے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ایک روز حضرت
حافظ ضامن شہید رحمتہ اللہ علیہ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو گھبرا کر ہاتھ
چھوڑ دیئے۔ مریدین نے پوچھا، حضرت جی ! کیا ہوا۔ حضرت نے فرمایا، حافظ صاحب نے
مجھے ڈانٹ دیا اور کہا۔۔۔ چل جا کسی مردے پر جا کر فاتحہ پڑھ۔
حضرت
سلطان الہند غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے
مزار مبارک پر چلہ کیا اور فرمایا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر ِ نور خدا
ناقصاں
راپیر کامل کاملاں را رہنما
حضرت شاہ
ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ، حضرت اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے علماء
کرام سے ایسے واقعات تواتر کے ساتھ منسوب ہیں۔
جب ہم
موت اور زندگی کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے کی ہے کہ جسم انسان ( جس
کو آپ نے گوشت پوست کہا ہے ) کی ہر حرکت روح کے تابع ہے۔ روح جب تک جسم کو سنبھالے
رکھتی ہے جسم میں حرکت رہتی ہے اور جب روح جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو جسم ناکارہ
ہو جاتا ہے۔
مطلب یہ
ہوا کہ گوشت پوست کے جسم کی اپنی کوئی
حرکت نہیں ہے۔ حرکت روح کے تابع ہے۔ آدمی مر جاتا ہے تو روح قائم رہتی ہے، روح
سنتی ہے، روح بولتی ہے، روح محسوس کرتی ہے، روح پہچانتی ہے۔ جب ہم اولیا اللہ کے
مزار پر حاضر ہوتے ہیں تو دراصل ولی کی روح کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ روح چونکہ
مرتی نہیں ہے صرف اتنی تبدیلی ہو جاتی ہے کہ روح نے گوشت کے عارضی جسم سے اپنا
رشتہ منقطع کر لیا ہے۔
کسی مزار
یا قبرستان میں حاضر ہو کر ہم روحوں کو سلام کرتے ہیں اور بزرگوں کی روحوں سے اپنے
لئے دعا کراتے ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ روحیں نوع انسانی کے رشتے کے تعلق کی بنا ء
پر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا
ارشاد ہے۔
مُجھ
سے دعا مانگ میں قبول کروں گا۔ (سورۃ مومن)
گوشت
پوست کے جسم کے ساتھ رہتے ہوئے روح دعا مانگے یا گوشت پوست سے آزاد ہو کر نور سے
معمور روح دعا مانگے، اللہ تعالیٰ اپنا
وعدہ پورا کرتا ہے۔
طلسماتی
تعویذ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک استدراجی علوم کے تحت لکھے جاتے ہیں اور دوسرے
روحانی علوم کے تحت لکھے جاتے ہیں۔ استدراجی علوم سے لکھے جانے والے تعویذات
طلسماتی کہلاتے ہیں۔ روحانی علوم سے لکھے جانے والے تعویذات میں اللہ کے نام ،
اللہ کے کلام اور قرآن کی آیتیں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک کی عظمت کے
بارے میں فرمایا ہے۔
اگر ہم قرآن کو پہاڑوں پر نازل کر دیتے تو پہاڑ ریزہ ریزہ
ہو جاتے۔ (سورۃ الحشر)
اس فرمان
میں قرآن کی طاقت اور عظمت کا تذکرہ ہے۔ روحانی تعویذ میں چونکہ اللہ کے کلام کی
طاقت ہوتی ہے اس لئے یہ تعویذ امراض کے لئے شفا بن جاتا ہے۔ دراصل اللہ کا کلام
امراض کے لئے شفا ہے۔
یہ کیسے
ممکن ہے کہ زمین سے نکلی ہوئی ایک جڑی
بوٹی میں تو شفا ہو اور اللہ کے کلام میں شفا نہ ہو۔ تعویذ لکھنا یا پڑھ کر دم
کرنا دونوں ایک ہی دائرے میں آتے ہیں۔ تعویذ کے اوپر رحمانی علوم کے تحت جو کچھ
لکھا جاتا ہے دراصل کسی اسم یا کسی آیت کے اندر روشنیاں یا انوار ہیں۔ انوار ہی
ساری کائنات ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا ہے۔
اللہ نُور الْسَمٰوَاتِ و الارض۔
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (سورۃ النور)
یعنی
زمین و آسمان کی ہر چیز وہ حرف ہو ، لفظ ہو یا نقطہ ہو اللہ کے نور کے غلاف میں
بند ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔