Topics

فنا اور بقا والی توانائی کی طاقت


علم حصولی کے سائنس دانوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دنیا کی توانائی کا دورو مدار طبیعاتی طور پر چار قوتوں پر قائم ہے۔ آپ علم ِ حضوری کے مفکر اور روحانی سائنس دان ہیں۔ روحانی طرزوں میں توانائی کی قوت کی وضاحت فرما دیں کہ ایا چار قوتوں والی سائنس  دانوں کی بات درست ہے؟۔۔۔ اگر نہیں تو اصل صورتحال کیا ہے؟۔۔۔

            میں سائنس  کی دنیا کا ایک ادنیٰ سا رکن ہوں اور توانائی کی ریسرچ میرا موضوع  ہے۔ دراصل ”فنا اور بقا“ والی توانائی کی طاقت سے واقف ہونا چاہتا ہوں۔

            مرزا ناصر بیگ ،               امریکہ                 (حال کراچی)

 

جواب:   سب سے پہلے یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ برسوں کی تحقیق و جستجو کے بعد طبیعات نے انکشاف کیا ہے کہ کائنات میں جاری وساری قوتیں جن کی تعداد اب تک چار سمجھی جاتی تھی صرف تین ہیں۔ کم علمی کی بنا پر ایک طاقت کو دو طرح شناخت کیا جا رہا تھا۔ سائنس کی دنیا میں اسی انکشاف پر پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو فزکس کا نوبل انعام دیا گیا ہے، گویا اس وقت توانائی کی طاقتیں چار سے گھٹ کر تین ہیں۔

            یہ نظریہ بھی سامنے آتا جا رہا ہے کہ علمی و تحقیقی ارتقا کے ساتھ آج سے پچیس، پچاس یا سو سال کے بعد موجودہ سائنس اس امر کی شہادت فراہم کرے گی کہ فی الواقع کائنات میں جاری و ساری طاقت صرف ایک ہے جس کو علمی کی بناء پر چار، تین یا دو سمجھا جا رہا تھا۔

                        علم حضوری سے وابستہ روحانی سائنس کے قوانین اٹل ہیں۔

                        روحانی سائنس کے نظریہ کے تحت پوری کائنات کی توانائی کا

                        دارومدار ایک اور صرف ایک ہی قوت پر قائم ہے۔

            یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے،

            ہمارے روحانی اسلاف میں کتنے ہی لوگ اس بات کو بیان کر چکے ہیں کہ کائنات کے تمام مظاہر کو ایک ہی توانائی کنٹرول کرتی ے اور توانائی کی اس قوت کا براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط ہے۔ قرآن پاک اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

                                                اللہ نُوْر السَمٰواتِ وَ لَارض

                                    اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ ( سورۃ النور)

            ہم مادی سائنس اور اپنے اسلاف کے علوم کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمارے اوپر حیرت کے باب کھل جاتے ہیں کہ آج سے تقریباً آٹھ سو سال پہلے حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ایک ایسے عظیم سائنس دان تھے جو فطرت کے قوانین کو جانتے تھے۔ جن کے وجود مسعود سے آفاقی قوانین کے راز ہائے سر بستہ کا انکشاف ہوا ہے۔ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ، فطرت کے قوانین کے استعمال کا جو طریقہ بتا گئے ہیں اور انہوں نے ان قوانین کو سمجھنے کی جو راہ متعین کی ہے، وہاں آج کی سائنس کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔

            حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا کہ زمین اور آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے جو اللہ تعالیٰ کے نور سے فیضیاب ہے۔ اگر نوع انسانی کا ذہن مادہ سے ہٹ کر اس روشنی میں مرکوزہو جائے تو وہ یہ سمجھنے  پر قادر ہو جائے گا ہ انسان کے اندر عظیم الشان ماورائی صلاحتیں ذخیرہ کر دی گئی ہیں جن کو استعمال کر کے نہ صرف یہ کہ وہ زمین پر پھیلی ہوئی اشیاء کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا سکتا ہے بلکہ ان کے اندر کام کرنے والی قوتوں اور لہروں کو حسب ِ منشاء استعمال بھی کر سکتا ہے۔پوری کائنات اس کے سامنے ایک نقطہ یا دائرہ بن جاتی ہے۔ اس مقام پر انسان مادی و سائل کا محتاج نہیں رہتا ، وسائل اس کے سامنے  سر بسجود ہو جاتے ہیں۔

            ہم جب قرآن کی تعلیم اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کو دیکھتے یں اور مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

            قرآن میں تفکر اگر ہمارا شعار بن جائے اور ہم اس تفکر کے نتیجے میں میدانِ عمل میں اتر آئیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ساری کائنات کی توانائی کی واحد قوت ”نور“ سے ہم واقف نہ ہو سکیں۔مسلمان کے پاس ماورائی علوم کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔اس کے اسلاف نے اس کے لئے حاکمیت اور تسخیر کائنات کے بڑے بڑے خزانے ترکہ میں چھوڑے ہیں لیکن مسلمان بد نصیب قوم ہے جس نے ہیرے کو پتھر کہہ کر پھینک دیا ہے اور خزانے  سے مستفیض ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے۔

            یہ سب کچھ اس لئے کہ مصلحتوں کے پیشِ نظر مسلمان کو تفکر کی راہ سے دور ہٹا دیا گیا ہے اور اس کے سامنے ایسی نہج آگئی ہے جہاں اس کا ہر عمل کاروبار بن گیا ہے۔ ہماری زندگی محض دنیا کے حصول تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہماری مہارتیں دکھاوے اور دنیاوی برکتیں سمیٹنے کے لئے مخصوص ہو گئی ہیں۔ ہم اعمال کے ظاہری پہلو کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر باطن میں بہتے ہوئے سمندر میں  سے ایک قطرہ آب بھی نہیں پیتے۔ بہرحال موجودہ سائنس تلاش و جستجو کے جس راستے پر چل رہی ہے آخر کار اس نتیجے پر پہنچ جائے گی کہ پوری کائنات کی توانائی کا دارومدار ایک قوت پر ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔