Topics

یقین سے کیا مراد ہے


ابدال حق قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب ، لوح و قلم میں علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین کا کئی جگہ تذکرہ  آیا ہے۔ براہ  مہربانی تشریح فرمایئے کہ تین یقینوں سے کیا مراد ہے؟

            شاہ عالم                            (کراچی)


جواب:   یہ ساری کائنات اور کائنات کا سارا پھیلاؤ  اور تمام نوعی اور انفرادی حالت دراصل اللہ کا یقین ہے۔ جب کچھ نہ تھا تو اللہ تھا، اللہ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں۔ پہچانے جانے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ہستی سامنے موجود ہو چنانچہ اللہ نے کائنات کو وجود میں لانے کے لئے یقین کا اظہار ”کُن “ کہہ کر کیا۔ کائنات کا پورا پروگرام اللہ کی مرضی اور منشاء کے مطابق جاری و ساری ہوگیا۔

            کائناتی پروگرام کی جزئیات پر اگر غیر جانبدار انہ غور کیا جائے تو ایک ہی بات حقیقت بن کر سامنے آتی ہے کہ یہ پروگرام صرف نظر ( نگاہ) کے اوپر قائم ہے۔ نظر یا نگاہ میں مختلف زادے ہیں۔ نظر کے ان زاویوں کو تصوف میں تین اصطلاحوں سے بیان کیا گیا ہے۔

                        ۱۔          علم الیقین

                        ۲۔        عین الیقین

                        ۳۔        حق الیقین

            علم الیقین کی تعریف یہ ہے کہ ایک شخص آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہا ہے۔ اس کے ذہن میں صرف یہ ہے کہ میں اپنے جیسا ایک انسان سامنے دیکھ رہا  ہوں ۔ اس کے علاوہ نہ اسے آئینے کی صفت کا پتہ ہے نہ ہی اس عکس کی صفت کو جانتا ہے۔ اس یقین کو  کہ مجھ جیسا انسان سامنے کھڑا ہے تصوف میں علم الیقین کہا جاتا ہے۔

            یقین کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص آئینہ دیکھ رہا ہے ، اس کو یہ علم ہے کہ میں آئینے کے اندر اپنا عکس دیکھ رہا ہوں۔ وہ خود کو بھی دیکھتا ہے لیکن وہ اپنی حقیقت سے واقف نہیں اور نہ ہی آئینے  کی حقیقت سے واقف ہے۔ اس حالت کو عین الیقین کہتے ہیں۔

            یقین کی تیسری صورت یہ ہے کہ دیکھنے والا یہ جانتا ہے کہ دیکھنے کی دو طرزیں ہیں، براہ راست دیکھنا اور بالواسطہ دیکھنا۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آئینے میں جو عکس دیکھ رہا ہے دراصل وہ آئینے کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہے یعنی آئینے نے اس شخص کے عکس کو  اپنے اندر جذب کیا اور آدمی نے آئینے کے دیکھنے کو دیکھا۔ اگر آئینے سے دریافت کیا جائے تو کیا دیکھ رہا ہے تو آئینہ کہے گا کہ میں آدمی کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہوں۔

            پیرا سائیکالوجی  کا علم بتاتا ہے کہ ہر چیز اپنے اندر دوسری چیز کے عکس کو جذب کر کے دوسرے کو دکھا رہی ہے ۔ کائنات کے جتنے بھی افراد ہیں براہ راست طرز فکر میں دیکھتے ہیں تو یہ  سمجھتے ہیں کہ ہر چیز خود کچھ نہیں دیکھ رہی بلکہ کسی کے دیکھنے کو دیکھ رہی ہے، جب یہ صورت حال علمی اعتبار سے منکشف ہو جاتی ہے اور دیکھنے والا آئینے  کی اور عکس کی حقیقت کو جان لیتا ہے تو تصوف میں اسے حق الیقین کہا جاتا ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔