Topics
مودبانہ درخواست ہے کہ قارئین روحانی ڈائجسٹ کو بتائیں کہ
وحی ، کشف اور الہام میں کیا فرق ہے۔۔؟
ڈاکٹر
سیما عرشی (نارتھ کراچی)
عماد
ملک (بحرین)
جواب: وحی منجانب اللہ ہوتی ہے۔
وحی
وہ نور ہے جس کے اندر غیب کی خبریں ہوتی ہیں۔
یہ خبریں گزشتہ واقعات کی بھی ہو سکتی
ہیں۔ اور آئندہ آنے والے واقعات کے خاکے
بھی ہو سکتے ہیں۔ چناچہ پیغمبروں کو اللہ تعالیٰ نے گزرے ہوئے واقعات اور آنے والے
حالات دونوں ہی سے باخبر رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ وحی کے اندر کسی بندے کا شعور
و ارادہ کام نہیں کرتا۔ بلکہ وحی
کے اندر صرف اللہ تعالیٰ کا تفکر کام کرتا ہے ۔
سورہ
اعراف نمبر ۲۰۳ میں ہے۔
اور
جب آپ نہیں لاتے ان کے پاس کوئی آیت تو کہتے ہیں
کیوں
نہ بنا لیا، تم نے خود اسے۔ فرمائیے میں تو اس کی پیروی
کرتا
ہوں جو وحی کی جاتی ہے میری طرف میرے رب سے۔
یہ
روشن دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت
اور
رحمت ہیں اس قوم کے لئے جو ایمان لاتی ہیں۔
وحی کی
مزید وضاحت سورۃ الشوریٰ نمبر ۵۱۔۵۲ میں کی گئی ہے،
اور
کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ کلام کرے اس کے ساتھ اللہ
تعالیٰ
(براہ راست) مگر وحی کے طور پر یا پس پردہ یا بھیجے کوئی
پیغامبر
اور وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو اللہ تعالیٰ چاہے۔
بلا
شبہ وہ اونچی شان والا بہت دانا ہے اور اسی طرح ہم نے ب
ذریعہ وحی بھیجا آپ کی طرف ایک جانفزا کلام اپنے حکم سے۔
نہ آپ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا
ہے لیکن ہم نے بنا دیا اس کتاب کو نور، ہم ہدایت دیتے ہیں
جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں کو۔
اس آیت
میں وحی کی تمام طرزوں کا بیان ہے ۔ وحی کو اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام کہا ہے۔
اللہ کا کلام اپنی مخلوق پر مختلف طریقوں
سے نازل ہو تا ہے، وحی کے طور پر یا پس پردہ۔ جیسے کوہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ
السلام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی نازل فرمائی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے
اللہ تعالی ٰ سے کلام کیا۔ یہ طریقہ وحی وہ ہے
جس کو پس پردہ یعنی حجاب میں کہا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان یہ تجلی حجاب بن گئی کہ
ذاتِ باری تعالیٰ کو وہ نہ دیکھ سکے بلکہ حجاب کو دیکھا اور حجاب کے ذریعے کلام
الٰہی سنا۔
پیغامبر
کے ذریعے یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے وحی پیغمبروں تک پہنچائی گئی۔
پیغمبروں کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے مگر وحی کشف، الہام اور القاء کی
ذیلی صورت میں باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کسی بشر کی یہ شان نہیں ہے۔ یہاں
بشر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، رسول یا پیغمبر کا لفظ نہیں استعمال کیا گیا یعنی ایک عام بشر بھی وحی
کی ذیلی طرزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے کلام کو حاصل کر سکتا ہے۔ انہیں ذیلی طرزوں
میں کشف، الہام اور القاء کے ساتھ ساتھ سچے خواب بھی شامل ہیں۔
سورہ نحل
میں ا للہ تعالیٰ نے مکھی پر وحی کرنے کا
بیان کیا ہے۔ مکھی پر وحی بھی وحی کی ذیلی طرزوں میں سے ہے۔
نزول وحی
کا وہ مخصوص طریقہ جس طریقے سے پیغمبران علیہم السلام پر وحی نازل کی جاتی ہے۔
آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ ، خاتم النبین ﷺ کے ساتھ ہی منقطع ہو چکا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی سنت جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام ، اس کا حکم اور اس کا
تفکر اس کی مخلوق میں نازل ہوتا رہتا ہے۔
وحی
کی حقیقت یہ ہے کہ شعور میں براہ راست وہ تجلیاں
نزول کرتی
ہیں
جو تجلیاں اللہ کی جانب سے روح میں نازل ہوتی ہیں۔ روح ان
تجلیوں
کو شعور میں منتقل کر دیتی ہے اور شعور ان تجلیات کے اندر
تفکر
کے ذریعے معانی پہناتا ہے۔ وحی کے نزول کے وقت شعور
کی
رفتار لاشعور کے برابر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وحی کے کلام
میں دنیاوی خیالات کا عکس تقریباً صفر ہو جاتا ہے۔
خاتم
النبیین سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بعد اگر چہ وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے مگر علوم نبوت کے
انوار دنیا میں جاری ہے۔آسمانی کتابیں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ جب بھی کوئی بندہ
پیغمبروں کی نسبت کے ساتھ ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتا ہے تو پیغمبرانہ طرز ِ فکر
کے انوار اس بندہ کی روح میں ذخیرہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ نے پیغمبروں پر وحی نازل کر
کے ان کے شعور کو اس حد تک بیدار کر دیا کہ وہ اپنی روح کی حرکات کو پہچان گئے اور
اپنی ذات کے ذریعے اللہ کی ذات و صفات کا عرفان حاصل کر لیا۔ پیغمبران علیہم
الصلوٰۃ واسلام کی سنت پر جو شخص عمل کرتا ہے اس کے اندر پیغمبرانہ کا تفکر بیدار
ہو جاتا ہے اور پیغمبروں کے وسیلہ سے انہیں اللہ کے علوم حاصل ہو جاتے ہیں اور وہ
حقیقی علوم سے واقف ہو جاتے ہیں۔
ایک
روحانی طالب علم واردات و کیفیات کو ادراک کی سطح پر محسوس کرتا ہے ۔ ادراک ایسا
خیال ہے جو لطیف ہونے کے باوجود خدوخال رکھتا ہے۔ ذہن کی پروز ان خدوخال کو چھو
لیتی ہے مثلاً جب کوئی شخص سیب کا نام لیتا ہے تو ذہن میں سیب کی تصویر ضرور آتی
ہے۔ یہ تصویری خدوخال اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ نگاہ ان کا مشاہدہ نہیں کرتی لیکن
احساسات ان کا احاطہ کر لیتے ہیں۔
بعض
اوقات مخفی اطلاعات آواز کی صورت میں موصول ہوتی ہے۔ آواز کی شدت زیادہ نہیں ہوتی
لیکن آواز کسی حد تک اطلاع یا منظر کی
تشریح کر دیتی ہے۔ ادراک گہرا ہو کر نگاہ بن جاتی ہے اور باطنی اطلاعات تصویریں
خدوخال میں نگاہ کے سامنے آجاتی ہیں اس کیفیت کانام ورود ہے۔
ورود اس
وقت شروع ہوتا ہے جب ذہنی یکسوئی کے ساتھ ساتھ غنودگی کا غلبہ کم سے کم ہو جائے۔
ذہنی مرکزیت قائم ہوتے ہیں باطنی نگاہ حرکت میں آجاتی ہے یکایک کوئی منظر نگاہ کے
سامنے آجاتا ہے چونکہ شعور اس طرح دیکھنے
کا عادی نہیں ہوتا اس لئے وقفے وقفے سے ذہنی مرکزیت قائم ہوتی ہے اور ٹوٹ جاتی ہے دیکھے ہوئے مناظر میں سے کچھ یاد رہتے
ہیں باقی بھول کے خانے میں جا پڑتے ہیں، رفتہ رفتہ آدمی ورود کی کیفیت کا عادی ہو
جاتا ہے اور مراقبہ میں واردات و مشاہدات کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا۔ کبھی مشاہدات
میں اتنی گہرائی پیدا ہو جاتی ہے کہ آدمی خود کو واردات کاحصہ سمجھتا ہے۔ مشاہدات میں ترتیب قائم ہونے
لگتی ہے اور معنی اور مفہوم ذہن میں منکشف ہو جاتے ہیں۔
بعض
لوگوں کی باطنی سماعت ، باطنی نگاہ سے پہلے کام کرنے لگتی ہے۔ سماعت کے حرکت میں
آجانے سے آدمی کو ورائے صوت آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ پہلے پہل خیالات آواز کی صورت
میں اتے ہیں پھر فضا میں ریکارڈ شدہ مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
بالآخر
آدمی کے شعور میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ جدھر اس کی توجہ جاتی ہے اس سمت کے مخفی
معاملات اور مستقبل کے حالات آواز کے ذریعے سماعت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب بار
بار یہ ہوتا ہے تو آواز کے ساتھ ساتھ نگاہ بھی کام کرنے لگتی ہے اور تصویری خدوخال
نگاہ کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس کیفیت کو ”کشف“ کہتے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں کشف
ارادے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یکا یک خیال کے ذریعے آواز کے وسیلے سے یا تصویری منظر کی معرفت کوئی بات
ذہن میں آجاتی ہے اور پھر اس کی صدیق ہو جاتی ہے۔
کشفی
صلاحیت جب ترقی کے مراحل طے کر کے شہود بنتی ہے تو ارادے کے ساتھ عمل ہونے لگتا ہے
اور آدمی کسی بات یا واقعہ کو ارادے کے ساتھ معلوم کر لیتا ہے۔ کشف کی کیفیت میں
ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ ظاہری اور باطنی حواس ایک ساتھ متحرک ہو جاتے ہیں۔ طالب
علم کے ذہن میں اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بیک وقت مادی اور روحانی دنیا کو
دیکھ لیتا ہے۔ بعض اوقات اندرونی نظر اچانک کھل جاتی ہے۔ آنکھیں بند کرنے کی ضرورت
نہیں پڑتی۔ یہ حالت دن رات میں ، چلتے پھرتے، بیٹھے ہوئے یا لیٹے ہوئے طاری ہو
جاتی ہے اور کبھی ہفتوں اور مہینوں میں بھی طاری نہیں ہوتی اس کیفیت کا نام ”
الہام“ ہے۔
۱۔ ”وحی“ وہ نور ہے جس میں غیب کی خبریں
ہوتی ہیں۔
وحی
میں اللہ تعالی کا تفکر کام کرتا ہے۔
۲۔ ”کشف“ میں انسان کی باطنی صلاحیتیں اتنی
زیادہ
بیدار
ہو جاتی ہیں کہ فضا میں ریکارڈ شدہ مختلف
آوازیں
سنائی دیتی ہیں اور جس طرف توجہ مرکوز
ہو
جائے مخفی معاملات اور مستقبل کے حالات
سامنے
آجاتے ہیں۔
۳۔ ”الہام“ میں آنکھ بند کیئے بغیر بہت ساری چیزیں اور مناظر نظر کے سامنے آجاتے ہیں اور یہ کیفیت دن میں کئی بار ہو سکتی ہے اور کبھی طویل عرصے تک نہیں ہوتی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔