Topics

نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔


روزنامہ جنگ ” قارئین کے مسائل“ کے کالم میں ایک صاحبہ کے سوال کے جواب میں آپ نے لکھا تھا کہ ماورائی علوم سیکھنے کے لئے جو اسباق ترتیب دیئے جاتے ہیں ان سب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سالک کے خیالات میں پاکیزگی پیدا ہو جائے۔

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اصل علم کی ابتدا ابھی نہیں ہوئی بلکہ وہ علم سیکھنے کے لئے خود کو تیار کرنے کے مرحلہ میں داخل ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مخفی علوم حاصل ہو جانے کے بعد از خود ذہنی یکسوئی اور مثبت طرزِ فکر طالب علم کو حاصل نہیں ہو جاتی۔۔۔ پھرخوامخواہ طوالت میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ مخفی علوم  علم سینہ ہیں اور سکھائے نہیں جاتے، منتقل کئے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی فرمایا ہے۔

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

 

جواب :   انسان ان ہی حقیقتوں کو سمجھنے اور پالینے کی کوشش کرتا ہے جن کی کوئی بنیاد ہوتی ہے۔ ان میں زیادہ حقیقتیں ایسی ہیں جو موجود ہونے کے باوجود ہمارے شعور میں نہیں آتیں۔ شعور کے دائرہ کار میں رہ کر ہم لاکھ کوششیں کریں لیکن ہم ان حقیقتوں کو اپنے اعصابی نظام اور گوشت پوست کے دماغ سے نہیں پہچان سکتے۔ جب ہم ان اٹل حقیقتوں کی چھان بین کرتے ہیں تو اس ادراک کی بنیاد وہ علم نہیں ہوتا جس میں شعوری حواس اور ادراک کا دخل ہوتا ہے اور ہماری عقل ان گتھیوں کو سلجھانے سے قاصر نظر آتی ہے۔

                                                عقل عملی تجربہ کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے جبکہ غیب میں آباد

                                                دنیا کے رموز و نکات کا تعلق لاشعوری حواس سے ہے۔

            جدید سائنس کی رو سے آدمی ایک سو چھبیس عناصر سے مرکب ہے۔ آگ ، پانی، ہوا، مٹی، ہائیڈروجن، ریڈیم، کاربن، نائٹروجن وغیرہ۔غرضیکہ جتنے بھی عناصر ملکر کسی مادہ کی تشکیل و تخلیق کرتے ہیں وہ سب آدمی کے اجزائے ترکیبی میں بھی شامل ہیں۔

            جب ہم مادی اعتبار سے آدمی ، حیوانات، چرند، پرندے، درندے۔ ذی روح اور غیر ذی روح سمجھی جانے والی مخلوق کا تجزیہ کرتے ہیں تو سب ایک خالق کی تخلیق نظر آتے ہیں۔آدمی جہاں افضل ہو کر انسان بنتا ہے اور اس میں جو چیز تمام مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہے وہ اس کی قوت ارادی ہے۔ انسان اپنی قوت ارادی سے نہ صرف یہ کہ عرفان حاصل کر لیتا ہے بلکہ وہ ہر کام کر لیتا ہے جو دوسری مخلوق نہیں کر سکتی ۔

            زمین پر سے خس و خاشاک دور کر کے کوئی پودا لگا دیا جائے تو وہ جلد نشو نما پاتا ہے اور جوان ہو کر اچھا پھل دیتا ہے۔ اسی طرح جب ذہن کو پوری طرح صاف کر کے کسی نئے علم کا پودا اس میں لگایا جائے تو اس پر بہت جلد پھل لگ جاتا ہے۔ جس طرح آپ اپنے جسم کا فاسد مادہ خود ہی خارج کر دیتے ہیں یا وہ قدرتی نظام کے تحت خارج ہو جاتا ہے اسی طرح ہیجان، جذبات اور خیالات کی کثافت کا خارج ہونا بھی ضروری ہے۔ جب تک دماغ جذبات و ہیجان کی کثافت سے صاف نہیں ہوتا، آدمی روحانی ترقی نہیں کر سکتا۔ اس صفائی کو حاصل کرنے کے لئے براہ راست مخفی علوم منتقل کرنے سے پہلے ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کے اسباق تجویز کئے جاتے ہیں۔

            نظریہ رنگ و نور کی رو سے ماورائی طاقت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دماغ کی کارکردگی اور دماغ کے کمپیوٹر کو سمجھ لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم عملاً اس مادی نظام سے الگ ہو کر دماغ کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے دماغ کی کاردگی اور دماغ میں موجود مخفی صلاحیتیں ہمارے سامنے نہیں آئیں گی۔

            ان مخفی اور لامحدود صلاحیتوں سے آشنا ہونے کے لئے یہ امر لازم ہے کہ ہم اس بات سے واقف ہوں کہ مفروضہ حواس کی گرفت سے آزاد ہونا کس طرح ممکن ہے۔

            جہاں تک طویل انتظار کا تعلق ہے۔ کائنات کے تخلیقی فارمولوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر گزرنے والا لمحہ انے والے لمحات کے انتظار  کا پیش خیمہ ہوتا ے۔ انتظار بجائے خود زندگی ہے اگر آج بیدار ہونے والے بچے کی زندگی میں انے والے ساٹھ سالوں پر محیط بڑھاپا چپکا ہوا اور چھپا ہوا نہ ہو تو پیدا ہونے والا بچہ پنگوڑے سے باہر نہیں آئے گا، نشونما رک جائے گی۔ کائنات ٹھہر جائے گی، چاند سورج اپنی روشنی سے محروم ہو جائیں گے۔

            جب ہم زمین میں کوئی بیج ڈالتے ہیں تو یہ دراصل اس انتظار کے عمل کی شروعات ہے کہ یہ بیج پھول بن کر کھلے گا۔ علامہ اقبال نے صحیح فرمایا ہے۔ منشا ء یہ ہے کہ جب  کوئی بندہ کسی خدا رسیدہ بزرگ کے زیر سایہ آجاتا ہے تو اس کے شب و روز اس بزرگ کے مطابق گزرنے لگتے ہیں۔ یہی تقدیر کا بدلنا ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔