Topics
تاریخی
شواہد ہمارے اوپر راز منکشف کرتے ہیں کہ یہ ساری دنیا تین گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔
زمین کا کوئی بھی خطہ ان تین گروہوں سے کبھی خالی نہیں ہوا۔
۱۔
رشد و ہدایت اور تعلیم و تربیت
۲۔
عقیدہ اور مذہب
۳۔
تمدن اور معاشرے
زندگی کے
ان شعبوں کی آبیاری کے لئے ہر زمانے میں قدرت ایسے لوگ پیدا کرتی رہتی جن کا مشن۔۔۔۔ اپنی ذات سے دوسروں کو کچھ
دینا ہوتا اور ان کی ذات کا انعکاس۔۔۔خاندانوں ، قبیلوں اور قوم کی طرز فکر کو جلا
بخشتا ہے۔ ایسے لوگ صدیوں پر محیط ہوتے ہیں۔
جب ہم
عقیدے اور مذہب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک لاکھ چوبیس ہزار قدسی نفوس کی مقدس
جماعت نظر آتی ہے۔ اس مقدس جماعت نے وحدانیت کا درس دیا ہے اور اپنے بعد ایسے لوگ
چھوڑے ہیں جنہوں نے رشد و ہدایت اور تعلیم و تربیت کے ذریعے نوع انسانی کو حیوانی
صفات سے ممتاز کیا ہے انہی اعلیٰ اذہان لوگوں میں ایسے مفکر پیدا ہوئے ہیں جنہوں
نے الٰہی قوانین سے اپنے تمدن اور معاشرے کو سنبھالا دیا ہے۔
علم۔۔۔۔۔
آدم کی میراث ہے ۔ انسان عل کی بنیاد پر ہی جنات اور فرشتوں پر برتری رکھتا ہے ۔
قوم کا درد رکھنے والے تمام دانشوروں نے بالخصوص علم سکھانے اور عل پھیلانے میں
اپنی زندگیاں وقف کی ہیں۔
آج کے
جدید دور میں علم سکھانے اور علم پھیلانے میں صحافت کا عمل دخل ہے۔ یہ ایک ایسا
میڈیا ہے جس سے ذہنی ارتقا ہوتا ہے۔ ہر خاص و عام دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے،
ترقی سے، تخریب سے اور علمی فضیلت(سائنسی ایجادات) سے واقف ہو جاتا ہے۔
قوم کے شعور
کو روحانی طرزوں میں بیدار اور متحرک رکھنے کے لئے میر خلیل الرحمٰن صاحب نے
روحانی ڈاک کا کالم شروع کرایا۔ ان کی
بصیرت اور شفقت سے اس کالم کے ذریعے خدمت خلق کا ایک مستقل سلسلہ قائم ہو گیا۔ اس
کالم کے ذریعے اب تک تقریباً چودہ لاکھ پریشان خواتین و حضرات کے مسائل کا حل پیش
کیا جا چکا ہے۔ بلاشبہ جنگ کا یہ کالم میر
صاحب کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
میر صاحب
کی جس صفت سے میں ہمیشہ ممنون اور متاثر ہوا وہ ان کے اندر لوگوں کے کام آنے کا
جذبہ تھا۔ دل آزاری سے بچنا میر صاحب کا مسلک تھا۔
روحانی
ڈاک سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی غارِ حرا کی سنت سے عوام پوری طرح متعارف نہیں تھے اور
روحانیت کو لوگ ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری سمجھتے تھے آج اللہ کے فضل و کرم اور
روز نامہ جنگ کے تعاون سے عام و خاص یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ روحانیت ایک ایسی منزل
اور ایک ایسا مقام ہے جو سیدنا رسول اللہ ﷺ کی سنت مطہرہ پر عمل پیرا ہو کر حاصل ہوتا ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ واسلام
کے عطا کردہ روحانی علوم میں جو پیش رفت ہوئی ہے یقیناً اس کا اجر میر خلیل
الرحمٰن صاحب کو ملے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اعلیٰ علیین میں مقام اعلیٰ
عطا فرمائیں۔
عزیزی
میر جاوید الرحمٰن اور عزیزی میر شکیل الرحمٰن کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے حفظ و
امان میں رکھے اور انہیں مزید ترقی اور کامیابی سے ہمکنار کرے۔ انہوں نے مجھے
ہمیشہ اپنے بزرگوں کی طرح سمجھا ہے میں ان کے غم میں برابر کا شریک ہوں اللہ
تعالیٰ انہیں صبرِ جمیل عطا کرے ۔
بڑوں کا
کہنا ہے کہ بڑے درخت کے نیچے چھوٹا درخت نہیں اُگتا۔ بلاشبہ صحافت اور علم کو عام
کرنے میں میر صاحب کی شخصیت بہت بؑی اور
اعلیٰ شخصیت تھی۔
کون جانے
میر صاحب جیسا محب وطن، محب قوم اور گداز دل انسان کتنی صدیوں کے بعد پیدا ہوگا۔
کسب
کمال کن کہ عزیز جہاں شوی
ثبت است
پر جریدہ عالم دوام ما
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔