Topics
میں کیڈٹ کالج پشاور کا طالب علم ہوں۔ آپ کی شخصیت سے
آشنائی آپ کی تحریروں سے ہوئی۔میں نے آپ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں اور میں نے ان
تحریروں سے بہت کچھ پایا ہے۔ آپ نے اپنی تحریروں میں شعاعوں اور روشنی کا ذکر کیا
ہے۔ میرے لئے یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ محسوس اور ٹھوس مادی اشیاء کس طرح سے روشنی
اور شعاعوں کا مجموعہ ہیں۔ کیا یہ صرف Theory اور مفروضہ ہے جس پر بغیر کسی تجربے کے ہم
یقین کرنے پر مجبور ہیں۔
مرزا
محمد واصف بیگ مغل (کیڈٹ
کالج، پشاور)
جواب: روحانیت کا لفظ جب زبان سے ادا ہوتا ہے تو اس
کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم کسی ایسی طرزِ فکر کا تذکرہ کر رہے ہیں جو طرزِ فکر
دنیا میں رائج تمام مادی علوم سے الگ ہے۔ ان علوم کا تعلق طبیعات سے ہو، نفسیات سے
ہو، مابعدالنفسیات سے ہو۔ ہر علم ہمیں ایک روشنی
دیتا ہے۔ شعوری طور پر جب ہم کچھ دیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں مادی آنکھ سے
دیکھ رہے ہیں اور اب روحانی آنکھ سے
دیکھنے کا تذکرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہماری آنکھ واسطہ بن رہی ہے۔
روحانیت کے
مطابق دیکھنے کی دو طرزیں ہیں ایک دیکھنا
براہ راست
ہوتا ہے اور ایک دیکھنا بالواسطہ ہوتا ہے۔
براہ راست دیکھنے سے منشاء یہ ہے کہ
جو چیز دیکھی جا رہی ہے وہ کسی میڈیم کے بغیر دیکھی جا رہی ہے۔ بالواسطہ دیکھنے کا
مطلب ہے کہ جو چیز ہمارے سامنے ہے وہ ہم کسی واسطے سے دیکھ رہے ہیں۔ ہر انسان اپنے
ذہن کو آئینہ تصور کرے تو دیکھنے کی براہ راست طرز یہ ہوگی کہ کوئی بھی صورت یا شے
پہلے ہمارے ذہن نے دیکھ ، پھر ہم نے دیکھا۔ ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں اپنے ذہن
کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔
کوئی خیال،
کوئی تصور کوئی شے اس وقت تک نگاہ کے لئے
قابل ِ
قبول نہیں ہے جب تک اس کی تصویر انسانی ذہن
کی اسکرین
پر پہلے سے منعکس نہ ہو۔
ہمارے سامنے ایک گلاس رکھا ہوا ہے اس
میں پانی بھرا ہوا ہے ۔ روحانیت کی طرزوں میں یہ دیکھنا Fiction اور غیر حقیقی ہے۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ
ہمارے ذہن کی اسکرین پر نگاہ اور علم کے ذریعے گلاس کا عکس اور پانی کی ماہیت جیسے
ہی منتقل ہوتی ہے آنکھ اس نقش کو محفوظ کر لیتی ہے۔
مثال: ہم گلاس دیکھتے ہیں یا گلاس پر
نظر پڑتی ہے تو گلاس کو پہچاننے کے لئے ہمیں نزول وصعود کے چھ دائروں سے گزرنا
پڑتا ہے۔ پہلے ہمارے اندر گلاس کا واہمہ پیدا ہوتا ہے۔ واہمہ میں جب گہرائی پیدا
ہوتی ہے تو خیال بن جاتا ہے یعنی ہم گلاس دیکھتے ہیں تو پہلے گلاس کا ہیولیٰ ہمارے
ذہن میں وارد ہوتا ہے جس ہیولیٰ میں نقش و نگار نہیں ہوتے لیکن نقش و نگار کا عکس
ذہن پڑتا ہے۔ اب عکس جس کو دیکھ کر گلاس کو محسوس کر سکتے ہیں لیکن دیکھ نہیں
سکتے۔ پھر یہی خیال اور گہرا ہوتا ہے تو تصور کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو جیسے ہی
تصور کی شکل اختیار کرتا ہے احساس کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ فوراً ہی احساس تصور
میں، تصور خیال میں منتقل ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم ایک وقت گلاس کو دیکھتے ہیں دوسرے وقت گلاس نہیں ہوتا
یعنی ہم نے جب گلاس کو دیکھا پہلے ہمارے
ذہن پر واہمہ وارد ہوا۔ ایسا واہمہ جس کو ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔ خیال
میں ایک شکل و صورت آئی۔ اس شکل وصورت نے جب گہرائی اختیار کی تو تصور بن گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم مادی گلاس کے نہ ہونے کے باوجود گلاس کو دیکھ رہے ہیں اور جب یہ
تصور گہرا ہو جاتا ہے تو ہمارے اندر گلاس کو دیکھنے کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور
ہم گلاس کو دیکھ لیتے ہیں اور چھو لیتے
ہیں۔
قانون:کسی چیز کو جاننے پہچاننے کا
ذریعہ اس کا ہیولیٰ اور مظہراتی خدوخال ہوتے ہیں۔
اس مظاہراتی خدوخال کا کوئی نہ کوئی نام ہوتا ہے۔ جیسے چاند،
سورج، ستارے
زمین،
آسمان میں بسنے والی مخلوقات فرشتے، زمین کے اوپر بسنے والی مخلوق
حیوانات،
نباتات، جمادات، جنات، زمین کے اندر بسنے والی مخلوق حشرات
الارض
وغیرہ۔
نام دراصل کسی شے کا جسمانی مظاہرہ
ہے۔ جب ہم چاند کہتے ہیں تو چاند کا ذہن میں آتے ہی ہمارے سامنے چاند کی شکل و
صورت آجاتی ہے۔ جب ہم قلم کہتے ہیں تو دراصل ہم ان جسمانی خدوخال کا تذکرہ کرتے
ہیں جو ہماری ظاہری آنکھوں کے سامنے ہے لیکن جب ہم بات کو گہرائی میں سمجھنے کی
کوشش کرتے ہیں تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ قلم دراصل اس حقیقت پر قائم ہے جو قلم
کے مفہوم سے ہمارے ذہن کو مطلع کرتی ہے ۔ مثلاً جب ہم قلم کہتے ہیں تو ہمارے ذہن
میں قلم کا وصف آتا۔ قلم کا وصف یہ ہے کہ قلم لکھنے کے کام آتا ہے۔ خیالات کو شکل
و صورت دینے اور مفہوم کو تحریری شکل میں کاغذ پر منتقل کرنے والی چیز کا نام قلم
ہے۔ قلم ایک جسم ہے لیکن قلم کا وصف اس کی
زندگی ہے۔
روحانیت کے مطابق کوئی چیز مجرد ہو،
مادی ہو، مرئی ہو یا غیر مرئی ہو بہرحال
دو لہروں سے تخلیق ہو رہی ہے ۔ کائنات میں موجود کسی شے کا قیام دو لہروں کے علاوہ
ممکن نہیں ہے۔ جب ہم مرئی شے دیکھتے ہیں تو ہمیں خدوخال نظر آتے ہیں لیکن ساتھ
ساتھ ہمیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ خدوخال سے مرتب اس شے کو کوئی نادیدہ شے
سنبھالے ہوئے ہے۔ دونوں لہریں اس نادیدہ شے کے ساتھ مل کر زندگی بن رہی ہیں اور
زندگی احساس یا حس کے نام سے جانی جاتی ہے۔ دراصل انسان کا لاشعور تصورات کو روشنی
سے مادے کی صورت میں بدل ڈالتا ہے۔ یہی مادہ جسمانی خدوخال اور شکل وصورت میں متعارف ہوتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔