Topics
میں
اس بات کی شاہد ہوں کہ آپ کے تجویز کردہ علاج سے اللہ نے بے شمار لوگوں کو شفا دی
ہے۔ جب کوئی شخص لہروں کے علم کا ماہر ہو جاتا ہے تو اس کی شخصیت مقناطیسی ہو جاتی
ہے۔ لہروں کے علم کے ماہر مریض کے سر پر ہاتھ رکھ کر بیماری کی
لہریں اپنے اندر جذب کر کے مریض کو ٹھیک کر سکتا ہے۔ ہر وہ ممکنہ مرض جو مردوں میں
ہوتا ہے لہروں کے علاج کا ماہر مرد اس مرض کی لہریں ا پنے اندر جذب کر کے زمین میں
ارتھ کر دیتا ہے مگر وہ امراض جو عورتوں اور مردوں میں یکساں طور پر نہیں ہوتے ان
کا علاج کس طرح ممکن ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ کچھ امراض خواتین کے لئے اور کچھ
امراض مردوں کے لئے مخصوص ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لہروں کے علم کا ماہر مرد صرف
ان بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے جو مردوں کے لئے مخصوص ہیں اور لہروں کے علم کی
ماہر خاتون صرف ان امراض کا علاج کر سکتی ہیں جو عورتوں کے لئے مخصوص ہیں یعنی یہ
علم کسی ایک صنف کے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ مرض کی لہریں ماہر سے مطابقت نہیں
رکھیں گی تو کس طرح وہ ان کو اپنے (Inner) میں داخل کرے گا
اور جب مرض (Inner) میں داخل
نہیں ہوگا تو ارتھ کس طرح ہوگا؟
ڈاکٹر
ناہید جاوید ۔ MBBS
جواب: تخلیق کا
فارمولا (Equation) یہ ہے کہ
ہر چیز دو رخوں سے مرکب ہے اور ہر رخ کے دو پرت ہیں۔ زمین پر کوئی ایک چیز بھی
ایسی نہیں ہے جو ایک رخ پر قائم ہو۔ ان دو رخوں میں ایک رخ غالب ہوتا ہے اور ایک
رخ مغلوب ہوتا ہے۔ کسی بھی فرد میں غالب رخ کا نام ہم مرد یا عورت رکھتے ہیں۔ تخلیق
آدم کے وقت صرف آدم کا وجود تھا۔ جب آدم کے غالب رخ (مرد) نے ظاہری دنیا میں
تنہائی اور تشنگی محسوس کی تو آدم کے اندر (Inner) میں چھپا ہوا مغلوب رخ (عورت ۔ حوا)
ظاہر ہو گیا۔
اگر حوا
کا وجود آدم کے (Inner) میں نہ ہوتا تو
حوا آدم کے وجود سے پیدا نہ ہوتی۔ اخبارات میں جنس تبدیل ہونے
کے واقعات ہم پڑتھتے رہتے ہیں، اس کا قانون بھی یہی ہے کہ غالب جنس کے اوپر رخ
غلبہ حاصل کر لیتا ہے، لڑکا لڑکی بن جاتی ہے اور لڑکی لڑکا بن جاتا ہے۔
روحانی علم کی روشنی
میں ہر انسان روشنی کے غلاف میں بندایک پتلا ہے یا روشنی کے تاروں سے بندھی ہوئی
کٹھ پتلی ہے۔ اگر روشنی کے تار حرکت نہ کریں تو کٹھ پتلی حرکت نہیں کرے گی۔ یہی صورت عورت اور مرد کی ہے مرد بھی
روشنیوں کے گلاف میں بند ہے۔ قانون تخلیق کے تحت روشنیاں بھی دو قسم کی ہیں اور ان
روشنیوں کے رنگ بھی جداگانہ ہیں۔ کروسوم
کے اوپر اگر مخصوص رنگ غالب آجائے تو لڑکی پیدا ہوتی ہےکروسوم کے اوپر دوسرے رنگ
کا غلبہ ہو جائے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ رنگ کی یہ مقداریں نفسیات میں امتیاز قائم
کرتی ہیں اور یہ مقداریں ہی خدوخال کا روپ دھار کر عورت یا مرد کی تخصیص کرتی ہیں۔
حضرت شیخ
عبد القادر جیلانی پیر و دستگیر رحمتہ اللہ علیہ کی ایک کرامت سے ہر خاص و عام واقف ہے حضرت نے کسی خاتون کی درخواست پر
فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے بیٹا دے گا۔بیٹے کے بجائے جب لڑکی پیدا ہوئی تو وہ خاتون
بیٹی کو لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ بڑے پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے عورت
کی معروضات سن کر فرمایا ، لڑکی نہیں لڑکا ہے۔
ماں جب
گھر پہنچی اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی اس کی گود میںلڑکی کے بجائے لڑکا تھا۔ اس
کرامت کے پیچھے یہ قانون کارفرما ہےکہ بڑے پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے غالب رخ
مغلوب کر دیا اور مغلوب رخ غالب کر دیا اور یہ اس لئے ہو گیا کہ حضرت اللہ کے
بنائے ہوئے تخلیقی فارمولوں سے واقف ہیں۔
آپ کے
سوال کے جواب میں عرض ہے ، لہروں کے علم کا ماہر کوئی مرد اگر کسی مرض کا علاج
کرتا ہے جو عورتوں کے لئے مخصوص ہے تو مرض کی لہریں اس کے مغلوب رخ (عورت) کے اندر
جذب ہو کر ارتھ ہو جائیں گی۔ لہروں کے علم کی ماہر عورت اگر کسی ایسے مرض کو سلب
کرتی جو صرف مردوں کے لئے مخصوص ہے تو یہ مرض مغلوب رخ (مرد) کے اندر جذب ہو کر
ارتھ ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔