Topics

قرب نوافل سے کیا مراد ہے؟


تصوف کی کتابوں میں ایک اصلاح ”قرب نوافل“ کا عام طور پر تذکرہ ملتا ہے۔  قرب نوافل سے کیا مراد ہے؟۔۔۔۔ اور

            انسان کس طرح قرب نوافل سے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کر سکتا ہے۔

                        نسیم احمد                     (کراچی)

 

جواب:   تصوف اور روحانیت کے بارے میں کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے روحانی علوم یا تصوف کی تدوین نہیں کی چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں روحانی علوم کی تدوین نہیں ہوئی جن کو سند مان کر روحانیت اور تصوف کو تسلیم کیا جائے، اس لئے تصوف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

            کچھ لوگ تصوف اور روحانیت کے بارے میں یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ ایسا علم ہے جس میں دنیا کی لذتوں سے منہ موڑ لیا جائے اور گوشی نشین اختیار کر لی جائے۔

            موجودہ دور میں ہر چیز دلائل کے ذریعے سمجھی جاتی ہے اس لئے ان سوالات کا سمجھنا ضروری ہے۔

            دراصل انبیاء کرام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرز فکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہوتی تھی کہ انبیاء کے  ذہن میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اللہ تعالیٰ کی ذات بےحد مستحکم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ تھی انبیا کرام کو اس بات کا دراک حاصل تھا کہ۔۔

                                    کائنات اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے،

                                    اللہ کے حکم سے ہر چیز بنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات ہر لمحہ،

                                    ہر قدم پر کائنات کو حیات نو عطا کر رہی ہے۔

                                    اللہ تعالی ہی کائنات کے مالک ہیں۔

                                    کائنات کے خواہ نوری اجسام ہوں، روحانی اجسام ہوں یا

                                    مادی اجسام ہوں ان سب کو اللہ تعالی ہر ہر لمحہ میں زندگی

                                    فراہم کر رہے ہیں۔

            جب انبیاء کو اس بات کا ادراک ہو جاتا تھا تو  وہ یہ سمجھ جاتے تھے کہ کائنات اور کائنات کے افراد کے درمیان جو رشتہ ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی وجہ سے قائم ہے۔

            انبیاء جب کسی چیز یا کسی فرد کے بارے میں سوچتے ہیں یا رابطہ کرتے تھے تو سب سے پہلے ان کا ذہن براہ راست اللہ کی طرف جاتا تھا اور پھر اس شے کی طرف۔۔۔۔ اس طرح مسلسل توجہ سے ان کا ذہن ان طرزوں کو اختیار کر لیتا تھا کہ اختیاری اور غیر اختیاری طور پر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتے تھے۔ رفتہ رفتہ اللہ کی صفات اور ذات ان کے ذہن پر اس طرح محیط ہو جاتی تھیں کہ انہیں  سوائے اللہ کے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اللہ ہی ان کی سماعت بن جاتا تھا ، اللہ ہی ان کے حواس بن جاتا تھا۔ یہ طرزِ فکر انبیاء کرام کی ہے۔ ایک طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان اللہ کے بارے اور اللہ کی موجودگی کے بارے میں عملی طور پر یقین رکھتا ہو۔ اس یقین کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مرتبہ احسان کا نام دیا ہے۔

            یہ بات کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں روحانیت کے اوپر کوئی خاص تحریر نہیں مرتب ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ

                                    سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی میں حضورﷺ پر

 مر مٹنے والے اور فدا ہونے والے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی

روح حضور ﷺ کی محبت سے رنگین تھی، حضور ﷺ کے

اعمال ِ زندگی اور حضور ﷺ کی ذات میں  بہت یکسوئی کے

ساتھ غور و فکر کرتے رہتے تھے۔

             اس غورو فکر سے حضور ﷺ کے قریب رہنے والے حضرات کی روحانی پیاس بجھتی رہتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضور ﷺ  کے اقوال میں بھی بہت زیادہ شغف تھا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  کی گفتگو میں انہماک کی وجہ یہ بھی تھی کہ حضور ﷺ کا ہر قول ، ہر عمل کی صحیح ادبیت ٹھیک ٹھیک مفہوم پوری گہرائیوں کے ساتھ ان کے  ساتھ ان کے اوپر  واضح ہوتا رہتا تھا۔

            مطلب یہ کہ احادیث سننے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے صحیح صحیح مفہوم سے پورا پورا اسفتادہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی روح کے اندر انوارات کے ذخیرے بغیر کسی کوشش یا ریاضت کے ذریعے ہو جاتے تھے۔۔۔۔  اور اس لئے  وہ حضور ﷺ کے قدسی الفاظ اور حضورﷺ کے نورانی کردار اور حضور ﷺ کے پیغمبرانہ ذہن سے بغیر کسی تعلیم، بغیر کسی کوشش کے روشناس تھے۔ اس لئے اس دور میں روحانی قدروں کا نہ ہونا یا روحانی علوم کا تفصیلی تذکرہ نہ ہونا اسی وجہ سے ہے۔

            صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد جوں جوں زمانہ گزرتا رہا روح کے انوارات معدوم ہونے لگے یہاں تک  کہ تبع تابعین کے بعد لوگوں  کو جو حضور ﷺ سے بھر پور محبت کرتے تھے، انہیں قرآن اور احادیث کے انوارات کی تشنگی محسوس ہونے لگی اور یہ محسوس کیا کہ اگر روحانی علوم کے قاعدے ، قوانین اور ضابطے  جو رسول اللہ علیہ اصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہوئے ہیں، عام نہ کئے گئے تو امت مسلمہ میں بہت بڑا خلا واقع ہو جائے گا لہذا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے انوار کو اپنی روح میں ذخیرہ کرنے کے بعد اللہ کے عرفان حاصل کرنے کے ذرائع تلاش کئے ، پھر ضابطے اور قاعدے بنائے۔

            یہ ضابطے اور قاعدے علمی اعتبار سے بنائے گئے تاکہ حضورﷺ کا امتی ہر شخص یہ علم حاصل کر کے رسول اللہ ﷺ کے انوار سے اپنی روح کو لبریز کرے اور ان روحانی قدروں سے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جائے۔

            چناچہ شیخ نجم الدین رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد مثلاً شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ ، خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے علمی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے مختلف طریقے اور لا شمار اختراعات ایجاد کیں۔ علمی حیثیت میں اللہ ان کے اسماء اور قرآن  پاک کی ان آیات کا انتخاب کیا گیا جس کے درد سے ذہن انسانی میں زیادہ سے زیادہ نورانی ذخیرہ ہو جاتا ہے۔

            یہ چیزیں شیخ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے تک نہیں ملتیں۔ شیخ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے بعد ایسا دور آیا کہ حضور ﷺ کی ذات و با برکت سے متعلق انوار و تجلیات لوگوں کے ذہنوں سے دور ہونے لگے۔۔۔ اور اللہ کی صفات کے جاننے میں وہ انہماک نہیں رہا جو صحابہ کرام کے زمانے میں تھا لہذا علمائے تصوف نے علمی حیثیت میں اللہ کے ان اسماء اور قرآن پاک کی آیات کا انتخاب کیا اور ان کے ورد کے مختلف طریقے ایجاد کئے۔ یہ اس لئے کیا گیا کہ جس طرح انبیاء علیہم السلام اللہ سے رابطہ قائم کرتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ربط قائم کرتے تھے اسی طرح عام مسلمان بھی حضور ﷺ اور اللہ سے رابطہ قائم کر لے اور اس  ربط کو ” نسبت علمیہ“ کہتے ہیں اور اسی  کا نام ” قرب نوافل“ ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔