Topics

فطرت اور جبلت میں بنیادی طور پر کیا فرق ہے


آپ اپنی اکثر تحریروں میں نوعی اشتراک کا ذکر کرتے ہیں۔ نوعی اشتراک کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی بتایئے کہ فطرت اور جبلت میں بنیادی طور پر کیا فرق ہے؟۔۔

            ارسلان احمد                           (کراچی)

  

جواب:   نوعی اشتراک کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر جتنی بھی نوعیں آباد ہیں ان کی زندگی میں تقاضے، حواس اور حسیات مشترک ہیں۔ بے شمار حیوانات کے عام مشاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اور دوسری تمام نوعیں عقل و شعور ، نسل کشی، بھوک رفع کرنے کے تقاضے میں اور بھوک پیاس میں ایک اشتراک رکھتی  ہیں۔ جس طرح انسان کا بچہ پہلے چھوٹا،پھر بتدریج بڑا ہوتا رہتا ہے، جوان ہوتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ بوڑھا ہو کر مر جاتا ہے۔ ان تمام ارکان زندگی میں انسان اور حیوان میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔

            انسان اور حیوان یا کسی اور نوع کی زندگی پر ہم غور کرتے ہیں تو وہاں ہمیں ایک فرق نظر آتا ہے کہ انسان علم سیکھ لیتا ہے چناچہ علم سیکھ کر حیوانات سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف جس طرح کسی حیوان کو بھوک لگتی ہے اسی طرح انسان کو بھی بھوک لگتی ہے تو صورت یہ بنی کہ جہاں نوعی اشتراک اس قسم کا ہے کہ نوع کا کوئی فرد کسی نوع سے الگ نہ ہو اسے قدرت  نے ”فطرت“ کہا ہے۔ فطرت ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان بھی بے اختیار ہے اور حیوان بھی بے اختیار ہے یعنی اس میں کسی قسم کی تبدیلی اس لئے ممکن نہیں ہے کہ اس میں قدرت نے کسی نوع کے کسی بھی فرد کو تبدیلی کا اختیار نہیں دیا ہے۔ کہاں پیدا ہو۔۔۔۔ کس طرح پیدا ہو۔۔۔ کس مقام پر پیدا ہو، بھوک پیاس ، سونے جاگنے میں جس طرح انسان مجبور اور بے اختیار ہے اسی طرح بغیر کھائے پیئے اور بغیر سوئے جاگے بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔

            تو اب کلیہ یہ بنا کہ جہاں نوعی اشتراک اس قسم کا ہو کہ جہاں آدمی بے اختیار ہو۔ بے بس ہو اور کسی بھی طرح اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ کر سکتا ہو تو اس کو فطرت کہا گیا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، اللہ نے جس فرد کو جس فطرت پر پیدا  کر دیا ہے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ فطرت ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ مثلاً زمین کے اوپر موجودکوئی بھی فرد اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ وہ کبھی کھانا نہ کھائے، پانی نہ پیئے، سوئے نہیں، سوئے تو جاگے نہیں یا ان کے یہاں کبوتر پیدا ہو جائے یا کبوتر کے یہاں انسان پیدا ہونے لگے۔ سیب پر انار لگ جائیں یا انار پر امرود  اُگ آئیں۔ یہ فطرت کا ایک ایسا عمل ہے کہ اس میں قدرت نے مقداریں معین کر دی ہیں۔ وہ مقداریں ہی فطرت ہیں۔ ان مقداروں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ کبھی ردو بدل نہیں ہو سکتا۔ اس برعکس قدرت نے مخلوق کو کچھ اختیارات بھی عطا کئے ہیں۔ جہاں مخلوق  کے اختیارات زیرِ بحث آجائیں وہ فطرت سے نکل کر جبلت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ قانون یہ بنا کہ فطرت ایک ایسا عمل ہے کہ قدرت نے انسان یا کسی بھی مخلوق کو اس میں با اختیار نہیں کیا ہے۔ قدرت جس طرح چاہتی ہے اسی طرح ہوتا رہتا ہے ، ہوتا رہا ہے اور اسی طرح آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ دوسری چیز جبلت ہے۔ جبلت میں انسان حیوان کو اختیار دیا گیا ہے۔

            مثلاً کھانا، بھوک، پیاس یہ فطرت ہے لیکن کیا کھانا ہے یہ جبلت ہے۔ بکری پتے کھاتی ہے، گوشت نہیں کھاتی ، یہ اس کی جبلت ہے۔ لیکن کھانا فطرت ہے، شیر گوشت کھاتا ہے، پتے نہیں کھاتا یہ اس کی جبلت ہے لیکن کچھ نہ کچھ کھانا، سونا جاگنا، نسل چلانا ، یہ اس کی فطرت ہے۔ ان دو کیفیات میں ساری کائنات چل رہی ہے ۔ کائنات سے ہٹ کر جب ہم انسانی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم انسان کو سامنے رکھ کر یہ کہیں گے کہ انسان دو کیفیات میں زندگی گزار رہا ہے۔ ایک کیفیت کا نام فطرت ہے اور دوسری کیفیت کا نام  جبلت ہے۔

            عقل و شعور کا جہاں تک تعلق ہے وہ فطرت میں کم استعمال ہوتی ہے اور جبلت میں زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ فطرت میں عقل وشعور اس لیے کم استعمال  ہوتی ہے کہ وہ قدرت کا ایک مضبوط نظام ہے۔ اس میں  عقل کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً اس میں عقل کی کیا ضرورت ہے کہ آپ کو بھوک لگے ۔ بھوک لگنی ہے لیکن کیا کھانا ہے اس میں عقل کی ضرورت ہے۔ پیاس لگنے میں عقل کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا پینا ہے یا کس طرح پیاس بجھانی ہے، یہاں عقل زیرِ بحث آجائے گی۔ سردی میں آپ شربت نہیں پیتے، گرمی میں گرم پانی نہیں پیتے۔ جہاں جبلت آجائے ، وہاں عقل زیرِ بحث آجائے گی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ جتنی زیادہ جبلت غالب آجائے گی آپ اتنی ہی فطرت سے دور ہوتے چلے جائیں گے اس لئے کہ فطرت آپ کو یہ بتا رہی ہے کہ کچھ کھانا ہے۔

            اب جب آپ نے اپنے ارادے اور اپنے اختیار کو استعمال کر کے یہ سوچا کہ ہمیں کیا کھانا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب فطرت میں آپ نے اپنی مرضی اور منشا سے معنی پہنا دیئے اور جب اپنی مرضی سے فطرت میں معنی پہنا دیئے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ فطرت Original                   نہیں۔ اس میں آپ کا اختیاری عمل دخل شروع ہو گیا۔ جتنا آدمی کا جبلت میں انہماک بڑھتا چلا جاتا ہے اسی مناسبت سے اس کا شمار حیوانات کی صف میں زیادہ ہوگا۔ جتنا آدمی جبلت میں غور و فکر کرے گا اور جبلت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لے گا اسی مناسبت سے وہ حیوانات میں داخل ہوتا جائے گا۔ لیکن اگر وہ جبلت کے ساتھ ساتھ فطرت کے اصولوں کو سامنے رکھے گا اور فطرت کے تحت جبلی تقاضوں کو پورا کرے گا تو وہ حیوانات کی صف سے نکل کر اشرف المخلوقات کے درجے سے قریب ہوتا جائے گا۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔