Topics
کیامافوق الفطرت صلاحیتوں کا بیدار ہوجانا ہی مقصد انسانی
ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بعض لوگ اپنی مافوق الفطرت صلاحیتیں بیدار کر کے بھاری
معاوضوں کے بدلہ یہ عملیات کرتے ہیں۔ کیا یہی انسان کا مقصد ہے۔۔۔
شاہ
نواز (بدین)
جواب: دنیا میں
ایسے بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے اپنی باطنی قوتوں کو بیدار اور متحرک کر کے ایسے
کمالات اور خرق عادات کا اظہار کیا ہے کہ لوگ حیران ہیں، پریشان ہیں۔بعض باتیں ان
سے اس قسم کی بھی سرزد ہوتی ہیں کہ بڑے بڑے صاحب علم لوگ ان کی اس روحانی قوت پر
ایمان لے آتے ہیں اور راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی
استطاعت ، اپنی صلاحیت اپنی استعداد اپنے ارادے سے خرق عادت کو بیدار کر سکتا ہے
لیکن ایسے بندے کے اندر استغناء پیدا نہیں ہوتا۔
آپ نے
ایسے لوگ دیکھے ہیں جو جادو ٹونے کا کام کرتے ہیں ، لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اور
لوگوں کے بنے ہوئے کاموں کو خراب کر دیتے ہیں لیکن فیس لیتے ہیں۔ آپ نے ایسے عامل
بھی دیکھے ہیں کہ پیری کی گدی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ صورت شکل فرشتوں جیسی بنائی ہوئی
ہے ، قال اللہ اور قال رسول کا چرچا ہے۔لباس عین اسلام کے مطابق ہے۔ جبے قبے
میں ڈھکے ہوئے ہیں لیکن لوگوں سے پیسے
وصول کر رہے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میرے
پاس ایک خاتون تشریف لائیں انہوں نے جو عامل صاحب کا نقشہ کھینچا اس سے ظاہر ہوتا
تھا کہ کوئی بہت ہی عابد، زاہد، زندہ اور شبِ بیدار ہے۔ مسائل اور مشکلات کا حل یہ
بتایا کہ صدقہ کر دو۔ خاتون نے پوچھا کس چیز کا صدقہ کروں۔۔۔ پیر صاحب نے بتایا کہ
اونٹ کا صدقہ کر دو اور اس زمانے کے حساب سے تین ہزار روپے لے لئے۔
میرے
مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیا ء نے ایک سائل کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا
کہ
پیر
اور فقیر میں فرق ہے۔ فقیر کی تعریف یہ ہے کہ اس کے
اندر
استغناء ملے گا۔ اس کے اندر دنیاوی لالچ نہیں ہوگا وہ
اس
بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا کفیل صرف اور صرف
اللہ
ہے۔ اللہ اس کو اطلس و کم خواب پہنا دیتا ہے وہ خوش ہو
کر
پہن لیتا ہے، اللہ اس کو کھدر پہنا دیتا ہے اس میں بھی
خوش
رہتا ہے۔ اللہ اس کو لنگوٹی پہنا دیتا ہے
اس میں بھی
خوش
رہتا ہے۔ اللہ اس سے لنگوٹی چھین لیتا ہے
وہ اس میں
بھی
خوش رہتا ہے اور دوسری پہچان یہ بیان فرمائی کہ جب
تک
بندہ فی الواقع کسی فقیر کی صحبت میں رہتا ہے اس کا
ذہن
صرف اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے شاذو نادر ہی اسے
دنیا
کے کام کا خیال آتا ہے۔
خرق
عادات کے ضمن میں آج کل سائنسی نکتہ نظر
سے جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان اپنی ذاتی
کوششوں سے اور متعینہ مشقوں سے اپنے اندر ماورائی صلاحیتوں کو بیدار کر لیتا ہے۔ ٹیلی پیتھی اور ہپنا ٹزم کے سلسلہ
میں یورپ اور بالخصوص روس میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے آدمی اس بات
کا یقین کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر ہم عبادات و ریاضت کو ماورائی علوم کا
ذریعہ سمجھیں تو یہ بات بظاہر کمزور نظر آتی ہے کیونکہ روس جس کا مذہب پر کوئی عقیدہ نہیں ہے ماورائی علوم کے حصول
میں قابل تذکرہ حد تک ترقی کر چکا ہے۔
تصوف میں
ایک تذکرہ آتا ہے تصرف کرنا یعنی شیخ اپنے مرید پر توجہ کر کے اس کے اندر کچھ
تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ یہ تصرف آج کی دنیا میں ایک سائنس دان بھی کر لیتا ہے اور
ٹیلی پیتھی کے ذریعے حسبِ منشا ء دوسرے آدمی کو متاثر کر کے اس کو وہ کام کرنے پر
مجبور کر دیتا ہے جو اس کے ذہن میں ہوتا ہے۔ تصوف میں دوسری بڑی اور اہم چیز اندر
دیکھنا ہے یعنی آدمی کے اندر ایسی باطنی نظر کام کرنے لگتی ہے جس نظر سے وہ اس
سیارے سے باہر کی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔
آج کے
دور میں یہ بات بھی ہمارے سامنے آ چکی ہے کہ مراقبہ بھی ایک سائنس بن چکا ہے۔ یورپ
میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی کتابیں شائع
ہو چکی ہیں جو مراقبہ اور مراقبے کی کیفیات پر سیر حاصل بحث کرتی ہیں۔
تیسری
چیز جو روحانیت ، تصوف اور مذہب میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے
اندر ایسی صلاحیتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن کی بنیاد پر وہ ایسے علوم کا اظہار کرتا
ہے جو علوم بظاہر کتابوں میں نہیں ملتے۔ سائنس نے اس سلسلہ میں بھی کافی پیش رفت
کی ہے اور ایسے علوم کا اظہار ہو چکا ہے کہ جن پر شعور انسانی نے یقین بھی
نہیں کیا اور بالآخر وہ چیزیں وجود میں آئیں اور آدمی ان پر یقین کرنے پر مجبور ہو
گیا۔ ان حالات میں تصوف کی اصطلاحیں توجہ ، تصرف باطنی نگاہ کا کھلنا Time and Space یا زمان و مکان سے آزادی ایک معمہ بن گئی ہے۔
اب تک یہ
سمجھا جاتا رہا ہے کہ ماورائی نظر کا متحرک ہونا صرف ذکر و فکر اور اشغال سے ممکن
ہے۔ ان حالات میں یہ سمجھنا ضروری ہو گیا ہے کہ جب ایسے لوگ جو مذہب پر عقیدہ نہیں
رکھتے تصرف کر سکتے ہیں ان کے اندر باطنی نگاہ بیدار ہو سکتی ہے وہ نئے علوم کی
داغ بیل ڈال سکتے ہیں تو پھر یہ تصوف کیا ہے۔۔۔
تصوف کے
ساتھ ساتھ مذہب کا تذکرہ بھی آتا ہے۔ مذہب کی بنیادی بھی انہی اصولوں پر رکھی گئی
ہیں کہ آدمی مذہبی فرائض پورے کرنے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی یا
دوسروں کی زندگی میں تصرف کر سکے۔ اس کی
باطنی نگاہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنے لگے لیکن جب ہم مذہب کے پیروکاروں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو
ہزاروں لاکھوں میں ہمیں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ملتا جس کی تصرف کی طاقت بحال ہو
گئی ہو اور جس کے اندر باطنی نگاہ کام کرتی
ہو۔
یہ بڑی
عجیب و غریب بات ہے کہ مذہبی لوگ ان علوم سے بے خبر ہیں جن علوم کی نشاندہی ایسے لوگوں نے کی ہے جو مذہب پر عقیدہ
نہیں رکھتے یا مذہب کو ایک مجبوری سمجھتے ہیں۔
ان حالات
میں ہر سنجیدہ آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے تو پھر تصوف اور مذہب کیا ہے۔۔۔اس بات کو
ہم یہاں مختصر کر کے پھر اپنے اصل موضوع استغنا ء کی طرف لاٹتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام
کے تذکرہ میں وضاحت کے ساتھ فرعون اور جادوگروں
کا تذکرہ کیا۔ فرعون نے جب دیکھا کہ اس کی خدائی پر حرف آ رہا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن رہے ہیں تو اس نے اپنی مملکت کے
تمام جادوگروں کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کریں اس دعوت میں جادوگروں کے لئے متوجہ کرنے کی
سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ اگر تم نے موسیٰ علیہ السلام کو شکست دے دی تو تمہیں
انعام و اکرام سے مالا مال کر دیا جائے گا۔ ایک میدان اور تاریخ مقرر ہوئی۔ جادو
گر جمع ہو گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی تشریف لائے۔ جادو گروں نے لاٹھیاں،
بانس اور رسیاں میدان میں پھینکیں وہ سانپ
بن گئے ، اژدھے بن گئے۔ لگتا تھا کہ میدان بڑے بڑے سانپوں اور اژدھوں سے بھرا
پڑا ہوا ہے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور سانپوں
کی پھنکار تھی۔
صورتِ
حال جب بہت نازک ہو گئی اتنی نازک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی گھبرا گئے تو
حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی
طرف متوجہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے موسیٰ! ڈر مت اپنا عصا پھینک۔ موسیٰ
علیہ السلام نے اپنا عصا پھینک دیا وہ عصا ایک بہت بڑا اژدھا بن کر میدان میں
دوڑتے ہوئے تمام سانپوں اور اژدھوں کو نگل گیا۔ اس واقعہ میں اگر تفکر کیا جائے تو
بہت سادہ سی بات یہ ہے کہ جادوگروں نے جب بانس پھینکے تو ان سے خرق عادت کا ظہور
ہوا اور وہ سانپ بن گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب عصا پھینکا وہ بھی اژدھا بن
گیا اور تمام سانپوں کو نگل گیا۔
ابھی ہم
نے عرض کیا ہے کہ آدمی اپنی کوششوں اور متعین طریقوں پر مشقیں کرنے کے بعد اس قابل
بن جاتا ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے خرق عادت کا اظہار کر سکے جیسا کہ جادو
گروں نے اپنے ارادے اور ا ختیار سے خرق
عادت کو ظاہر کیا کہ ایک مخلوق نے اس کا مشاہدہ کیا لیکن اس ایک بنیادی فرق ہے۔
جادو گر لا تعداد ہیں بانس اور رسیاں جو اژدھے اور سانپ بنے و ہ بیشمار ہیں۔ جادوگروں
کو ایک بہت بڑے بادشاہ کا تعاون بھی حاصل
ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا ہیں ان
کا تکیہ ، ان کا بھروسہ اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جائے کہ
جادوگروں کے دلوں میں چونکہ مال و دولت کی خواہش موجود ہے اس لئے ان میں استغناء
نہیں تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اندر چونکہ استغناء تھا اس لئے استغناء کی
قوت اور یقین نے جادوگروں کے تمام جادو کو برباد اور ختم کر دیا۔
یہی
صورتحال تصوف میں توجہ، تصرف اور باطنی نگاہ بھی ہے۔
اگر
کسی بندے میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق پیدا نہیں ہوا اور اس کے
اندر
استغناء کی قوتیں نہیں ابھریں تو اس سے
جو کچھ خرق عادت صادر
ہوئی
ہوگی وہ استدراج ہے، جادو ہے۔
مذہبی
عبادت کا بھی یہی قانون ہے۔ مذہب نے جو عبادتیں فرض کر دی ہیں ان فرائض کی ادائیگی
میں اگر بندے کا ذہن اللہ تعالیٰ کی ساتھ
وابستہ ہے تو یہ عبادت ہے ورنہ یہ عبادت نہیں ہے۔ کلمہ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ
یہ سب ارکان اس بنیاد پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس طرح چاہتے ہیں اس لئے ہم پر
لازم ہے کہ ان فرائض کی ادائیگی میں ہم کوئی کوتاہی نہ کریں لیکن اگر فرض کی
ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ یقین قائم نہ ہو تو یہ فرض کی ادائیگی نہیں ہوگی
اور بندہ بالآخر نقصان ( خسارے ) میں
ہوگا۔
قلندر
شعور ٹیکنالوجی کے طالب علم کو Practically بتایا
جاتا
ہے کہ اصل چیز استغناء ہے اور استغناء یہ ہے کہ ضرویات
کے
واحد کفیل اللہ تعالیٰ ہیں۔
اللہ
تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم رازق ہیں وہ
بہرحال رزق پہنچاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ
کے وہ کارندے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فی الارض خلیفہ کہا ہے۔ اس بات
پر کاربند ہیں کہ وہ مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے وسائل فراہم کریں۔
بہت عجیب
بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے پیدا کرتے
ہیں آدمی زندہ رہتا ہے اور جب وہ نہیں چاہتے تو آدمی سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ میں اپنے
اختیار سے زندہ ہوں۔ معاشی سلسلہ میرے اپنے اختیار سے قائم ہے۔ اس سلسلے میں ایک مرتبہ حضور قلندر
بابا اولیاء نے فرمایا، کسان جب کھیتی کاٹتا ہے تو جھاڑو سے ایک ایک دانہ سمیٹ
لیتا ہے اور جو دانے خراب ہوتے ہیں یا گھن کھائے
ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی اکھٹا کر کے جانوروں کے آگے ڈال دیتا ہے۔ جس زمین
پر گیہوں بالیوں سے علیحدہ کر کے صاف کیا جاتا ہے وہاں اگر آپ تلاش کریں تو مشکل
سے چند دانے نظر آئیں گے۔
لیکن جب
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پرندے اور کھربوں کی تعداد میں دانہ چگتے
ہیں ان کی غذا ہی دانہ ہے تو یہ معمہ حل
نہیں ہوتا کہ کسان تو ایک دانہ نہیں چھوڑتا ان پرندوں کے لئے کوئی مخصوص کاشت نہیں
ہوتی پھر یہ پرندے کہاں سے کھاتے ہیں۔۔۔
حضور
قبلہ نے فرمایا کہ
قانون
یہ ہے کہ پرندوں کا غول جب زمین پر اس ارادے سے
اترتا
ہے کہ ہمیں یہاں دانہ چگنا ہے ۔ اس سے پہلے کہ ان کے
پنجے زمین پر لگیں قدرت وہاں دانہ
پیدا کر دیتی ہے۔
اگر پرندوں کی غذا کا دارومدار حضرت انسان یعنی
کسان پر ہوتا تو سارے پرندے بھوک سے مر جاتے۔ دوسری مثال حضور بابا صاحب نے یہ
ارشاد فرمائی کہ چوپائے بہرحال انسانوں سے بہت بڑی تعداد میں زمین پر موجود ہیں ۔
بظاہر وہ زمین پر اگی ہوئی گھاس کھاتے ہیں ، درختوں کے پتے چرتے ہیں لیکن جس مقدار
میں گھاس اور درختوں کے پتے کھاتے ہیں زمین پر کوئی درخت نہیں رہنا چاہیئے ۔ قدرت
ان کی غذا کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اتنی بھاری تعدادا میں درخت اور گھاس پیدا
کرتی ہے کہ چرندے سیر ہو کر کھاتے رہتے ہیں۔ گھاس اور پتوں میں کمی واقع نہیں
ہوتی۔
روحانیت میں پیغمبرانہ طرزِ فکر پر اس لئے زور دیا جاتا ہے کہبندہ جب ذاتی اغراض سے نکل جاتا ہے تو اسے استغناء حاصل ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔