Topics
ہر انسان دو ایجنسیوں
سے مرکب ہے ایک کو ظاہر الوجود اور دوسرے کا باطن الوجود کہا جاتا ہے. ۔ ظاہر الوجود
بیداری کے ہالے میں بند ہو کر حرکت کرتا ہے جبکہ باطن الوجود رات کے ہالے میں
متحرک رہتا ہے۔
انسان
بیک وقت ایک ہی اطلاع کو دو طرح قبول کرتا ہے۔ ایک طرز یہ ہے کہ اس میں ٹائم اسپیس
کا غلبہ شعوری اعتبار سے نامعلوم ہوتا ہے۔ ایک ہی اطلاع دو حواس پر تقسیم ہوتی
رہتی ہے۔
۱۔ آدمی پابند ہو کر زندگی گزارتا ہے۔
۲۔ آدمی آزاد ہو کر زندگی گزارتا ہے۔
باطن
الوجود میں آزادی ہے جبکہ ظاہر الوجود میں آزادی نہیں ہے۔
سورج کا
گرہن ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ روشنی پر تاریکی غالب آگئی۔ روشنی پر تاریکی کے
غلبہ میں اللہ تعالیٰ کا ایک مستقل نظام
کام کر رہا ہے۔جتنے بھی آسمانی صحائف اللہ تعالیٰ
کی طرف سے نازل ہوئے یا پیغمبروں پر کتابیں نازل ہوئیں اس سب کا منشاء یہ
ہے کہ انسان مخلوقات میں ایک مشرف مخلوق ہے اور شرف کا دارومدار اس بات پر ہے کہ
انسان اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرے۔ قربت کے حصول کا ذریعہ انبیاء کرام علیہم
الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات میں رات کے حواس سے مربوط ہے۔
۱۔ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو
رات میں
داخل
کرتا ہے۔ (سورۃ فاطر)
۲۔ اور وہی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو
رات پر لپیٹتا
ہے۔ (سورۃ الزم)
۳۔ ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر دن کو۔ (سورۃ یٰسین)
نوع
انسانی کا جو ہر پیغمبران علیہم السلام ہیں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جہاں حضرت
موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں ارشادہے۔
ہم
نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور چالیس میں پورا کیا۔
سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی معراج کے واقعہ میں بھی رات کے حواس کا تذکرہ موجود
ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بھی پہلے خواب میں پیش آیا۔ بعد میں اس کا
مظاہرہ ہو گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے
خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند، سورج
مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ علمائے ربانی اس کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ
سے قربت ( غیب کی دنیا میں داخل ہوں) اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا ذریعہ رات کے
حواس ہیں۔ رات کے حواس دراصل ظاہرالوجود کے برعکس باطن الوجود کے حواس ہیں۔
سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ارشاد عالی مقام ہے کہ سورج گرہن کے وقت نماز کسوف
ادا کی جائے اور نماز کسوف میں بڑی بڑی سورتیں جیسے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران
کی تلاوت کی جائے ۔ سورہ بقرہ اور سورہ آل
عمران میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر تفکر کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ
ان سورتوں میں وہ ساری ہدایات ہیں جن پر عمل کر کے نوع انسانی شعوری حد بندیوں سے
آزاد ہو کر لاشعوری دنیا یعنی غیب کی دنیا میں داخل ہو سکتی ہے۔
سورج
گرہن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اجرام فلکی میں چاند زمین کے گرد گردش کے دوران
مختلف مدارج سے گزرتا ہے۔ گردش کے ابتدائی دنوں میں چاند کا جتنا حصہ سورج کی
روشنی سے منور ہوتا ہے اسے ”ہلال“ کہتے
ہیں ہر رات اس کے روشن حصے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ ۱۴ دنوں میں چاند
پورا ہو جاتا ہے رفتہ رفتہ چاند گھٹنا شروع ہوتا ہے اور بالآخر نظروں سے اوجھل ہو
جاتا ہے۔
یہ نظام
جہاں اللہ تعالیٰ کی بہترین تخلیق کی نشاندہی ہے وہاں انسان کے دو حواس کی درجہ
بندی ہے۔
۱۔
بیداری کے حواس
۲۔ رات کے حواس
تاریخ کا
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ نوع انسانی نے کسی بھی دور میں زمین کی قدر نہیں کی ہمیشہ
زمین کی کوکھ اجاڑنے پر مصروف عمل رہی۔
قدرت کا
ایک چلن ہے ، وہ یہ کہ
قدرت
اپنی مخلوق سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔
اپنی
مخلوق کے لئے ایثار کرتی ہے۔۔۔
اپنی
مخلوق کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔۔۔
تخلیقی
عوامل کو مستحکم اور مربوط کرنے کے لئے وسائل فراہم کرتی ہے۔
چاند اور
سورج کی گردش میں یعنی کائناتی سسٹم میں جب ایسا موقع آتا ہے کہ چاند براہ راست
سورج کے سامنے آجائے تو روشنی کا انعکاس
متاثر ہوتا ہے اور سورج کی روشنی آہستہ آہستہ مدہم ہو کر تاریکی میں ڈوب
جاتی ہے۔ اس نظام کی تبدیلی سے زمین کے اوپر فتنہ و فساد اور خونریزی سے حیات کے
لئے مضر عناصر میں پیدا ہونے والی شدت اس تبدیلی سے ختم ہو جاتی ہے زمین کو ایک
نئی زندگی فراہم ہو جاتی ہے۔
یہ بات کہ
ہمارے آقا ، مولا، خاتم النبین سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ ” سورج گرہن کے وقت عبادت کی
جائے توبہ استغفار کیا جائے ، اللہ سے
رجوع کیا جائے“ دراصل شعوری شعوری واردات و کیفیات سے آزاد ہونے کے لئے توجہ اور
مرکزیت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
ہمارا
تجربہ ہے کہ آدمی دن بھر پریشانیوں اور وسوسوں میں مبتلا ہو کر رات کو سو جاتا ہے
یعنی دن کے حوالے سے نکل کر رات کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر
پریشانی اور تھکان کا غلبہ ختم ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر پریشانی اور تھکان کا
غلبہ ختم ہوجاتا ہے تو وہ پرسکون ہو جاتا
ہے۔
روحانی
نقطہ نظر سے زمین کے بھی دو وجود ہیں زمین
کا ایک وجود باطن الوجود ہے اور زمین کا دوسرا وجود ظاہر الوجود ہے اور زمین کا دوسرا وجود ظاہر الوجود ہے۔ زمین کا باطن
الوجود ”رات“ ہے اور ظاہرالوجود ”دن“ ہے۔
جب زمین کا ظاہر الوجود باطن الوجود میں
داخل ہوتا ہے تو زمین کے اندر موجود عناصر میں نئی انرجی داخل ہو جاتی ہے جس پر
موجود مخلوق کو حیات نو عطا ہوتی ہے۔
نماز اور
توبہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ توبہ استغفار کے بعد گناہوں میں لتھڑی ہوئی مخلوق میں
پاکیزاہ اوصاف بیدار ہو جاتے ہیں اور اس کے اندر انوار و تجلیات کا ذخیرہ ہو جاتا
ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔