Topics

روحانی علوم کی منتقلی کے لئے بیعت کا ہونا لازمی ہے


            ایک شخص بیعت ہو گیا تین چار سال مرشد سے تربیت لی اور یہ سوچ کر دوسری جگہ بیعت ہو گئے کہ یہاں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ دوسری  جگہ بیعت کر لینے سے اس شخص کے لئے تین چار سال تو ضائع ہو گئے۔ نئی جگہ بیعت ہونے سے نئے سرے سے تربیت شروع ہوگی۔

            ایسا بھی ممکن ہے کہ کچھ عرصہ یہاں تربیت لے کر کوئی اور اچھا شخص نظر آیا تو وہاں بیعت کر لی اور مزید اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ظاہر ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ ”  دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا“ چناچہ کچھ حاصل بھی نہ ہوا اور وقت الگ برباد ہوا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ بیعت میں جلد بازی نہ کی جائے۔ اگر بیعت کر لی تو ایک جگہ مستقل مزاجی سے ٹھہرا جائے۔

            ہر کام میں وقت لازمی لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ سب کچھ فوراً ہی مل جائے۔ ۲۱ سال کا کورس ۸ سال میں تو مکمل ہو سکتا ہے یہ ممکن نہیں کہ ۸ سالہ کورس ۸ ماہ میں مکمل ہو جائے۔ ۸ ماہ کی مدت میں بچہ ”الف ب“ لکھنا بھی نہیں  سیکھتا۔

                                    کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کا اختیار خود انسان کے ذوق و شوق پر منحصر ہے۔

            فرض کریں کہ ایک شخص ۳۰ سال کی عمر میں کسی سلسلے میں داخل ہوا ، گزشتہ ۳۰ سال کے عرصے میں وہ اپنے اندر شکوک و شہبات ، حرص و ہوس کی کثافتیں جمع کرتا ہے۔ اب ۳۰  سال کی عمر میں سلسلے میں داخل ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ۳۰ سال کی کثافت کی صفائی میں لگیں اور اگر ۳۰ سال صفائی کو لگ  جائیں تو عمر ۶۰ سال ہوگئی۔ ساٹھ سالہ شخص وہ سب کچھ نہیں کر سکتا جو ۳۰ سالہ شخص عبادت و ریاضت کر سکتا ہے۔ ۶۰ سال کی عمر تک اعصاب بھی کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اگر محض تین مہینے کسی سلسلے میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص کہے کہ کچھ حاصل نہیں ہوا تو کچھ مناسب نہیں کیونکہ   اتنے عرصے میں تو A B C نہیں سیکھی جا سکتی۔

            اگر تین مہینوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سلسلے کی طرف سے ملنے والے اسباق پابندی سے نہیں کئے گئے۔ ناغہ ہو جاتا ہے حالانکہ ناغہ کرنے پر ملازمت سے بھی برطرف کر دیا جاتا ہے۔

                                    اگر پیر و مرشد کا وصال ہو جائے تو اس صورت میں بھی

                                    بیعت دوسری جگہ نہیں کی جا سکتی۔ اتنی رعایت ہے کہ

                                    اگر مرشد کے وصال کے بعد کوئی ایسا بندہ مل جائے جس

                                    کی طرزِ فکر مرشد کے قریب  ہو اس بندہ سے شاگردی

                                    اختیار کی جا سکتی ہے۔ مرشد کے وصال کے بعد بھی بیعت

 توڑی نہیں جا سکتی کیونکہ وصال کے بعد بھی اس کے

روحانی فیض جاری رہتے ہیں اور اگر کسی دوسری جگہ

بیعت کی روحانی استاد خود اجازت دے تو اس صورت

میں کوئی جواز نکالا جا سکتا ہے کہ کوئی دوسرا روحانی

استاد اس کو قبول کر لے۔

بیعت کا لفظ خود بہت معتبر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو  کسی کے ہاتھ بیچ دینا۔ کسی کے ہاتھوں اپنے آپ کو بیچنے سے قبل اور اس کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالنے سے قبل اتنا ضرور سمجھ لیا جائے خود کو کس کے ہاتھ بیچا جا رہا ہے۔ اگر اللہ کے لئے خود کو بیچا جا رہا ہے تو کیا اس بندے میں اتنی سکت ہے کہ وہ اللہ تک پہنچا سکے۔ آیا اس بندے کا بھی اللہ سے کوئی تعلق ہے یا نہیں بیعت کرنے سے قبل ہر طرح کا اطمینان کر لینا چاہیئے۔

            آدابِ مرشد کے حوالے سے اکثر یہ بات نظر آتی ہے کہ مرشد کو آنکھ اُٹھا کے نہیں دیکھ سکتا۔ سوال بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بس اپنے مرشد کے پاس آنکھیں بند کر کے بیٹھے اور آگے ہمارے خیال میں درست نہیں۔

            حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب تک مرید مرشد سے سوالات نہیں کریں گے تو علم سیکھنے کا عمل کس طرح پورا ہوگا۔۔۔ اگر استاد کو نظر بھر کر  دیکھا نہ جائے تو قربت کا احساس کس طرح ہوگا۔۔۔۔ ادب اپنی جگہ ہے۔

            فرض کیا ایک شخص نے جس استاد سے نرسری پڑھی تھی اب اس کے Ph.d                کرنے کے بعد وہ استاد اس سے ملنے اس کے گھر آئے تو اس وقت شاگرد کی کیفیت یہ ہوگی کہ وہ خوشی سے استقبال کرنے کھڑا ہو جائے ، محبت و عقیدت سے گلے لگ جائے اور ظاہر ہے کہ کوئی مصنوعی پن نہیں ہوگا۔ یہ اس کے اندر کا تقاضا ہوگا ذہن میں پہلی بات یہ آئے گی یہی وہ ہستی جس نے مجھے حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے دائرے میں داخل کیا۔

            ادب و احترام کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شاگرد استاد کے سامنے آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائے۔ ادب و احترام کا مطلب یہ ہے کہ استاد کی تعظیم کی جائے۔

                                    احترام یہ ہے کہ استاد نے رات ۲ بجے تہجد ادا کرنے کو کہا ہے،

                                    اب شاگرد پر لازم ہے کہ وہ نفل ادا کرے۔ نفل ادا نہ کرنا بے

                                    ادبی اور گستاخی ہے۔

                                    پیر و مرشد کا احترام یہ کہ پیر و مرشد کی ہر ہدایت پر عمل کیا

                                    جائے۔

                                    مرید پر مرشد کا یہ حق ہے کہ وہ تمام تعلیمات اور ہدایات پر

                                    عمل کرے اور جو اسباق دیئے جائیں ان پر عمل کیا جائے۔

            مرشد پر مرید کا کا حق یہ ہے مرید کی کوشش کے مطابق اس کو علم منتقل کرتا رہے۔ جب تک مرید مرشد کا حق ادا نہیں کرتا مرشد بھی مرید کا حق ادا نہیں کرتا۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔