Topics

روحانی طور پر نظام تخلیق میں حواس کا عمل دخل کس طرح ہے


الشیخ عظیمی صاحب ! السلام علیکم

            قرآن کریم میں کئی جگہ نوع آدم کے ساتھ نوع اجنہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جسمانی آنکھ نوع اجنہ کو نہیں دیکھتی۔ دونوں انواع کا قرآن جس طرح تذکرہ کرتا ہے اس کے مطابق دونوں انواع حرکت پذیر ہیں اور حواس رکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ

                                    روحانی طور پر نظام تخلیق میں حواس کا عمل دخل کس طرح ہے

 

جواب:   کائنات میں جتنی بھی موجودات ہیں خواہ وہ مرئی ہوں یا غیر مرئی ہوں ان میں ایک رُخ ٹھوس ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی روشنیوں کا بنا ہوا ایک رُخ پیوست ہوتا ہے۔ یہ رُخ بالکل اسی طرح ہے جس طرح گوشت پوست کا آدمی ہے۔ روشنیوں کا یہ آدمی غیر مرئی ہے اور ٹھوس آدمی مرئی ہے ۔ جس طرح مرئی رُخ یعنی ٹھوس جسم کا دوسرا رخ روشنیوں کا جسم ہے اسی طرح غیر مرئی جسم کے بھی دو رخ ہیں ۔ ایک رخ روشنیوں سے بنا ہوا  جسم اور دوسرا رخ نور کا بنا ہوا جسم۔ کائنات میں جو بھی شے موجود ہے اس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ یہ دونوں رخ مل کر ہی دراصل ماہیت یا فعل بنتے ہیں۔ ان دونوں رخوں  کے میل کے بغیر کوئی قالب مکمل نہیں ہوتا۔

            تخلیقی فارمولے کے تحت کائنات میں کوئی بھی چیز وہ مرئی  ہو یا غیر مرئی ہو بغیر شکل و صورت کے نہیں ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ شکل و صورت کو جسمانی آنکھ نہ دیکھ سکے لیکن روح کی آنکھ اس وجود کو اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح جسمانی آنکھ کسی مادی قالب کو دیکھتی اور  محسوس کرتی ہے۔

                                                مرئی اور غیر مرئی وجود کے ضمن میں یہ قانون  ذہن نشین

 رہنا چاہیئے کہ جس طرح مرئی جسم میں خدوخال ہوتے ہیں

اسی طرح غیر مرئی جسم میں بھی خدوخال ہوتے ہیں۔

            کسی چیز کی موجودگی پہلے ایک ہیولیٰ کی شکل میں یعنی لہروں میں موجود ہے اور اس کے  بعد جسمانی خدوخال میں اپنا مظاہرہ کرتی ہے۔ جب تک شکل و صورت ہیولیٰ کے اندر موجود ہے اس وقت تک وہ اکہری لہر یا غیر مرئی وجود ہے اور جب غیر مرئی وجود مادی جسم میں اپنا مظاہرہ کرتا ہے تو اس میں حرکت دہری ہو جاتی ہے اور  وہ دو لہروں سے مرکب  ہو جاتا ہے ۔ جب تک کوئی رخ ایک سمت سے دوری سمت میں اکہری حرکت  میں جاری رہتا ہے اور اس اکہری لہر میں خدوخال ہیں تو اس حرکت  سے تخلیق ہونے والی مخلوق کا نام جنات کی دنیا ہے اور جب حرکت لہروں پر سفر کرتی ہے اور اس میں نقش و نگار بنتے ہیں۔ اس تخلیق کا نام نوع آدم ہے۔

            انسان اور انسان کی دنیا ، جنات اور جنات کی دنیا اور سارا کائناتی ڈھانچہ اور سارا ماورائی نظام لہروں کے تانے پانے پر بنا ہوا ہے۔اس کی مادی مثال ہم قالین سے دے سکتے ہیں، قالین کے اوپر شیر بنا ہوا ہے۔ شیر کے تمام اعضاء قالین کی طرح بنے ہوتے ہیں کہ قالین کو دیکھ کر آدمی تانے بانے سے بنے ہوئے نقش و نگار کو شیر کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دے سکتے۔ کائناتی نظام بھی اس ہیProcess                 پر قائم ہے۔

            انسان کے اندر یا انسانی تخلیق میں اس طرح لہریں کام کر رہی ہیں جس طرح کپڑے میں دو تار ہوتے ہیں۔ ایک تار سیدھا (طولانی) ہوتا ہے اور دوسرا تار عرض ہوتا ہے۔ ہر تار  یا دھاگہ دوسرے تار یا دھاگہ سے اس طرح پیوست ہوتا ہے کہ دونوں تاروں کو خانوں کی شکل میں یک جان کر دیتا ہے۔ دونوں دھاگے  ایک ساتھ دوسرے دھاگوں کے ساتھ اس طرح پیوست ہو جاتے ہیں کہ ان میں کوئی فاصلہ نظر نہیں  آتا لیکن ساتھ ساتھ الگ بھی ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تانے اور بانے کے تار مل کر ایک مربع کی شکل میں خانے بناتے ہیں جس کو عرف عام میں گراف کہا جاتا ہے۔

            اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی دنیا طول و عرض میں لہروں یا روشنیوں کے تاروں  waves                سے بنی ہوئی ہے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات اور حسیات ان ہی تاروں کے اوپر قائم ہیں۔ دوسری بات تفکر طلب یہ ہے کہ ان لہروں کی طوالت جس طرح معین ہے اسی طرح لہر کی صفات بھی معین ہیں اور ہر معین صفت کسی نہ کسی ساخت کو اور کسی نہ کسی نقش و نگار کو ظاہر کرتی ہے۔

مثال:    جب ہم گراف میں انسانی چہرے کے خطوط بناتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ طولانی لہروں اور عرضی لہروں پر جیسے جیسے پنسل چلتی ہے یا گراف میں بنے ہوئے خانے جس طرح پنسل کی نوک سے کٹتے ہیں اسی مناسبت سے نقش و نگار بنتے رہتے ہیں۔

            گراف کے اندر جتنی لہریں موجود ہیں وہ عرضی ہوں یا طولانی نقش و نگار کی صورت میں ہر لہر ایک معین اور مخصوص عمل رکھتی ہے۔ علیٰ ھذا القیاس کائنات میں جتنی چیزیں موجود ہیں، جتنے رنگ و روپ جتنی صلاحیتیں ہیں، جتنی نوعیں ہیں اور ہر نوع کے جتنے افراد ہیں ہر ایک کے لئے ایک مخصوص طول حرکت متعین ہے۔ ان ہی حرکات کی مخصوص آمیزش کسی نوع کے فرد کی شکل و صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

                        اگر لہریں مرکب یعنی لہریں تانے بانے کی شکل میں متحرک ہیں تو ان مرکب

                        لہروں کے گراف کے اوپر نقش و نگار انسان اور انسان کی دنیا ہے۔

                        مفرد لہروں کے اوپر اگر تصویر کشی کی جائے یا کوئی تصویر بنی ہوئی ہے تو اس پر

                        نقش و نگار سے بنی ہوئی دنیا جنات اور فرشتوں کی دنیا ہے

                        آخری کتاب قرآن کریم میں ہے

            ہم نے ہر چیز کو دو رخوں پر بنایا تا کہ ان مصنوعات سے خالق کائنات کی ربوبیت کو اور خالق کائنات کی خالقیت کو سمجھ سکو۔

            حرکت محض ایک حس ہے اور اس کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک رخ خارجی سمت میں کام کرتا ہے اور دوسرا رخ داخلی سمت سفر کرتا ہے۔ یوں سمجھیئے کہ روشنی کے تانے بانے سے بنی ہوئی ایک چادر ہے اس کے اوپر نقش و نگار کے ساتھ تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس تصویر کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ خود تصویر ہے اور دوسرا رخ وہ بساط ہے جس پر تصویر بنی ہوئی ہے۔ یہ حس کے دو رخ ہوئے۔ ایک یہ کہ آدمی محسوس کر رہا ہے کہ میں موجود ہوں ، دوسرا یہ کہ آدمی یہ بھی جانتا ہے کہ میری کوئی اصل ہے۔

            زمانیت اور مکانیت کا راز جاننے کے لئے ہمیں بجائے اس کے کہ ہم نیچے سے اوپر سفر کریں یا نزولی حرکات و سکنات سے صعودی حرکات و سکنات میں داخل ہوں یہ زیادہ آسان ہے کہ صعودی حرکات و سکنات سے نزولی حرکات  کو سمجھا جائے۔ نظریہ رنگ و نور کے مطابق اندر کی آنکھ دیکھتی ہے کہ عالم ارواح میں کائنات کی موجودگی اس طرح ہے کہ وہاں احساس کی درجہ بندی ہے ، نہ نگاہ ہے اور نہ آپس میں تعارف کا کوئی ذریعہ ہے۔

            کائنات کو خود آگاہی کے لئے خالق کائنات نے پہلے سماعت پھر بصارت اور پھر قوت گویائی کی حس منتقل کر دی۔ اس قانون کی روشنی میں کائنات کی تخلیق کی Equation  یہ بنی کہ کائنات کی ہر چیز دو رخوں سے مرکب ہے۔ یہ دونوں رخ بظاہر ایک دوسرے سے متضاد نظر آتے ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے سے متصل ہیں۔

            افراد کائنات کو جب تک  Dimensions منتقل نہیں ہوئے تھے اس وقت تک زمان اور مکان نہیں تھے۔ عالم ارواح میں صرف شے کا وجود ہے اس کے اندر حرکت نہیں ہے۔ جب کائنات میںDimensions  بن گئے یا سماعت و بصارت کے نقش منتقل ہوگئے تو کائنات میں حرکت پیدا ہوگئی۔ حرکت ہی سے زمان و مکاں وجود میں آتے ہیں۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔