Topics
جناب الشیخ عظیمی صاحب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
یہ
جو کئی رنگوں کی دنیا ہے اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے
لئےجو
سوچتے ہیں۔ (سورۃ النحل:۱۳)
برائے
کرم ! اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حکمت کی تشریح فرمائیں۔
جواب: ہم جب زمین
کے اوپر موجود نئی تخلیقات پر غورو تفکر
کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے واضح طور پر آجاتی ہے کہ تخلیق کا عمل ظاہر بین
نظروں سے دیکھا جائے تو ایک نظر آتا ہے۔ مثلاً ہم کسی درخت کی پیدائش کے بارے میں
غور کرتے ہیں تو ہمیں زمین کے اوپر موجود تمام درختوں کی پیدائش کا لامتنائی سلسہ
ایک ہی طریقہ پر قائم ملتا ہے۔
درخت
چھوٹا ہویا بڑا تناور ہو یا بیل کی شکل
میں یا جڑی بوٹی کی شکل میں ہو ، پیدائش کا یہی سلسلہ ہے کہ زمین کے اندر بیج
بویا جاتا ہے۔ زمین اپنی کوکھ میں اس بیج
کو نشونما دیتی ہے اور بیج کی نشونما مکمل ہونے کے بعد درخت وجود میں آجاتا ہے
لیکن پھر یہ بڑی عجیب و غریب بات یہ ہے کہ پیدائش کا طریقہ ایک ہونے کے باوجود ہر
درخت اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور درخت کی یہ انفرادیت نامکمل نہیں ہوتی۔
مثلاً آم یا بادام کے درخت کو دیکھا جائے تو درخت کی حیثیت میں وہ دونوں
ایک ہیں۔ دونوں کی پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے۔ دونوں کا قد و قامت بھی ایک سا ہے
لیکن آم کے تنے اور بادام کے تنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آم کے درخت کا پھل اور
بادام کا درخت پھل الگ الگ ہے۔
اسی طرح جب ہم پھولوں کی طرف توجہ کرتے ہیں تو
پھول کا ہر درخت اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے اور اسی انفرادی حیثیت میں اس کے
پتے بھی الگ ہوتے ہیں۔ اس کی شاخیں بھی الگ ہوتی ہیں اور اس کے پھول جو نکلتے ہیں
وہ بھی الگ ہوتے ہیں۔
پھولوں
کی بے شمار اقسام پر جب نظر جاتی ہے تو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پھول میں اگر
خوشبو ہے تو ہر قسم کے پھول میں خوشبو بھی الگ ہے۔ پھول اگر رنگین ہے تو ہر درخت
کا پھول الگ الگ رنگ لئے ہوئے ہے۔ رنگ سازی کا یہ عالم ہے کہ کوئی پھول اس قدر
سُرخ ہوتا ہے کہ نوع انسانی کے لئے ایسا رنگ بنانا آسان کام نہیں۔ پھول کے رنگوں
میں کہیں سفید، کہیں سبز اور کہیں اُودا رنگ غالب ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے شمار
رنگ زمین سے پھوٹتے رہتے ہیں۔
اللہ
تعالی کی شان بھی کیسی عجیب شان ہے کہ زمین ایک ہے ، ہوا بھی ایک ہے، سورج بھی ایک
ہے، پانی بھی ایک ہے، پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے لیکن ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف
ہے اور دوسری بات جو بہت زیادہ توجہ کی طالب ہے وہ یہ کہ ہر پیدا ہونے والی شے میں
کسی نہ کسی رنگ کا غلبہ ضروری رہتا ہے۔ کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو بے رنگ
ہو۔( یہ رنگ اور بے رنگ دراصل خالق اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ ہے)
خالق سے مخلوق
کو جو چیز الگ اور ممتاز کرتی ہے وہ رنگ
ہے۔ انسان کے اندر جب تخلیقی صفات کا مظاہرہ ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و
کرم سے اس کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کا علم بیدار کر دیتے ہیں تو اس کے اوپر یہ بات
منکشف ہو جاتی ہے کہ تخلیق کا مطلب یہی ہے کہ کوئی بے رنگ خیال جب رنگین ہو جاتا
ہے تو تخلیق بن جاتا ہے۔
اللہ
تعالیٰ بحیثیت خالق کے جو کچھ بھی ہیں اس کا الفاظ میں احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے ظاہر ہوگئے ہیں ان کا ارشاد بھی یہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ کی ذات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ ایسی ماورا
ہستی ہیں جو تمام مخلوقات سے الگ اور ممتاز ہیں ۔ ابدال حق قلندر بابا اولیا رحمتہ
اللہ علیہ نے کتاب ” لوح و قلم“ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو ورائے بے رنگ فرمایا ہے
یعنی رنگ ، بے رنگ اور ورائے بے رنگ۔
اللہ
تعالیٰ نے جب کائنات کو بنانے کا ارداہ فرمایا تو جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں
موجود تھا اس کا ارادہ کیا اور فرمایا ”کن“ اور وہ چیز وجود میں آگئی یعنی ورائے
بے رنگ سے نزول کر کے اللہ تعالیٰ کے خیال نے ایک ایسا رنگ اختیار کیا جس کو سمجھنے کے لئے روحانی سائنس
نے بے رنگی کا نام دیا یعنی ایسا رنگ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور جس کی الفاظ
میں تشریح نہیں کی جا سکتی۔ پھر اسی بے رنگی میں حرکت پیدا ہوئی تو رنگین وجود تخلیق میں آگیا اور
یہی وجود مختلف صورتوں میں اور مختلف رنگوں اور مختلف صلاحیتوں کے ساتھ مجسم اور متشکل ہو گیا۔ قانون
سے یہ پتہ چلا کہ کائنات کی تخلیق میں بنیادی عنصر یا بنیادی مصالحہ رنگ ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔