Topics

دوستی کا وصف قربت ہے


اللہ خالق کائنات ہے، تخلیق کائنات سے متعلق خالق کا ارشاد ہے:میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو

                        پیدا کیا تاکہ میں پہنچانا جاؤں۔ (حدیث قدسی)

            گویا اللہ تعالیٰ محبت کو معرفت الٰہیہ کا ذریعہ قرار دیتا ہے جبکہ ارباب مسجد و منبر اللہ کا تعارف کراتے ہیں تو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو، کیا ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی سے ڈر کا تصور ہمیں قرب الٰہی سے محروم نہیں کر دے گا۔

            آپ سے درخواست ہے کہ قارئین جنگ کے علمی ذوق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس موضوع پر مذہبی اور روحانی حوالہ سے روشنی ڈالیں۔

 

جواب:    مذہب کا مضمو اتنا ہمہ گیر اور وسیع ہے کہ اس کی پوری وسعت کا احاطہ کرنے کا دعویٰ ایک  لایعنی اور فضول بات ہے لیکن اپنی دانست میں کم شعوری دائرے میں رہتے ہوئے اگر مذہب کی تعریف کی جائے تو دو رُخ سامنے اتے ہیں۔ مذہب کا ایک رُخ شرعی ہے اور دوسرا رُخ شخصی یا ذاتی ہے۔ مذہب کی ایک شاخ ایک واحد ہستی کو ماننے کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری  شاخ عقلی دلائل اور شخصی توجیہات سے انسانی نفیسات کا ذکر کر کے نظر نہ آنے والی ہستی کا انکار کرتی ہے۔ شخصی مذہب سیاسی مذہب ثابت ہوا ہے اور شرعی مذہب چاہتا ہے کہ عبادت اور دیگر شعائر کے تحت ایک ضابطہ حیات بنا کر ایسی تنظیم قائم کی جائے جہاں پوری نوع انسانی ایک پلیٹ فارم پر آجائے۔ شرعی مذہب کے پیرو و کار خوف کے احساس کے ساتھ ماورائی ہستی کی پرستش کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ماوراہستی کو عام آدمی نہیں دیکھ سکتا۔ ایک اور گروہ جسے صوفیاء کہا جاتا ہے اس کا کہنا ہے کہ ماورا ہستی ہرگز کوئی خوفناک ہستی نہیں ہے۔ یہ ماورا ہستی ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتی ہے۔

            یہ کبھی مشاہدہ میں نہیں آیا کہ ماں نے اپنے بچے کو آگ  کے الاؤ میں جھونک دیا ہو۔ اس گروہ کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ہر عام و خاص ماورا ہستی کو دیکھ سکتا ہے اس لئے کہ سب میں ایک ہی خالق کی پھونکی ہوئی روح کام کر رہی ہے۔ دنیا میں رائج شماریات سے زیادہ ایسی مثالیں ایسے واقعات اور کیفیات موجود ہیں جو ہزاروں سال کی توریخ پر محیط ہیں۔ کلیہ یہ ہے کہ ڈر اور خوف دو انسانوں کے درمیان ، ایک انسان اور درندہ کے درمیان، ایک انسان اور سانپ کے درمیان دوری اور بُعد کی دیوار کھڑی کر دیتا ہے۔ اس کے متضاد محبت سے قربت کا احساس وجود میں آتا ہے۔ جب دوری واقع ہوتی ہے تو لامحالہ ذہن میں خوف اور وسوسے در آتے ہیں۔ جیسے جیسے قربت کا احساس کم ہوتا ہے آدم زاد اپنا خوف کم کرنے کے لئے خود اپنے ہاتھوں سے کئی صورتیں بنا لیتا ہے اور اس نقطہ ارتکاز سے بُت پرستی شروع ہو جاتی ہے۔ بتوں کی موجودگی آدم زاد کے اندر سے حقیقت کا جو ہر ختم کر دیتی ہے۔ حقیقت کے جوہر سے محرومی کا نام جادو ہے۔ اس مقام سے انسانی نفسیات میں عجیب عجیب شگوفے پھوٹتے ہیں۔ پھر یہ شگوفے اپنی ایک طرز فکر اور طراز استدلال بنا لیتے ہیں اور برملا اس بات کا  اعلان ہو جاتا ہے کہ مذہب اور روحانیت محض خیالی چیز ہے۔

            صوفیاء کہتے ہیں کہ اگر استدلال کو تسلیم کر لیا جائے کہ مذہب اور روحانی کیفیات محض خیالی ہیں تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لامذہبیت کفر اور وسوسوں سے معمور احساسات بھی خیالی  باتیں ہیں۔ صوفیاء حضرات یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر ہم فرض کر بھی لیں کہ روحانیت اور مذہب خیالی تانے بانے پر بُنا ہوا ہے تو اس حقیقت کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے کہ ایک مذہبی روحانی آدمی کے اندر سکون ہوتا ہے، قناعت ہوتی۔ وہ ایسے کام کرتا ہے جن کاموں سے اس کی نوع اور انسانی برادری کو آرام ملتا ہے اور اس کے اندر ایسی غیر مرئی قوتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن قوتوں میں عوام الناس کی فلاح مضمر ہے۔

Topics


Ism e Zaat

خواجہ شمس الدین عظیمی



روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و  جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی  بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔