Topics
پندرہ برس قبل کی بات ہے۔ ایک دن اسکول سے واپس آ کر دوپہر
کا کھانا کھانے لگا تو میرے منہ کے قریب ایک پتنگا جس کی جسامت شہد کی مکھی سے ذرا
کم تھی کچھ اس انداز سے پرواز کرنے لگا کہ میرے اور کھانے کے درمیان حائل ہو گیا ۔
ایک دو مرتبہ تو میں نے ہاتھ سے ہٹانے کی کوشش کی مگر وہ آنکھوں کے سامنے اُڑتا رہا۔ دوسرے اور تیسرے روز بھی
یہی ہوا غرضیکہ یہ معمول ہفتہ تک جاری رہا لیکن میں نے اس معاملہ پر کوئی خاص توجہ
نہیں دی۔ اس ہی دوران مجھے اپنے شہر سے دور جانا پڑا۔ رات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ
وہی پتنگا وہاں بھی اسی انداز سے میرے گرد منڈلا رہا ہے ، رنگ بھورا ، پر گہرے براؤن۔
اب پندرہ
سال ہو گئے ہیں ایک مخصوص جسمات اور بھورے رنگ کا وہی پتنگا میرے ساتھ رہ رہا
ہے۔پندرہ سال کے عرصہ میں بڑے بڑے مافوق العادات واقعات میرے ساتھ رونما ہوتے رہے۔
ایک دن میں بس میں سوار ڈیم سے آرہا تھا، شام ذرا گہری ہو چکی تھی میں ڈیم کے گرد
پھیلی ہوئی روشنی کی قطاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ ہماری بس سے نصف فرلانگ
پرانے والی تیز روشنیاں اندھیرے کو چیرتی ہوئی آگے گزر گیئں۔ میں نے کھڑکی کے باہر نظر ڈالی تو دیکھا
وہی پتنگا بس کے ساتھ پرواز کر رہا ہے۔
بس اسی
روز سے ذہن نے اس معاملہ کو اہمیت دینی شروع کر دی ، جہاں بھی بھورے اور زردپتنگے
کو موجود پایا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ اسی جسامت کے دو بھورے پتنگے اُڑتے دکھائی
دیئے لیکن ایسا بہت کم ہوا، زیادہ کثرت سے وہی پتنگا دکھائی دیتا رہا۔ کئی مرتبہ
ایسا ہوا کہ سردیوں میں کمرہ بند ہے ، کھڑکیاں اور روشندان بھی بند ہیں لیکن نہ
جانے کہاں سے اور کس طرح وہ بھورا پتنگا کمرے میں پرواز کرتا ہوا نظر آیا اور
یکایک غائب ہو گیا جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا ہو۔ اب میں خود چاہتا ہوں کہ مجھے
نظر آئے کیونکہ اس کو دیکھے بغیر چین نہیں پڑتا۔
اس میں
قابلِ غور بات یہ ہے کہاتنی طویل مدت گزرنے کے باوجود اس کا رنگ و جسامت وہی ہے جو
پندرہ سال پہلے تھی۔ آج تک یہ عقدہ نہ کھل سکا کہ وہ پتنگا کون ہے، کیوں میرا
تعاقب کر رہا ہے۔
کریم (راولپنڈی)
جواب: قانون یہ ہے
کہ جب کسی چیز کی شکل آپ کے سامنے آتی ہے تو وہ پہلے سے آپ کے ذہن میں ہوتی ہے۔
قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق آدم کا پتلا مٹی سے بنایا گیا ہے اور اس کے اندر اللہ
نے اپنی روح پھونکی ہے۔ اس قانون کے تحت تخلیق کے دو شعبے قائم ہوئے، ایک اعلیٰ
یعنی روح ، دوسرا ادنیٰ یعنی مٹی۔ اس کے بعد یہ بھی فرمایا:
اے
آدم ! تمہاری زوجہ اور تم جنت میں رہو اور کھاؤ پیوجہاں چاہو
لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ
تمہارا شمار ظالمین میں ہوگا۔ (سورۃ البقرہ)
تفکر راہنمائی کرتا ہے کہ جیسے ہی آدم نے
نافرمانی کی آدم و حوا نے محسوس کیا کہ ہمارے جسم پر لباس نہیں ہے۔ اس کے معانی یہ
ہوئے کہ انسانی اوصاف اعلیٰ تھے اور جسم کے اوصاف بھی اعلیٰ تھے لیکن جیسے ہی
نافرمانی ہوئی اور محسوس کیا کہ ہم ننگے ہیں ، ان کی روح تو اعلیٰ مقام پر رہی۔۔۔۔۔ جسم اعلیٰ سے اسفل میں آگیا ۔ اگرچہ
اعلیٰ اسفل کے ساتھ رہا پھر بھی اعلیٰ اعلیٰ رہا اور اسفل اسفل ہو گیا اور اسفل سے غلطیاں سرزد ہونا لازم قرار پایا
یعنی اعلی اور اسفل الگ الگ ہو گئے۔
اللہ
نے دوسری جگہ فرشتوں کو مخاطب کر کے فرمایا
جو ہم جانتے ہیں تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرہ)
یہ وہ
موقع تھا جب فرشتوں نے اس اعتراض کیا تھا کہ یہ آدم فساد کرے گا اور خونریزی کرے
گا۔ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ تم غلط کہتے ہو بلکہ یہ کہا” تم نہیں جانتے جو ہم
جانتے ہیں۔“ ارشاد باری تعالیٰ میں ایک نکتہ یہ ہے کہ روح ماورا رہی اور جسم زمین
کی کشش میں مبتلا ہو گیا۔کشش میں مبتلا ہونے سے اس کا کردار بھی مختلف ہو گیا۔ روح
اور جسم جب الگ الگ نہیں تھے تو جسم روح کا عکس صحیح حدود میں قبول کرتا تھا۔
نافرمانی کے بعد جسم روح کی اطلاعات کے
معانی پہنانے میں غلطی کرنے لگا یعنی روح اور جسم دونوں کا کردار الگ الگ ہو گیا۔
جب ہم
روح کے بارے میں غور کرتے ہیں تو روح کے اندر موجود چند اوصاف ہیں مثلاً روح لکڑی
کی میز کو دیکھتی ہے۔ میز کا تصور روح
میں موجود رہتا ہے لیکن جب کوئی میز روح
کے سامنے آتی ہے تو میز کا وصف روح کے سامنے ہوتا ہے۔ فی الواقع وہ میز نہیں ہوتی
جس کو ہاتھ چھوتے ہیں۔ رُخ دو ہیں ایک وہ میز ہے جو مستقل روح کے اندر رہتی ہے اور
ایک وہ میز ہے جو روح سے باہر آتی ہے۔ اب
اگر ہم میز کو آگ لگا دیں تو لکڑی کی میز جل کر راکھ ہو جائے گی لیکن روح کے اندر
جو میز ہے وہ قائم رہتی ہے۔
آپ کی
طبیعت میں کسی ایک پتنگے کو دیکھ کر خاص کیفیت پیدا ہوگئی۔ اس نے اپنا عکس آپ کی
روح میں ڈال دیا۔ روح نے اسے قبول کر لیا اور اپنا جزو بنا لیا۔ ظاہر ہےجو چیز روح
میں ہے وہ آنکھوں کے سامنے ضرور آئے گی چاہے وہ ہر وقت آتی رہے یا کسی خاص وقت میں
آئے۔ چناچہ ۱۵ سال تک آپ کی آنکھوں کے سامنے روح کا ہی عکس آتا رہا اور پندرہ سال
کے بعد یہ روح کی بالیدگی میں جذب ہو گیا یعنی روح کے اندر پتنگے کا عکس قائم
رہا اور وہ نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہا اور
روح کے اندر جذب ہونے کی بنا پر نگاہوں سے اوجھل ہو گیا اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ اس
پتنگے کو پکڑ کو پکڑ لیں تو پکڑ نہیں سکتے تھے اس لئے کہ جو کچھ آپ دیکھ رہے تھے
اس کی مادی حیثیت نہیں تھی۔
اگر آپ
چاہتے کہ اس پتنگے کو مار دیں تو مار بھی
نہیں سکتے تھے اس لئے کہ اس کا تحفظ روح کر رہی تھی۔
یہ واقعہ
صرف آپ کے ساتھ ہی پیش نہیں آیا لاکھوں میں چند آدمیوں کے ساتھ پیش آتا رہتا ہے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ کا ذہن اس پتنگے کو تلاش نہیں کرتا بلکہ روح کے
اندر پتنگے کا جو عکس جذب ہو چکا ہے اسے تلاش کرتا ہے ۔ اس طرف سے اگر بتدریج ذہن
ہٹا لیا جائے تو پتنگا نظروں کے سامنے نہیں آئے گا۔ اس کا سہل طریقہ یہ ہے کہ آپ
فجر کی نماز کے بعد اور رات کو سوتے وقت نیلی روشنی کا مراقبہ کیا کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔