Topics
میں آپ سے جنات یعنی نظر نہ آنے والی مخلوق جسے دوسری زبان میں بھوت کہتے ہیں
کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں اور ان سے دوستی کا خواہشمند بھی ہوں۔ برائے
مہربانی جنوں کے بارے میں، ان سے دوستی کی بابت ارشاد فرمائیں۔ میں نے بارہویں
جماعت کا امتحان دیا ہے اور نماز وغیرہ بھی پڑھتا ہوں۔
ایک مسلمان بیٹا۔
جواب: اے مسلمان
بیٹے! جنات ایک مخلوق ہے بالکل اس طرح آدم کی نوع مخلوق ہے۔ جنات اس طرح جذبات و
احساسات رکھتے ہیں جس طرح انسان جذبات و احساسات رکھتا ہے۔ ان کی الگ دنیا ہے۔ وہ
کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ بڑے شہروں میں بارونق بازار میں جنات کاروبار کرتے ہیں۔
ان کے یہاں صنعت و حرفت سب کچھ ہے۔ سائنسی ایجادات میں بھی وہ انسان سے دس قدم آگے
ہیں۔ ان کے یہاں اولادیں بھی ہوتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہمارے وقت (Time) اور ان کے وقت میں فرق ہے۔ مثلاً اگر
ہمارے یہاں بچہ نو مہینے میں تولد ہوتا ہے تو ان کے یہاں ہمارے حساب سے نو سال میں
ولادت ہوتی ہے۔
جنات اور
بھوت میں فرق ہے۔ جنات نہایت رحم دل اور دوست نواز ہوتے ہیں۔ اگر آپ سے کوئی جن یہ
کہے کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیں کہ انسان میرے تابع ہو جائے تو کیا آپ کو یہ
بات پسند آئے گی۔۔۔ اللہ کی مخلوق کوئی بھی ہو اس کی آزادی کو سلب نہیں کرنا
چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے علاوہ کسی کی غلامی پسند نہیں کرتے۔ اللہ کی غلامی
کا حال یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو بے
حساب رزق دیتا ہے۔ زمین مفت ، ہوا مفت ،
دھوپ اور چاندنی مفت، آکیسجن مفت۔ اللہ نے
انسانی جسم میں جو مشینری نصب کر دی ہے اس میں جو ایندھن جل رہا ہے وہ بھی مفت ہے۔
یہ ایک
بڑا المیہ ہے، انسان اللہ کی ملکیت مفت زمین کو اپنی ملکیت بناتا ہے۔ زمین کے
چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر لڑتا اور مرتا ہے۔ اللہ کے دیئے ہوئے مفت پانی کو فروخت کرتا
ہے۔ کچھ لوگ اکٹھے ہو کر الگ گروہ بنا لیتے ہیں اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے باپ آدم علیہ السلام کی اولاد ، اپنے
بھائیوں کو غلام بنا لیتے ہیں۔
ہم ساری
دنیا پر اپنا اقتدار قائم کرنے کی فکر میں ایسے ایسے ہتھیار تیار کرتے ہیں جن سے
نوع انسان راکھ بن کر بھک سے اُڑ جائے۔ نعرہ ہیومن رائیٹس (Human Rights) کا لگاتے ہیں اور آپس میں تفرقہ
ڈال کر لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دکھیل دیتے ہیں۔ ایسے ایسے حربے استعمال
کئے جاتے ہیں کہ انسانی برادری بے بس ہو کر ان کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈال
لیتی ہے۔ ہم تو ابھی خود غلامی کی زنجیریں پوری طرح نہیں توڑ سکے،پھر یہ کیسے درست
ہے کہ جنات کو غلام بنانے کی آرزو کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔