Topics
روحانی قدروں میں اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے اور توکل کرنے
کے کیا معانی ہیں؟ اس کی وضاحت اس طرح فرمائیں کہ ایک عام روحانی طالب علم کی سمجھ
میں آسانی سے آ سکے۔ محمد اقبال
قریشی
(ایبٹ آباد)
جواب: روحانی زندگی
میں سلوک کی راہ پر چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی کھانا نہ کھائے ،پانی نہ پیئے،
کپڑے نہ پہنے، اس کے دوست احباب نہ ہوں۔ یہ سب اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کو وجود
بخشنے والا اس دنیا میں رونق دیکھنا چاہتا ہے، اس دنیا کو قائم رکھنا چاہتا ہے، وہ
اس دنیا کو خوبصورت دیکھنا چاہتا ہے۔ اسباب وسائل جب تک موجود ہیں، دنیا موجود،
دنیا قائم ہے۔ دنیا میں جو وسائل پیدا کئے گئے ہیں ان کا فائدہ بہرحال انسانوں کو
پہنچتا ہے اور پہنچتا رہے گا۔ روحانیت ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ دنیا میں
رہتے ہوئے سب کام کرے، اچھا کھائے ، بہترین لباس پہنے، چٹنی کے ساتھ مرغ
بھی کھائے لیکن ہر کام اور ہر عمل کا رُخ اس ذات کی طرف موڑے جس نے یہ دنیا بنائی
ہے۔
کھانا اس
لئے کھائے کہ اللہ چاہتا ہے کہ بندہ کھانا کھائے، بندے کھانا نہیں کھائیں گے تو
دنیا ویران ہو جاے گی۔ پانی اس لئے پیئے کہ اللہ چاہتا ہے کہ بندہ پانی پیئے تاکہ
اللہ کا لگایا ہوا باغ یعنی دنیا سرسبز اور شاداب رہے۔ آپ بیوی بچوں سے محبت کریں
اس لئے کریں کہ بچوں کی تربیت آپ کے ذمہ ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی
تربیت اس طرح کریں کہ انسانی اقدار پھیلیں پھولیں اور بھیڑ بکریوں سے ممتاز ایک
معاشرہ قائم ہو۔ بچوں کی تربیت اس طرز پر کی جائے کہ ان کی زندگی پر اللی کی ذات
محیط ہو جائے اور جب وہ سن بلوغ کو پہنچیں تو ان میں یہ طرز فکر مستحکم ہو جائے کہ
وہ اپنی زندگی کے ہر عمل کا رخ اختیاری اور غیر اختیاری طور پر اللہ کی طرف موڑ
دیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ ہم اپنی اولاد سے اس لئے
پیار کرتے ہیں کہ اللہ ہم سے خوش ہو جائے اور ہم اپنی اولاد سے اس لئے پیار کرتے ہیں کہ یہ ہماری
اولاد ہے اور اس سے ہماری نسل چلے گی۔ اولاد سے پیار کے سلسلے میں جب آپ اپنے عمل
کا رُخ اپنی ذات کی طرف موڑ دیتے ہیں تو اولاد کی محبت میں اپ ایسے راستے اختیار
کر تے ہیں کہ جن راستوں پر چل کر آپ کی اولاد کے اندر قادر مطلق اللہ سے تعلق قائم
نہیں ہوتا۔ اگر آپ اللہ کے لئے اولاد سے
محبت کریں گے تو یہ آپ کے لئے بھی فلاح ہے اور اولاد کے لئے بھی فلاح ہے لیکن
دونوں صورتوں میں خواہ آپ ذاتی طور پر اولاد کو پیار کریں اور اولاد کی تربیت کریں
یا اللہ کے لئے اولاد کو پیار کریں اور تربیت
کریں تو آپ کو ہی فائدہ پہنچے گا۔
روز مرہ
زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ روزی اور رزق کا حاصل کرنا ہے۔ اس لئے کہ
رزق حاصل کئے بغیر زندگی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ زندگی مختلف مراحل اور
مختلف زمانوں سے مزین ہے۔
زندگی کے
قیام کا پہلا زمانہ یا مرحلہ ایسی بند کوٹھڑی ہے جس میں بظاہر نہ ہوا کا گزر ہے
اور نہ ہی کوٹھڑی میں انسان کو اپنے ارادے اور اختیار سے کھناے پینے کی چیزیں مہیا
ہوتی ہیں اور نہ ہی اس کوٹھڑی میں رہتے ہوئے وہ اپنی روزی حاصل کرنے کے لئے کوئی
محنت اور مشقت کرتا ہے لیکن اسے روزی ملتی ہے اور روزی اس کی نشونما بھی کرتی ہے۔
اس نشونما کا دور نو مہینے کی زندگی پر مشتمل ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچی بتدریج اور
ایک توازن کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور اس
کی ساری غذائی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں۔ نو مہینے کے بعد مکمل آدمی کی شکل
وصورت اختیار کر کے بچہ اس بند کوٹھڑی سے باہر آجات ہے ۔ اب بھی وہ
اس قابل نہیں کہ اپنی ضروریات خود پوری کرسکے۔
اس کی
زندگی کو نشو نما دینے کے لئے اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے اور
ساتھ ہی ماں کے سینے کو اس بچے کے لئے دودھ کا چشمہ بنا دیتا ہے۔ بچہ بغیر کسی جدو
جہد کے غذا حاصل کرتا رہتا ہے اور اس کی پرورش ہوتی رہتی ہے۔ بچپن سے گزر کر لڑکپن
کے زمانے میں بھی اس کو اپنی روزی حاصل کرنے کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ اس کی
ضروریات کا کفیل اللہ تعالیٰ نے اس کے ماں باپ کو بنا دیا۔ اب بچہ لڑکپن سے نکل کر
شعور کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ شعور کی دنیا میں یہ انقلاب برپا ہوتا ہے کہ وہ
سوچتا ہے کہ مجھے روزی حاصل کرنے کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔ وہ اسی تگ ودو میں اپنی
پچھلی ساری زندگی کو فراموش کر دیتا ہے۔
اس کے ذہن سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ بغیر کسی جدوجہد کے بھی اللہ تعالیٰ مجھے رزق
دیتے رہے ہیں۔۔ جوانی کے دور سے گزر کر وہ بڑحاپے میں داخل ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں
بھی اس کے اعضاء اسی طرح ہو جاتے ہیں جس طرح بچپن میں تھے اور وہ اپنی معاش حاصل
کرنے کے قابل نہیں رہتا لیکن جب تک اس کی زندگی ہے اللہ تعالیٰ اسے روزی فراہم کرتے
رہتے ہیں۔
ہمارا
جوانی کے دور میں یہ سوچنا کہ ہمیں رزق ہماری محنت سے ملتا ہے صحیح طرز فکر کے
خلاف ہے اس لئے کہ ہماری زندگی کا تین چوتھائی بغیر مزدوری کے گزرتا ہے۔ محنت
مزدوری اور کوشش اس لئے کی جانی چاہیئے کہ اللہ کا نظام یہ ہے کہ اللہ اس کائنات کو ہر لمحہ در آن متحرک
دیکھنا چاہتا ہے۔ جس طرح کہ اللہ نے ماں کے دل میں محبت پیدا کر دی اور ماں کو رزق
پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہے اسی طرح اللہ نے زمین کو اس بات کا پابند کر دیا ہے کہ
نوع انسان اور زمین کے اوپر آباد تمام مخلوق کو روزی فراہم کرے۔ آپ زمین میں بیج ڈالتے
ہیں، اگر زمین بیج کی نشو نما کرنے سے انکار کر دے تو دنیا ویران ہو جائے گی، جب
کوئی چیز پیدا ہی نہیں ہوگی تو تمام حرکات
اور تمام گردشیں رک جائیں گی۔
جس طرح
اللہ تعالیٰ نے ماں کے دل میں محبت ڈال دی اسی طرح اللہ تعالی نے زمین کے دل میں
بھی اپنی مخلوق کی محبت ڈال دی اور اسے پابند کر دیا کہ وہ زمین پر اباد مخلوق کی
خدمت کرے۔ اسی طرح چاند اور سورج کو بھی اللہ تعالی نے خدمت گزاری کے لئے مسخر اور
پابند کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ زمین اگر اپنا ارادہ اور اختیار استعمال کر کے گیہوں
نہ اُگائے، سورج اپنی روشنی یا دھوپ سے گندم کو نہ پکائے تو آپ روٹی کیسے کھائیں
گے اور روٹی پر ہی کیا دارو مدار ہے، ہر چیز کی یہی صورت ہے۔ جب زمین پر کوئی چیز
پیدا نہیں ہوگی تو ہم زندہ کیسے رہیں، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آدمی کو رزق اس کی
ذاتی محنت کی وجہ سے نہیں ملتا۔ رزق پہلے سے موجود ہے اسے رزق حاصل کرنے کے لئے
صرف محنت کرنی پڑتی ہے۔
طرزِ فکر
کا ایک رُخ یہ ہے کہ میں اگر محنت نہیں کروں گا تو بھوکا مر جاؤں گا اور طرزِ فکر
کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ مجھے اس لئے حرکت
کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ حرکت کو پسند فرماتا ہے اس لئے ساری کائنات
بجائے خود ایک حرکت ہے۔ کائنات کا وجود اسی وقت زیرِ بحث آیا جب اللہ تعالی کے ذہن
نے حرکت کی یعنی اللہ تعالیٰ نے ”کُن“
فرمایا۔”کُن“ اللہ تعالیٰ کے ذہن کی ایک حرکت ہے اور یہ حرکت جاری و ساری ہے۔
انسان کے اندر یہ یقین راسخ ہو جاتا ہے تو اس کی طرزِ فکر یہ ہوتی ہے کہ میری ہر
حرکت ،میرا ہر عمل اللہ کے رحم و کرم پر قائم ہے۔ وہی روزی دیتا ہے، وہی حفاظت کرتا ہے، وہی زندہ
رکھتا ہے، وہی آفات اور بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے، وہی خوشی دیتا ہے۔ جاب آدمی کا
یقین ٹوٹ جاتا ہے تو اس کی طرزِ فکر ناقص ہو جاتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ
بندوں کے سہارے تلاش کرتا ہے۔
جب کسی
قوم کی طرزِ فکر بہت زیادہ گمراہ ہو جاتی ہے یعنی
اللہ کے علاوہ دوسروں کو سہارا سمجھنے لگتی ہے تو ایسی قومیں زمین پر بوجھ
بن جاتی ہیں اور زمین انہیں رد کر دیتی ہے۔ وہ مفلوک الحال ہو جاتی ہے اور ان کے
اوپر احساس ِ کمتری کا عذاب مسلط ہو جاتا ہے۔
انبیاء
کی طرز زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمارے سامنے صرف ایک ہی بات آتی ہے کہ
انبیاء کی طرزِ زندگی اور طرزِ فکر یہ ہے کہ وہ ہر بات ، ہر عمل اور زندگی کی ہر
حرکت کو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اللہ کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔