Topics
والد صاحب کپڑے کے بہت بڑے تاجر ہیں۔ بھائی بھی کاروبار میں
والد صاحب کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے ہم لوگ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔
کاروبار میں منافع کے جائز ذرائع ہمیشہ ہمارے مدِ نظر رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے
بھی یہی اصول اپنایا تھا اور ہمیں بھی اس پع سختی سے کاربند رہنے کی تلقین کی تھی۔
یہ ساری روائد اد بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کاروبار میں بہت زیادہ منافع خوری کو
حرام سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود حالات ہم سے روٹھ گئے۔ کروڑوں کا کاروبار دن
بدن زوال پذیر ہے۔ حال یہ ہے کہ قرض لاکھوں تک پہنچ گیا ہے لیکن کاروبار میں بہتری
کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔
والد
صاحب کے بعد گھر میں سب سے بڑا ہونے کے ناتے میرے سامنے دو راستے ہیں ایک یہ کہ
معشارے کی غلط طرزوں کو اپنا کر کاروبار کو ڈوبنے سے بچا لوں اوردوسرا یہ کہ اللہ
پر بھروسہ کر کے اپنے بزرگوں کے طریقے پر عمل جاری رکھوں۔ دوسرا طریقہ اختیار کرنے
میں قباحت یہ ہے کہ ہمارا پورا خاندان محل سے نکل کر جھونپڑی میں سر چھپانے پر
مجبور ہو جائے گا۔ آپ سے مشورہ کی درخواست ہے۔
جواب: اللہ تعالی
جب کسی بندہ پر فضل فرماتا ہے تو اس کے اوپر اللہ کی مخلوق کے حقوق بھی عائد ہوتے
ہیں۔ خط کا بغور تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے ائی ہے آپ سے حقوق العباد پورا کرنے
میں بہت زیادہ کوتاہیاں واقع ہوئی ہیں۔ دس دنیا ستر آخرت والی بات آپ نے سنی ہوگی،
جس طرح اللہ کے لئے خرچ کرنے میں ایک کے بدلے دس ملتے ہیں اسی طرح اللہ کے دیئے
ہوئے مال میں سے اللہ کے لئے خرچ نہ کیا جائے
تو ایک کے بدلے دس کم بھی ہوتے رہتے ہیں۔ یہی صورت آپ حضرات کے ساتھ بھی
پیش آئی ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ آپ صومو صلوٰۃ کی پابندی کے ساتھ اللہ کی
مخلوق کے لئے ایثار کی طرز بھی اپنائیں۔
فی الوقت
ایثار کے معاملہ میں شعور کے اندر جو جمود پیدا ہو گیا ہے اس کو ختم کرنے کے لئے
ایسی طرزوں میں ایثار پیدا کرنا چاہیئے جہاں بدل اور نفع کا جذبہ کار فرما نہ ہو۔
اس کا طریقہبہت آسان ہے آپ اپنے قریب کوئی تالاب ندی یا نہر تلاش کر لیجیئے۔ ایسی ندی ، ایسا تالاب یا نہر جس
میں مچھلیاں ہوں۔ پانی صاف یا گندا ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آپ جب یہ
تلاش کر لیں تو پہلے سیاہ روشنائی ایک دوات میں بنا کر رکھ لیں۔ پتنگ کا باریک کاغذ تختوں * (تاؤ) کی شکل
میں ایک دو چار تختے لے لیں۔ اب قلم جو باریک ہو اور کاغذ پر خراش پیدا نہ کرے فراہم کر کے صبح کی نماز کے بعد
کسی سے گفتگو کئے بغیر قلم دوات اور کاغذ لے کر چھوٹے چھوٹے الف لکھنا شروع کر
دیں۔ اس طرح کہ ہر ” الف“ کو قینچی سے الگ الگ کاٹ سکیں۔ الف کا لکھنا شعور کے
اوپر کیا تثرات مرتب کرتا ہے یہ وضاحت طلب ہے جس کی اس کالم میں گنجائش نہیں ہے۔
ان کٹے
ہوئے ٹکڑوں کو موڑ کر باریک باریک گولیاں بنا لیں۔ گوندھا ہوا آٹا پہلے سے تیار
رکھیں کاغذ کی گولیاں آٹے کے اندر لپیٹے جائیں۔ خشک ہونے پر ان سب کو ایک تھیلی
میں بھر لیں اور جس پانی میں مچھلیاں ہوں وہاں لے جا کر ڈال دیں۔ اس کام سے فارغ
ہو کر اپنے کاموں میں لگ جائیں لیکن لکھنے ، گولیاں بنانے اور گولیاں پانی میں
ڈالنے کے دوران بات نہ کریں، سوائے کسی شدید ضرورت کے۔
یہ عمل
آپ کے خاندان میں کوئی بھی کر سکتا ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس عمل کو تین مہینے
جاری رکھیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تین ماہ کے اندر حالات رو بہ ترقی نہ ہوں تو
مایوس ہو جائیں۔ اس کا انحصار شعور کے
اندر ایثار کے خلاف گرہ کھلنے پر ہے۔ یہ گرہ چند روز میں بھی کھل سکتی ہے۔
*بڑے ناپ کے کاغذ کی شیٹ (Sheet) جو کاغذ یوں کے شمار میں کم و بیش ۱۸x۲۲ انچ ہو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔