Topics
میرے دوست کو شادی کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی۔ میری ضمانت
پر کمپنی نے انہیں رقم دے دی۔ شادی کے بعد وہ نوکری چھوڑ کر چلے گئے۔ اب ان کے
قرضے کی رقم میری تنخواہ سے کٹ رہی ہے۔
خدا ترسی مجھے مہنگی پڑتی ہے۔ لوگ رقم لے کر واپس کرنا بھول جاتے ہیں اور میں اس
خیال سے کہ ان کے پاس واپسی کے لئے رقم نہیں ہے تقاضا نہیں کرتا، اس طرح معاشی
بدحالی کا شکار ہو گیا ہوں۔ قرضہ لے کر لاگوں کی مدد کی ہے اور پیسے واپس کرنے کا
نام ہی نہیں لیتے۔ کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ میں قرض سے نجات حاصل کر لوں۔
جواب: آپ اخلاق کی
فضول خرچی کرتے ہیں۔۔۔۔
مرشد
کریم حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ سے میں نے اپنا ایک خواب بیان کیا۔
انہوں نے تعبیر بتائی کہ تم اخلاق کی فضول خرچی کرتے ہو۔ مجھے حیرانی کے ساتھ
پریشانی لاحق ہو گئی کہ کیا اخلاق کی بھی فضول خرچی ہوتی ہے۔ مرشد کریم نے فرمایا:
اخلاق
کی فضول خرچی یہ ہے کہ جس کام کا تجربہ ہو کہ اس
میں
نقصان ہوتا ہے اور پھر جانتے بوجھتے وہی کام کیا جائے
تو
یہ اخلاق کی فضول خرچی ہے۔
رسول
اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
مومن
ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے
مومن دوسرے کا حق نہیں مارتا اور اپنا حق چھوڑتا
نہیں۔
میرے
ابا جی نے مجھے نصیحت کی تھی۔
بیٹا!
کسی کو قرض نہ دینا اور قرض دینے سے انکار بھی نہ کرنا۔
میں
نے عرض کی:
اباجی
یہ کیا بات ہوئی، قرض دینا بھی نہیں اور انکار بھی نہیں کرنا
فرمایا:
جب
کوئی تم سے قرض مانگے اس کو اتنا دو جس کی واپسی تمہارے
ذہن میں نہ ہو۔ مثلاً ایک آدمی تم سے
ہزار روپے مانگتا ہے۔ تم
پانچ سو (۵۰۰) دے سکتے ہو۔۔۔واپسی کے خیال کے بغیر اسے
پانچ سو روپے قرض دےدو۔
قرض
کی ادائیگی کے لئے عشاء کے بعد ۱۰۰ بار اِنَّ اللہ عَلیٰ کُلَّ شَی ءِ قَدِیْر پڑھ
کر دعا کیاکریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔