Topics

تخلیق ِ کائنات کے سر بستہ راز

امام سلسلہ عظیمیہ ، ابدال ِ حق حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیا ءؒ نے کائنات کی تخلیق کے سر بستہ راز سائنسی ذہن کو سامنے رکھ کر بیان فرمائے ہیں۔ ان میں جتنا تفکر کیا جائے ، اسی مناسبت سے رموز منکشف ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں ابدال ِ حق کے تحریر کردہ رموز میں سے ایک رمز کو مثالوں کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

  بچے کے ہاتھ میں ٹارچ ہے۔ وہ اندھیرے کمرے میں دیوار سے دو یا تین انچ کے فاصلے ہر ٹارچ روشن کرتا ہے جس سے دیوار پر تقریباً تین ساڑھے تین انچ کا انتہائی روشن دائرہ بنتا ہے۔ ٹارچ اسی رخ پر رکھتے ہوئے وہ آہستہ سے پیچھے ہٹتا ہے ، روشن دائرہ پھیلتا ہے حتی کہ بچہ پشت پر موجوددیوار سے ٹکراتا ہے اور روشن دائرہ سامنے پوری دیوار پر پھیل جاتا ہے۔

س:      ٹارچ کے سامنے دیوار یا خلا نہ ہو تو بچے کو کیا نظر آئے گا __؟

ج :    ٹارچ سے نکلنے والی شعاع خلا میں خطَ مستقیم میں سفر کرتے ہوئے غائب ہو جائے گی اور کچھ نظر نہیں آئے گا جس کا مطلب ہے کہ ٹارچ کی روشنی ظاہر ہونے کے لیے دیوار یا پردہ جسے اسکرین کہہ سکتے ہیں، کی ضرورت ہے۔ روشنی جب تک کسی رکاوٹ یا اسکرین سے نہ ٹکرائے، مظاہرہ نہیں ہوتا۔

قابلِ توجہ ہے کہ روشنی اسکرین سے ٹکرا کر کوئی شبیہ یا شکل بناتی ہے ۔ شعاع ٹارچ میں سے مکل کر دیوار پر جو شکل بنا رہی ہے ، وہ دائرہ ہے۔ یہ ٹارچ کے عدسے کی شکل ہے جو دائرے میں ہے۔ عدسے پر پھول ، بوٹے یا جانور کی تصویر لگا دی جائے تو یہ تصویریں دیوار پر بننے والے روشن دائرے میں نظر آئیں گے۔

آج کل ایسی لیزر ٹارچ عام ہیں جن کے لینس پر مختلف اشکال کے فلٹر لگتے ہیں اور یہ شکلیں دیوار یا اسکرین پر نظر آتی ہیں۔ دیکھنے کے لیے ٹارچ کا رخ اسکرین کی طرف ہونا ضروری ہے یہی قانون پر جیکٹر میں برسر عمل ہے۔

  پروجیکٹر میں طاقتور ٹارچ نصب ہے جو معین فاصلے سے روشنی کو اسکرین پر پھیلاتی ہے۔ اس میں ساکت تصویر کے بجائے تصاویر کی بڑی تعداد لینس کے سامنے سے گزاری جاتی ہیں۔ اس طرح حرکت کرتی ہوئی تصاویر (ویڈیو) کے بجائے اسکرین پر دھندلی اور بے ہنگم تصاویر نظر آتی ہیں جن میں ربط نہیں ہوتا۔

اسکرین پر واضح ، متحرک اور تسلسل سے چلتی  ہوئی فلم دیکھنے کے  لیے آنکھ جھپکنے کے عمل کی طرح، پروجیکٹرکے لینس کے سامنے وقفے سے ایک پردے کا مسلسل گرنا اٹھنا ضروری ہے۔ جیسے ہی لینس کے سامنے پردے کا میکانزم لگایا جاتا ہے ، اسکرین پر تصاویر ترتیب میں فلم کی طرح حرکت میں نظر آتی ہیں۔

ابتدا میں مختلف قسم کے پروجیکٹروں کے موجد اور فلمسازوں کے لیے یہ معمہ تھا کہ تصاویر کو چاہے جتنے ہموار اور بہتر طریقے سے لینس کے سامنے سے گزارا جائے ، اسکرین پر تصاویر میں ربط قائم نہیں ہوتا جیسا حقیقی دنیا میں مناظر کے درمیان ربط نظر آتا ہے۔ پھر کسی محقق کوآنکھ جھپکنے کے عمل کی نقل کا خیال ایا۔ یوں تصاویر میں ربط قائم ہوا اور اسکرین پر مناظر اسی طرح نظر آنے لگے جیسا ہم دنیا میں دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود پروجیکٹر اور آنکھ سے دیکھنے میں پلک جھپکنے کے عمل کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔

قارئین کرام! ہم دن کے وقت یا بیداری کے وقفے میں لاشعوری طور پر پلکیں جھپکانے کا عمل دہراتے ہیں۔ دن میں یہ عمل معطل ہو جائے تو کیا ہوگا اور اس قانون کا بیداری کی زندگی سے کیا تعلق ہے__؟

  سینما میں بیٹھے فلم بین کی توجہ اسکرین پر ہوتی ہے حالاں کہ اسکرین محض عکس کا مظاہرہ ہے۔ اگر فلم بین سر کے اوپر دیکھے جہاں پروجیکٹر سے آنے والی شعاعیں گزار رہی ہیں تو اسے چند سیدھی اور متوازی شعاعیں نظر آتی ہیں لیکن ان میں کیا اطلاعات ہیں ، وہ نہیں جانتا ۔ البتہ اسکرین پر دیکھ کر وہ بتا سکتا ہے کہ شعاعوں میں مخفی اطلاعات کیا تھیں۔

فلم دو گھنٹے یا چاہے جتنی دیر کی ہو ، پروجیکٹر سے شعاعیں مسلسل اسکرین پر پڑتی ہیں۔ شعاع کیا ہے__؟ روشنی کا ایک مقام سے دوسرے مقام تک چلنا یا بہنا ہے یعنی روشنی دو گھنٹے تک پروجیکٹر ( مقام الف) کے لینس سے اسکرین ( مقام ب) تک بہتی ہے۔ بہاؤ میںاطلاعات ہیں جو اسکرین پر آنکھ ، کان ، درخت ، مکان اور گاڑیاں بن رہی ہیں۔ الغرض نظر آنے والے مناظر کی تفصیلات روشنی کے بہاؤ میں موجود ہیں۔ ہر شعاع دوسری شعاع کے متوازی لیکن الگ ہے۔ اسکرین پر تصاویر واضح نظر آنے کی وجہ یہ ہے کہ فاصلہ خواہ کتنا کم ہو ، شعاعیں ایک دوسرے سے ملنے کے باوجود الگ رہتی ہیں۔

       محقق دریافت کر چکے ہیں کہ شعاعیں source     سے خارج ہو کر ساتھ ہونے کے باوجود الگ الگ رہتی ہیں۔ منشور (prism)  سے ہم دیکھتے ہیں کہ سفید روشنی سات رنگ کی روشنی میں تبدیل ہوگئی۔__یہ روشنی کا تبدیل نہیں ، تقسیم ہونا ہے۔ رنگوں کی شعاعیں منشور میں داخل ہونے سے پہلے ہی الگ الگ ہیں۔ ان میں فاسلہ اتنا کم ہوتا ہے کہ ہم ان کو ایک دیکھتے ہیں۔ منشور ان رنگوں میں فاصلہ اس حد تک بڑھا دیتا ہے کہ یہ الگ الگ نظر آتی ہیں۔

ہم جس دنیا میں رہتے ہیں ، اس کے مناظر اور تصاویر (عکس) لے کر فلم بناتے ہیں، پروجیکٹر میں لگاتے ہیں اور اسکرین پر دیکھتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں سیما میں فلم کا چلنا ، دراصل ہماری دنیا کے مظاہرے کے طریقِ کار کی نقل ہے۔

اما م سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے اپنی تصنیف ” لوح و قلم “ میں تخلیق کائنات کا میکانزم بیان کیا ہے جس کی تشریح کتاب ”شرح لوح و قلم“ میں کی گئی ہے۔

”قرآن پاک نے جس روشنی کو ماء یعنی پانی کے نام سے متعارف کرایا ہے، سائنس اسی روشنی یا پانی کو گیسوں کے نام سے جانتی ہے۔ روشنیوں کے بہاؤ سے مراد یہ ہے کہ صد ہا گیسوں کے اجتماع سے شکلیں وجود آتی ہیں۔ ایک گلاس میں پانی بھر کر دیوار پر پھینک دیں۔ پانی  پھینکنے کے بعد جب پانی پوری طرح پھیل جائے اسے غور سے دیکھیں۔ دیوار کے اوپر مختلف شکلیں نظر آئیں گی۔ جس طرح دیوار کے اوپر پانی پھیل کر اور بکھر کر مختلف شبیہیں بنا لیتا ہے اسی طرح نزول کرنے والی روشنیاں جب کائنات کی اسکرین پر نزول کرتی ہیں تو شکلیں بنتی ہیں۔ یہی شکلیں افراد کائنات ہیں۔“

مندرجہ بالا اقتباس میں جہاں تخلیق ِکائنات کے سر بستہ رازوں کو سادہ اور عام فہم سائنسی انداز میں بیان کیا گیا ، وہاں اس میں قرآن کریم کی آیت ” اللہ آسمانو ں اور زمین کا نور ہے“ کی تفہیم بھی موجود ہے۔

قارئین کرام! یہ موضوع سمندر ہے۔ چند صفحات میں ایک نکتے پر ہی غورو فکر ممکن ہے۔ ہم متوازی شعاعوں کے اسکرین پر نقش و بگار بنانے کی جانب توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

ٹارچ کے علاوہ دیوار پر پانی پھینکنے کا تجربہ کرنا چاہیں__ جو شکلیں بنتی ہیں ، وہ کائنات میں موجود مخلوقات یا اشیا کی شکلوں کے علاوہ نہیں ہیں۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشکال ہمارے  ارد گرد اور مانوس چیزوں کی ہیں۔ کہیں ناک نقشہ اور مونچھیں نظر آتی ہیں، کہیں اونٹ کا کوہان ، کہیں درخت اور کسی شبیہ میں پہاڑ دکھائی دیتا ہے ۔ پہلی نظر میں اشکال بے معنی لگتی ہیں، تھوڑی دیر توجہ سے دیکھا جائے تو ان میں مختلف چیزوں کی تصویریں نظر آتی ہیں۔

ممکن ہے بعض اشکال کو غور سے دیکھنے کے بعد بھی ہم کوئی معانی نہ پہنا سکیں ۔ یہ وہ اشیا ہو سکتی ہیں جو ہامرے علم کے احاطے سے باہر ہوں ، کسی اور دنیا یا نظام سے متعلق ہوں ۔ کہنا یہ ہے کہ پانی یا روشنی میں وہ تمام علوم اور مقداریں ہیں جو اسکرین پر نظر آتی ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیا ؒ نے گیس کی ابتدائی شکل کا نام نسمہ    (  مادی جسم سے نو انچ کے فاصلے پر روشنی کا جسم ہے جس کی بنیاد پر مادی عمارت کھڑی ہے) بیان کیا ہے۔

 نسمہ ان لہروں یا بنیادی شعاعوں کا نام ہے جو مادی وجود کی ابتدا کرتی ہیں۔ ان لہروں میں بہاؤ کو لکیروں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ یہ کائنات میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ نہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں اور نہ ایک دوسرے میں پیوست۔ روشنی ، پروجیکٹر ، اسکرین ، پانی اور دیوار کی مثال بتاتی ہے کہ دنیا اور ہماری حیثیت مظاہرے  کی ہے۔

  کھجور کا درخت زمین کی اسکرین پر ظاہر ہو رہا ہے۔ طوفان آتا اور درخت جڑ سےاکھڑ کر گر جاتا ہے لیکن تھوڑے فاصلے پر ایک اور کھجور کا درخت اگ رہا ہے جو چند سالوں بعد سر سبز اور تناور ہو جاتا ہے۔

کھجور کے ایک درخت کی موت ، کھجورکے concept  یا اصل کی موت نہیں ہے۔ کھجور کے وجود کی ابتدا جن روشنیوں کے مجموعے یا نسمہ سے ہوتی ہے، وہ اپنی جگہ اور ریکارڈ ہے۔ زمین پر کھجور کے نسمہ کی روشنیاں جہاں پڑتی ہیں وہاں کھجور کے درخت کا مظاہرہ ہو جاتا ہے۔

 

 

 

 

 

دنیاوی علوم کی طرزوں میں نسمہ کو کیسے سمجھا جائے __؟ کتان ” لوح و قلم “ میں لکھا ہے،

” جب اسکولوں میں لڑکوں کو ڈرائنگ سکھائی جاتی ہے تو ایک کاغذ جس کو گراف کہتے ہیں ، ڈرائنگ کی اصل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کاغذ میں گراف یعنی  چھوٹے چھوٹے چوکور خانے ہوتے ہیں۔ان چوکور خانوں کو بنیاد قرار دے کر ڈرائنگ سکھانے والے استاد چیزوں ، جانوروں اور آدمیوں کی تصویریں بنانا سکھاتے ہیں۔ استاد یہ بتاتے ہیں کہ ان چھوٹے خانوں کی اتنی تعداد سے آدمی کا سر ، اتنی تعداد سے ناک ، اتنی تعداد سے منہ اور اتنی تعداد سے گردن بنتی ہے۔ ان خانوں کی ناپ سے دو مختلف اعضاء کی ساخت کا تناسب قائم کرتے ہیں جس سے لڑکوں کو تصویر بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ گویا یہ گراف تصویروں کی اصل ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں اس گراف کو ترتیب دینے سے تصویریں بن جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح نسمہ کی یہ لکیریں تمام مادی اجسام کی ساخت میں اصل کا کام دیتی ہیں۔ ان ہی لکیروں کی ضرب تقسیم موالیدِ ثلاثہ کی ہیتیں اور خدو خال بناتی ہیں۔“

ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیا ءؒ کی تعلیمات کے مطابق اگر نسمہ کی لکریں سیدھی یا اکہری ہوں تو زمین کی اسکرین پر ہونے والا مظاہرہ جنات اور جنات کی دنیا کا ہے۔ وہاں ہر پودا، جانور ، پہاڑ ، پانی ، مٹی اور جن ، اکہری لہر کے نسمے پر مشتمل ہے۔ دہری یا دو لکیروں کے نسمہ سے انسان اور انسان کی دنیا تخلیق ہوتی ہے۔

اگر ہم قرآن کریم میں تفکر کر کے لہروں کا علم جان لیں تو اپنی اور جنات کی دنیا کے تخلیقی فارمولوں سے واقف ہو سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے لہروں میں تبدیل ہو کر ایک مقام سے دوسرے مقام اور ایک دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ 


Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم