Topics

ایک سال میں دس سال؟

گئے وقت کا ذکر ہے عبدالصالح نامی تاجر نے متعدد بحری اور بری سفر کئے ، مختلف خطوں کی سیر کی اور زبانیں سیکھیں۔ دیانت کی وجہ سے لوگوں میں عزت تھی۔ وہ اگلے تجارتی سفر پر روانہ ہونے والا تھا۔پانچ سو اونٹ اور دو سو افراد پر مشتمل قافلہ ساتھ جانے کے لیے تیار ہوا۔ منزل المغرب ( مغربی افریقہ کا علاقہ جس میں آج موریطانیہ ، مراکش اور سینیگال شامل ہیں) اور بحر اوقیانوس پر واقع ساحلی شہر تھے جہاں سے تجارتی سامان براعظم امریکا کے لیے روانہ ہونا تھا۔ راستہ پُر خطر اور دشوار تھا۔ قافلہ یمن سے روانہ ہوا اور بحر احمر کی ساحلی پٹی کے متوازی چلتے ہوئے جزیرہ نما سینا پہنچا ۔ وہاں سے قاہرہ گیا اور ایک دن آرام کر کے سفر کے سب سے مشکل مرحلے صحرائے اعظم صحارا عبور کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ روز و شب اور سینکڑوں میل کی مسافت طے کرتے ہوئے یہ قافلہ صحارا کے مغربی حصے میں داخل ہوا جہاں آج الجزائر واقع ہے۔

عصر کا وقت تھا۔ تھکن اور بھوک پیاس سے بے حال قافلے کو عبد الصالح نے بلند قامت ٹیلے کے بائیں طرف ٹھہرنے کا اشارہ کیا۔ خیمے لگائے گئے اور قیام وطعام کا بندوبست ہوا۔ بعد ازاں سب نے سونے کی تیاری کی۔

پورے چاند کی روشنی میں صحرا دیو مالائی منظر پیش کر رہا تھا۔ نصف شب کے قریب عبد الصالح اونٹ سے پشت لگائے صحرا کی دلکشی میں محو تھا۔ اونٹ ریت پر مجسموں کی طرح بیٹھے ، سستا رہے تھے جیسے معلوم ہو کہ اگلے سفر سے پہلے زیادہ سے زیادہ توانائی جمع کرنی ہے۔ عبد الصالح کو آہٹ محسوس ہوئی۔ پہلے پہل وہم سمجھ کر نظر انداز کیا مگر دوبارہ آہٹ ہونے پر یقین ہو گیا کہ کوئی ہے۔ نظریں عقب میں ٹیلے کی طرف جم گئیں جہاں سے دراز قد ہیولا ظاہر ہوا اور پُراسرار قدموں سے عبد الصالح کی طرف بڑھا۔ ہیولا سیاہ چادر میں ملبوس بارعب تھا۔ یمنی تاجر کی زبان گنگ اور آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ دفعتاً سیاہ چادرنے اس کو ڈھانپ لیا معلوم نہیں کتنے پہر گزر گئے۔

آنکھ کھلی تو سورج نصف النہار پر تھا۔ آس پاس منظر نے دل دہلا دیا۔ وہ صحرا کے بجائے چٹیل میدان میں لاشوں کے درمیان پڑا ہوا تھا جو باوردی سپاہیوں کی تھیں۔ عبدالصالح نے اپنا جسم ٹٹولا۔ دائیں طرف تلوار ، بائیں طرف ڈھال اور جسم پر وردی تھی۔ درجن بھر سپاہی دوڑتے ہوئے آئے اور کہا ، کمان دار صاحب ! اس سے پہلے کہ دوسرا حملہ آور ہو ، دشمن کی حدود سے نکل جانا چاہیے۔ وہ میکانیکی انداز میں اٹھا۔ بچ جانے والے درجن بھر سپاہیوں کے ہمراہ فوراً وہ علاقہ چھوڑ دیا۔

سپہ سالار عبد الصالح حیران تھا۔ مجلس کو سانپ سونگھ گیا۔ معتبر رکن نے تیز لہجے میں کہا، کیا آپ اس وقت فیصلہ کریں گے جب دشمن شہر میں داخل ہو جائے گا؟ سب نے فیصلے کی توثیق کی۔

سپہ سالار عبدالصالح بادشاہ بن گیا۔

اس نے فوج کو منظم کیا اور حکمت عملی سے طاقت ور دشمن کو شکست دی۔ رعایا نئے بادشاہ سے بہت خوش تھی۔ سب نے جشن منایا۔ بادشاہ نے امور سلطنت بہتر طور پر انجام دینے کے لیے اپنے سپاہی دوست کو سپہ سالار بنایا۔ پرانے شاہی خاندان کی خاتون سے شادی کی۔ اللہ نے تین بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ ماہ وسال گزرتے رہے۔ عبدالصالح کے بالوں میں سفیدی اگئی۔ سلطنت کی باگ ڈور بڑے بیٹے کو دی اور بقیہ زندگی گزارنے کے لیے پُر فضا مقام کا انتخاب کیا۔

چاروں طرف پہاڑ تھے ، دامن میں حسین وادی __ وادی میں درختوں کے درمیان میں سے خوش نما راستہ نکلتا تھا۔ وہ اس راستے سے گزر رہا تھا کہ بڑے درخت کے عقب سے وہی سیاہ پوش ہیولا سامنےآیا اور عبدالصالح کے دماغ میں بھولی بسری یاد روشن ہو گئی۔ وہ حیرت و استعجاب کی تصویر بن گیا۔ ہیولے نے اس پر سیاہ چادر ڈال دی۔

آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ اونٹ کے ساتھ پشت لگائے نیم دراز ہے جب کہ رات آخری پہر میں داخل ہو رہی ہے۔ قافلے میں شامل ساتھی سو رہے تھے۔ سب کو جگایا اور صحارا کے باقی حصے کو عبور کرتے ہوئے یہ لوگ بحر اوقیانوس کے ساحل پر پہنچ گئے۔ البتہ عبدالصالح کا ذہن بحر استعجاب ( حیرت کا سمندر) سے نہ نکل سکا۔ چند لمحوں میں نصف صدی سے زائد زندگی کیسے بسر ہو گئی ، وہ بھی بادشاہت میں؟ وہ کون ہے؟ بادشاہ یا تاجر؟

قارئین کرام! بیان کردہ تمثیل بظاہر الف لیلہ طرز کی ہے لیکن فی الحقیقت یہ ممکن ہے۔ ہر فرد کسی نہ کسی طور ان تجربات سے گزرتا ہے۔

تمثیل میں نیند اور رات کے حواس کو سیاہ ہیولے کے استعارے میں بیان کیا گیا ہے۔ یمنی تاجر جس لمحے سویا ، وہ نقطہ الف ہے اور جس لمحے بیدار ہوا وہ نقطہ ب ہے۔ الف سے بے تک نیند میں گزرنے والا وقت بیداری کی زندگی سے الگ اور لامحدود وسعت رکھتا ہے۔ نیند میں وہ بادشاہ اور بیداری میں یمنی تاجر تھا۔ رات کے حواس کے چند لمحات دن کے حواس کی دہائیوں پر محیط ہو گئے۔ اس نے ناقابل بیان وقت میں خود کو بادشاہ دیکھا ، شادی کی ، بچے ہوئے اور بوڑھا ہو گیا۔

جو واقعہ نفسیات اور شخصیت پر اس طرح اثر انداز ہو کر یاد داشت کا حصہ بن جائے ، اسے غیر حقیقی یا تخیل کی کرشمہ سازی کہنا نا انصافی ہے۔ ان تجربات سے ٹائم اسپیس کی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے اور شعور کے اس پار جانے کا راستہ کھلتا ہے۔

سائنس نے نظریہ اضافیت ، کوانٹم طبیعات اور سپر کمپیوٹروں کے ذریعے ٹائم اور اسپیس کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ نتیجہ فی الوقت مفروضے کی حد تک ہے۔ وہ خواب کی دنیا کے ذریعے حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں لیکن انہوں نے اسے وہم و گمان اور تخیل کہہ دیا ہے۔ حالاں کہ وہ وہم ، خیال اور تصور کی حقیقت کا بھی ادراک نہیں رکھتے۔

محقق خواتین و حضرات اختیاری یا غیر اختیاری طور پر تفکر کے عمل سے گزرتے ہیں ، سوچ بچار کرتے ہیں مگر ابھی وہ جواب تک نہیں پہنچے۔ وہ جواب جو ان کے پاس موجود نہیں ، اسے کہاں تلاش کرنا چاہتے ہیں؟ ان کو یقین ہے کہ جواب تفکر کی گہرائی میں موجود ہے۔ گہرائی کیا ہے؟

محقق کا ذہن اسے غیب کا نام دیتا ہے۔ یعنی ایک طرح سے وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا شعور مطلوب شے کو تلاش کرنے کے قابل نہیں۔ ساتھ ہی یقین ہے کہ ایک ایجنسی ایسی ہے جس کی طرف شعور متوجہ ہونے سے جواب مل جاتا ہے۔ بعض اوقات تفکر میں گھنٹے گزر جاتے ہیں ، احساس نہیں ہوتا ۔ مطلب یہ ہے کہ شعور جہاں سے معلومات کشید کرتا ہے ، اس ایجنسی کا ٹائم اسپیس مختلف اور شعور کی بہ نسبت لامحدود ہے۔

ٹائم اور اسپیس کو سمجھنے کی دو طرزیں ہیں۔

پہلی طرز یہ ہے کہ ٹائم اینڈ اسپیس کی اصل کو خارج میں تلاش کیا جائے۔ موجودہ سائنس مظاہر کی حقیقت خارج میں تلاش کرتی ہے جب کہ روحانیت کی رو سے ہر شے داخل میں ہے۔

نظریہ اضافیت کی وضاحت کے لیے ایک مفروضہ مشہور ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اس کو عبد الصالح کی تمثیل کے تناظر میں دیکھیں اور دونوں میں فرق تلاش کریں۔

مفروضہ : جڑواں بھائی ہیں ۔ شکل و صورت اور جسامت میں مماثلت سے اماں ابا دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ایک بھائی خلا بازی کا شعبہ اختیار کرتا ہے اور انتہائی تیز رفتار راکٹ میں خلائی مشن پر روانہ ہوتا ہے ۔ روانگی کے وقت دونوں بھائی وقت اور تاریخ نوٹ کرتے ہیں۔ آئن اسٹائن کا نظریہ سمجھنے کے لئے محققین نے ایک مفروضہ یہ قائم کیا ہے کہ راکٹ کی رفتار روشنی کی رفتار سے محض 0.5 فی صد کم ہے۔ رخصت ہوتے وقت بھائیوں کی عمر 20 سال تھی۔ خلا باز بھائی کی سات سال بعد واپسی ہوتی ہے۔ استقبال کے لئے زمین پر جرواں بھائی موجود ہے۔ دونوں ملے تو خلا باز بھائی کی عمر 27 سال اور اس عرصے میں زمین پر وقت گزارنے والے بھائی کی عمر 90 سال تھی__ تیز رفتار راکٹ میں گزرنے والا ایک سال زمین کے دس سال کے برابر تھا۔

محققین نے اس مفروضے کا ابھی تک حقیقی اور واقعاتی تجربہ اور ثبوت پیش نہیں کیا۔

آئن اسٹائن کے نظریے کے مطابق مفروضے سے دراصل یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ روشنی جس کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار دو سو 82 میل فی سیکنڈ بتائی جاتی ہے ، کائنات میں ہر طرح کی صورتِ حال اور ” حوالے کے مقام“ (frame of refrence) کے اعتبار سے مستقل مقدار ہے ، اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ بالفاظ دیگر محققین کا کہنا ہے کہ روشنی کی رفتار کے برابر کوئی شے سفر کرے تو وقت اس کے لیے منجمد ہو جائے گا جیسا کہ مفروضے میں خلا باز بھائی کے ساتھ ہوا۔

غیر جانب دار ذہن سوال کرتا ہے کہ ،

۱۔ عبدالصالح کی طرح خواب اور بیداری میں ٹائم اسپیس کے فرق کا تجربہ سب کو ہے کیوں کہ ہر فرد خواب کی دنیا سے واقف ہے۔ دنیا کا ہر فرد خواب دیکھتا ہے۔ لیکن جڑواں بھائیوں کی مثال کا حقیقی واقعہ موجود نہیں۔

۲۔ عبدالصالح کی مثال کے مطابق فرد بیک وقت مختلف ٹائم اینڈ اسپیس میں سفر کرتا ہے۔ بیداری سے خواب کے حواس میں داخل ہوتا ہے اور خواب میں بیدار زندگی گزارتا ہے۔ واپس آنے پر اکثر خواب یاد رہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ذہن خواب کے حواس میں بیدار تھا اور اس دوران پیش آنے والے واقعات کو ریکارڈ کر لیا۔

 نکتہ : عبدالصالح بیداری سے خواب میں داخل ہوا،بادشاہ بنا اور 50 سال سے زائد زندگی خواب میں بسر کی۔ اس کے برعکس جڑواں بھائیوں کی مفروضہ مثال میں واقعات محض بیداری کے حواس سے متعلق ہیں۔ خلا باز بھائی باقاعدہ انتظام کر کے مشن پر روانہ ہوا۔ راکٹ جہاں پر جائے گا ، اس کا اندرونی ماحول زمین کے ماحول سے الگ نہیں، صرف زمین سے دوری کی وجہ سے کشش میں کمی واقع ہوتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ راکٹ خلا میں زمینی حواس کو ساتھ لئے اڑ رہا ہے کیوں کہ اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کے ذہن کی رفتار زمین کے شعور میں قید ہے۔ اس دوران راکٹ کی جو رفتار زمین سے جاتے وقت تھی وہی رفتار خلا میں بھی قائم رہی۔ وہ اس سے رفتار سے پرواز نہیں کر سکتا۔ جب حواس تبدیل نہیں ہوئے پھر راکٹ کے سات سال ، زمین پر 70 سال کیسے ہو گئے؟

سائنس دانوں نے راکٹ کی جو رفتار عرض کی ہے ، وہ لاشعور کے ذرا بھی قریب نہیں۔ ان کی بتائی ہوئی روشنی کی رفتار قیاس ہے۔ اگر روشنی اور راکٹ کی رفتار میں0.5 فی صد فرق ہے( جو نہیں ہے) تو اس رفتار میں راکٹ کا مادی وجود قائم نہیں رہ سکتا، وہ روشنی میں تبدیل ہو جائے گا۔

ٹائم اور اسپیس کی حقیقت کیا ہے ، اس کے لیے محققین کو خواب کی زندگی سے رجوع کرنا ہوگا۔

رب العالمین کا ارشاد ہے :

” اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور دن کی نشانی کو روشن تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو اور برسوں کا شمار اور حساب جانو اور ہم نے ہر چیز کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔“

(بنیۤ اسرائیل : ۱۲)

 کتاب نظریہ رنگ و نور کے مصنف ، محترم عظیمی صاحب ؒفرماتے ہیں،

” لوح محفوظ کے نقوش عالم تخلیط کی حدود میں داخل ہو کر عنصریت کا لباس قبول کر لیتے ہیں۔ عنصریت کا لباس قبول کر لیتے ہیں۔عنصریت کے لباس کو قبول کرتے ہی مکانیت( اسپیس) کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ مکانیت (اسپیس) کا قیام زمانیت ( ٹائم) پر ہے۔“ ۔


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم