Topics

کششِ ثقل

کائنات کسی ایک شے کا نام نہیں ۔۔ تخلیقات کی یکجائی ہے۔ یہ کشش کا ایک نظام ہے جس نے ہر تخلیق کو یک جان رکھا ہے۔ کشش نے تمام مظاہر پر محیط ہو کر ایسا برقی مقناطیسی دائرہ بنایا ہے جس کو عرف عام میں ” کائنات“ کہتے ہیں۔

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں کشش اور گریز کا ذکر ہے۔ ان پر سوچ بچار سے کشش کی نوعیت اور زاویے روشن ہوتے ہیں۔

۱۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا؟ (المرسلٰت : ۲۵)

۲۔ وہ اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔

(الانبیاء :۳۳)

۳۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے وہ سب کچھ تمہارے لئے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اِذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا ؟ بے شک اللہ بڑا شفیق اور رحیم ہے۔            (الحج :۶۵)

زمین کی ایک صفت سمیٹنا اور سمٹتا ہے۔ سمیٹنے سے مراد مختلف جگہوں یا جہتوں میں بکھری ہوئی ایشا کو ایک مرکز پر جمع کرنا ہے۔ محقق متفق ہیں کہ زمین میں کششِ ثقل کی سمت زمین کے تقریباً مرکز کی جانب ہے۔ اجرامِ فلکی خواہ وہ کائنات میں کہیں بھی ہوں ، مقررہ حساب کے پابند ہیں، ان میں باہمی کشش کی مقداریں معین ہیں اور ہر ایک اپنے دائرے میں تیر رہا ہے۔ ان الفاظ میں قانون ہے کہ سورج ، چاند اور سیاروں کی کشش کی مقداروں میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ ان کا نظام ایک دوسرے سے منسلک ہے مگردرمیانی فاصلہ معین ہونے کی وجہ سے یہ ایک دوسرے کے نظام میں خلل پیدا نہیں کرتے۔

قارئین! کشش اور اس کا ماخذ کیا ہے؟

سائنس نے کائنات میں تمام قوتوں کی بنیاد چار قوتوں کو قرار دیا ہے۔

۱۔ کشش

۲۔ برقی مقناطیسی قوت

۳۔ ایٹمی ذرّات کے مابین کمزورقوتیں

۴۔ ایٹمی ذرّات کے مابین طاقتور قوتیں

محققین کہتے ہیں کہ ثقل اور برقی مقناطیسی قوتیں طویل فاصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں جب کہ ایٹمی ذرّات کے مابین کمزور اور طاقتور قوتیں انتہائی مختصر مختصر فاصلوں تک مؤثر ہیں۔

کششِ ثقل کے حوالے سے آئزک نیوٹن کا نظریہ تجاذب مشہور ہے۔ اس کے مطابق ہر دو اجسام میں باہمی کشش ہے جو فاصلے اور شے کے مادے کی مقدار کا باہمی تناسب ہے۔ آئن اسٹائن نے مزید کہا کہ ثقل قوت کا نہیں بلکہ تاثر کا نام ہے۔ آئن اسٹائن کے مطابق زمان و مکان (ٹائم اور اسپیس) کا تانا بانا کسی بھی مادی جسم کے گرد خَم × ہو جاتا ہے۔ اگر جسم بہت زیادہ مادوں پر مشتمل ہو جیسے زمین ، زمین ، چاند یا سورج وغیرہ تو خَم زیادہ ہوتا ہے اور شے اس کے مطابق سفر کرتی ہے ۔ یہ خَم بلیک ہول جیسے انتہائی کثیف مادی اجسام کے گرد انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور روشنی سمیت کوئی شے اس سے باہر نہیں نکل سکتی۔

آج بھی آئن اسٹائن کے نظریے کو معیاری اور صحیح تسلیم کیا جاتا ہے۔ نیوٹن کے نظریے کو بھی رد نہیں کیا گیا کیوں کہ اسے عام حالات اور حساب و پیمائش میں نافذ کرنا آسان ہے۔

مضمون میں اختصار سے ثقل کے متعلق سائنسی نظریات بیان کئے گئے تا ہم ان سے واضح نہیں ہوتا کہ کششِ ثقل اور اس کا ماخذ کیا ہے۔

یہ سوال جن نیوٹن سے کیا گیا تو اس نے کہا ، ” میں نہیں جانتا کہ اس قوت کا ماخذ کیا ہے اور یہ اصل میں کیا ہے۔ اجسامِ کے درمیان اس کا موجود ہونا مجھے عجیب اور پُراسرار لگتا تھا۔ ہم اس کی موجودگی کا احساس کر سکتے ہیں اور اسے ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔“۔

آئن اسٹائن نے بھی ثقل کی اصل کے متعلق وضاحت نہیں کی۔

مشکل مرحلہ : تحقیق کی دنیا میں نئے نظریے کی قبولیت نہایت مشکل ہے ، چاہے وہ بہتر اور درست کیوں نہ ہو۔ جب نیوٹن جیسے محقق کے مقابلے میں ایک گمنام نوجوان تھامس ینگ نے روشنی کی لہروں کا نظریہ پیش کیا تو ایک عرصے تک اہمیت نہ دی گئی ، وہ کئی دہائیوں بعد توجہ کا مرکز بنا۔ بعد میں دریافت ہوا کہ روشنی بیک وقت ذرّات اور لہر دونوں طرح سے عمل کرتی ہے۔

کیا نئے نظریات قبول کرنے میں مزاحمت کی وجہ جانبدار سوچ ہے۔۔۔؟ ارسطو کے کششِ ثقل سے متعلق نظریات آج مضحکہ خیز لگتے ہیں لیکن ارسطو کی بے پناہ شہرت کی بنا پر ان کو طویل عرصے تک صحیح سمجھا گیا۔ سوالات کرنے والے پر تنقید ہوئی۔۔۔ بالفاظ دیگر ارسطو کے ذہن کو بلا سوچے سمجھے قبول کیا گیا اور اعتراضات کو رد کر دیا گیا۔ محقق گیلیلیو نے جب ارسطو کے نظریہ ثقل کو غلط قرار دیا اور ایک مینار پر چڑھ کے تجربے کی مدد سے اسے غلط ثابت کیا تو یہ بات عوام سمیت حکمرانوں کو بہت ناگوار گزری۔ نتیجے میں گیلیلو کو قید خانے میں الم ناک سزا بھگتنی پڑی۔

مسلمان محققین نے تحقیق و تلاش کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کیا۔ آج زیادہ تر سائنسی علوم مسلمان سائنس دانوں کے مرہونِ منت ہیں اور اس کی وجہ غیر جانبدار طرزِ فکر ہے۔ انہوں نے مقالات اور کتابوں میں قرآن کریم کی دعوتِ ”تفکر“ کو اپنی تحقیق کی بنیاد قرار دیا۔

حواس اور قوتِ ثقل کا باطنی نظریہ :

محترم عظیمی صاحب نے ” ماہنامہ قلندر شعور“ دسمبر 2022ء کے ”آج کی بات“ میں لکھا ہے، ”آدمی جب چلتا ہے ، کچھ دیکھتا ہے یا کوئی بات سنتا ہے تو اسپیس قدموں سے لپٹتی ہے۔ اگر وہ دیکھ لے کہ میں اسپیس کے لپٹنے کی وجہ سے چل رہا ہوں ،سن رہا ہوں ، دیکھ رہا ہوں تو اسپیس کے اوجھل اور ظاہر ہونے کے قانون سے واقف ہو سکتا ہے۔ کائنات اور ہمارے درمیان فاصلہ نہیں ہے۔ ہمیں ہر چیز ٹکڑوں میں دیکھنے کی مشق ہے یعنی ہم نے اسپیس کی تقسیم کو تسلیم کر لیا ہے جس کی بنا پر ہر دو شے کے درمیان دوری نظر آتی ہے۔ کبھی یہ دوری اسپیس کو ہزاروں لمحات میں ظاہر کرتی ہے اور کبھی اسپیس کے ہزاروں ٹکڑے ایک لمحے میں جڑ جاتے ہیں۔ جو چیز کروڑوں میل کے فاصلے کو لمحے میں سمیٹتی ہے ، وہ ادراک ہے۔ ادراک کیا ہے؟ ایک نقطہ ہے۔ نقطہ کا پھیلنا اور سمٹنا بھی ادراک ہے۔ نقطہ سمٹتا ہے تو رات کی زندگی بنتی ہے اور پھیلتا ہے تو یہ دن کی زندگی کا تذکرہ ہے۔۔ ادراک کی یہ دونوں طرزیں اندر میں موجود ہیں اور ہم اس دائرے سے شب و روز گزرتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے ، ”رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ بے جان میں سے جان دار کو نکالتا ہے اور جان دار میں سے بے جان کو اور جسے چاہتا ہے ، بے حساب رزق دیتا ہے۔“  (آلِ عمران : ۲۷)

آیت کو ذہن میں دہراتے ہوئے تجربہ کیجئے۔

تجربہ : پارک چھت یا صحن میں کوئی مقام مقرر کر کے نشان لگایئے اور وہاں سے سیدھ میں چلنا شروع کیجئے۔ دھیمی رفتار سے چلتے ہوئے زمین پر قدموں کی چاپ سنیے۔ ہر اٹھنے والا قدم پیچھے رہ جاتا ہے اور زمین پر موجود قدم آگے ہوتا ہے۔

اس تجربےکو کم و بیش چار پانچ مرتبہ دہرانے سے احساس ہوتا ہے کہ یہ کشش کی ڈور ہے جو قدموں کو زمین سے پیوست رکھتی ہے۔ قدم اٹھتا ہے تو کشش کی گرفت قدرے نرم ہو جاتی ہے اور ہوا میں موجود پیر کسی حد تک آزاد اور ہلکا ہو جاتا ہے۔۔ زمین پر رکھا ہوا قدم بھاری اور پابند محسوس ہوتا ہے۔ زمین کی کشش سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اگلے لمحے زمین کی کشش ہمیں کھینچ لیتی ہے۔ ہم نے ماحول میں محدود شعور کو من و عن قبول کیا ہے کہ اتنے قدم لینے سے اتنا فاصلہ طے ہوتا ہے۔ نتیجے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر اندر میں یہ بات روشن ہو جائے کہ چند قدم لینے سے زیادہ فاصلہ طے ہو سکتا ہے تو بتایئے کیا ہوگا؟

اولیا اللہ کے بہت سے واقعات ہیں کہ وہ چند قدم چل کر ایک خطے سے دورسرے خطے میں پہنچ گئے۔ اس دوران اتنا وقت صرف ہوا جتنا چند قدم طے کرنے پر ہوتا ہے۔ ایک مرید اپنے مرشد کے پیچھے چلا۔ تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد دیکھا کہ برصغیر سے مکہ مکرمہ پہنچ گیا ہے۔ ہوا کیا۔۔؟ مرید نے روحانی استاد کے پیچھے چل کر روایتی شعور کی نفی کی تو استاد کا شعور (لاشعور) غالب آیا اور طویلاسپیس چند قدموں میں طے ہو گئی۔ خواب اور خیال کی بھی یہی کیفیت ہے جس سے ہم دن رات گزرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ، جواب آخر میں پڑھیے

یہاں پر لفظاسپیس عام معنی و مفہوم سے زیادہ گہرا ہے۔ وضاحت کرتا ہے کہ ہر عمل اور شے کا مخصوص اثر اور کیفیت ہے جسے ہر فرد ذہن کے مطابق محسوس کرتا ہے۔ آدمی کا شعار جب آباو اجداد کے محدود شعور کی کاربن کاپی بنتا ہے تو پھر اس قابل نہیں رہتا کہ حقیقت اور فریب میں فرق کر سکے۔ اس کے برعکس انبیاء کرام کی طرزِ فکر اور قرآن میں تفکر سے محدود طرزِ فکر یعنی فریب کا جال ٹوٹ جاتا ہے۔

یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کشش ِ ثقل سمیت کائنات میں جتنے مظاہر ہیں ، ان کی خارجی حیثیت نہیں ہے، ہم ان کو داخلی کیفیت کے مطابق سنتے ، دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں یعنی ذہن کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ مثلاً رات کو ترک کرتے ہیں تو میلوں میل فاصلہ اور دہائیاں پلک جھپکتے میں گزر جاتی ہیں۔ اسی طرح تکلیف کے لمحات طویل لگتے ہیں، اطمینان کے لمحات غیر محسوس طور پر گزر جاتے ہیں۔

یہ سب کیا ہے/ صدیوں پرانے شعور کی نفی ہوتے ہی فاصلہ طے کرنے کی مقداریں بدل جاتی ہیں۔ آدمی جس خیال اور سوچ کی پیروی کرتا ہے، اسی کے مطابق زمین کے سمٹنے اور پھیلنے کی مقداریں کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔

اسپیس کیسے پھیلتی اور سمٹتی ہے؟ نظریہ رنگ و نور کے بانی محترم عظیمی صاحب سمجھاتے ہیں۔

”اسپیس حذف ہونے یا پھیلنے میں زمین کے لپٹنے کا قانون ہے۔ زمین محوری اور طولانی گردش میں لپٹتی ہے طولانی میں رفتار کم اور محوری میں زیادہ ہے۔ مادی جسم کو سب کچھ سمجھنے سے ذہن زمین کی طولانی حرکت کے تابع ہوجاتا ہے جس سے فاصلے طویل محسوس ہوتے ہیں۔ نیند ، تصور میں اور بیداری میں رہتے ہوئے ارادی طور پر لاشعور کو قبول کرنے سے ذہن زمین کی محوری حرکت کے تابع ہو جاتا ہے۔ نتیجے میں اسپیس محسوس نہیں ہوتی۔“

ماورائی علوم کو جاننے والے اس رمز کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ زمان و مکان ایک ساتھ سفر کرتے ہیں لیکن ماورائیت کا غلبہ ہو تو آدمی اسپیس میں سفر تو کرتا ہے لیکن اسپیس زمانیت کے تابع ہو جاتی ہے۔ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ واحد ہستی اللہ کی یکتائی میں نظامِ کائنات ٹائم اور اسپیس کی بیلٹ پر قائم ہے۔ اسپیس ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے جب کہ ٹائم ۔۔؟

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم