Topics

لو جی ___ بن گئی جے

احسن الخالقین اللہ فرماتے ہیں،     

”وہی ہے جو تمہاری ماؤں کے رحموں میں تمہاری تصویر کشی کرتا ہے جیسی چاہتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی زبردست ہے ، حکمت والا ہے۔“  (آل عمران : ۶)

بچہ نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں نشو نما پاتا ہے ، اس دوران ہم اس کے خدو خال یا تصویر سے واقف نہیں ہوتے۔ جب وہ دنیا میں آتا ہے تو سب کو تجسس ہوتا ہے کہ دیکھیں شکل و صورت کیسی ہے اور شباہت کس کی ہے۔

کم و بیش ساڑھے سات ارب کی انسانی آبادی میں ہر شکل منفرد ہے۔ آدم کے زمانے سے نہ جانے کتنے عورت و مرد دنیا میں آچکے ہیں ، کسی کی شکل من و عن کسی سے نہیں ملتی۔ تنوع اتنا ہے کہ شکل انفرادیت کی وجہ بن گئی۔

تخلیق اور تصویر لازم و ملزوم ہیں۔ تصویر کشی یا مصوری کو تخلیق سے الگ شعبہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سادہ شکل سے پیچیدہ مشینوں تک ہر شے کی تصویر پہلے ذہن میں بنتی ہے ، وہاں سے کاغذ ، کینوس یا اسکرین پر منتقل ہوتی ہے پھر مادی قالب میں ڈھلتی ہے۔ تصویر شے کے مطابق نہ بنے تو ہم قبول نہیں کرتے۔

مثال : روٹی ٹیڑھی بن جائے تو وہ روٹی رہتی ہے مگر سب کہتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں بن۔

ذہن چاہتا ہے کہ تصویر میں موجود اطلاعات کی پیروی کی جائے_ مصور ایسی تصویر بنانے کی مشق کرتا ہے جو قدرت کی بنائی ہوئی تصویر سے ہم آہنگ ہو۔ مصوری میں ایسی بہت سی اشیا کی تصاویر بنائی جاتی ہیں جو اس دنیا کی نہیں لگتیں اور ہم انہیں مصور کی اختراع کہتے ہیں۔ اصل میں ہم کائنات کی ہر شے سے واقف نہیں ہیں۔ خیالات جب ایک گوشے سے دوسرے گوشے میں پہنچتے ہیں تو وہاں موجود مصور کسی خیال کو کلی یا جزوی طور پر قبول کر کے کوئی تصویر بناتا ہے۔ لوگ اسے فکشن کہتے ہیں جبکہ ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری دنیاؤں میں موجود کسی مخلوق کی تصویر ہو۔ اکثر مصور بے خبر ہوتے ہیں کہ جس خیال پر وہ کام کر رہے ہیں ، وہ کہاں سے آیا ہے اور انہوں نے خیال کو کس حد تک قبول کیا ہے۔

 قانون تصویر بنانے کا طریقہ کیا ہے؟

۱۔ مصور سوچتا ہے اور سوچنے میں پوری تصویر کا عکس اس کے حافظے میں آجاتا ہے۔

۲۔ وہ شے کو مادی قالب میں دیکھتا ہے ۔ دیکھنے کے بعد شے کا عکس اس طرح دماغ میں آتا ہے جس طرح دنیاوی طرزوں میں سامنے آتا ہے۔

دونوں طریقوں میں مصور دماغ مِن دیکھ کر تصویر بناتا ہےمگر بیان کردہ دوسرے طریقے میں وہ سمجھتا ہے کہ میں باہر دیکھ رہا ہوں جبکہ باہر نظر آنے والی تصویر اسے اندر نظر آرہی ہے۔ اس مضمون کا تعلق مصوری کے پہلے طریقے سے ہے۔

مصور قرون وسطیٰ کے کسی سپہ سالار کی تصویر بنانا چاہتا ہے جس میں وہ گھڑے پر سوار ہے۔ اس زمانے کے لباس اور رہن سہن سے متعلق تصاویر اور معلومات مصور کے حافظے میں پہلے سے ہیں اور پنسل ہاتھ میں ہے ۔ وہ ہوا میں پنسل سے کچھ بناتا ہے۔ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ یہ ہوا میں تصویر بنانے کی کو شش کر رہا ہے۔ پھر پنسل کی نوک کاغذ سے مَس ہوتی ہے اور چند آڑی ترچھی لکیریں کاغذ پر نظر آتی ہیں جو بظاہر بے معنی لگتی ہیں۔ مصور ہاتھ دوبارہ ہوا میں بلند کرکے کچھ بناتا ہے پھر کاغذ کی طرف متوجہ ہوتا ہے جہاں مزید لکیروں کا اضافہ ہوتا ہے۔ دیکھنے والے کو ابتدا میں کاغذ پر بے ہنگم لکیریں نظر آتی ہیں ، وہ بتا نہیں سکتا کہ مصور کیا بنانا چاہ رہا ہے کچھ دیر بعد اندازہ ہوتا ہے کہ گھوڑے پر آدمی بیٹھا ہے جس کے خدو خال واضح نہیں ہیں، ایک مبہم خاکہ ہے جیسے دھوئیں یا بادلوں سے کوئی شکل بن رہی ہو۔ جب تصویر واضح ہوتی ہے تو مصور اضافی لکیریں مٹا دیتا ہے۔

تصویر بنانے کے مذکورہ طریقے کو اعلیٰ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں خاکے یا تصاویر زیادہ فطری اور جامع ہوتی ہیں اور مصور پوری طرح اندر میں منہمک ہوتا ہے۔

پنسل کو حرکت دینا ہاتھوں کی حرکت کو ذہن میں موجود تصویر سے ہم آہنگ کرنے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ اساتذہ تسلیم کرتے ہیں کہ مصور جتنا لاشعور میں منہک رہتا ہے ، تصویر اتنی اچھی بنتی ہے__ استاد کا کام یہ ہے کہ وہ شاگرد کو اندر میں دیکھ کے تصویر بنانا سکھا دے۔

دیئے گئے خاکوں کے لئے گھڑ سوار اور دَور کے اعتبار سے وضع قطع کا مطالعہ ضروری ہے۔ گھوڑے اور آدمی کے ڈھانچوں کا علم ، ڈھانچے پر منڈھے ہوئے پٹھوں __ گوشت پوست کی ساخت اور ان کی حرکات کا مطالعہ ، ماحول کے مطابق روشن حصوں ، کم روشن اور اندھیرے میں ڈوبے حصوں کو ظہار کرنا، یہ تکنیکی معلومات ہیں جن کا علم ضروری ہے۔

استاد اللہ بخش مرحوم__ وطنِ عزیز کے اعلیٰ پائے کے مصور تھے۔ 1896 میں وزیر آباد میں پیدا ہوئے اور 1978 ء میں انتقال ہوا۔ لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔ انہوں نے مدرسے میں عربی اور اردو پڑھی تاہم مصوری کی رسمی تعلیم کسی ادارے سے حاصل نہیں کی ۔ان کے والد مصور تھے__یہ علم وراثتاً منتقل ہوا۔ یورپ اور انگلستان سے نامور مصور اور طالب علم ان سے ملنے آتے۔ انگریز ان کی قدر کرتے تھے۔ استاد جی درویش مزاج تھے۔ انہوں نے پاکستان کی لوک داستانوں پر اعلیٰ درجے کی مصوری کی۔ اس وقت کے راجا مہاراجا ان سے اپنی تصویر بنوانا اعزاز سمجھتے تھے۔

استاد اللہ بخش کو مصوری کا پہلا سبق انگریزی کے پہلے تین حروفABC کی سلیٹ پر مشق دیا گیا۔ انہوں نے ایک سال میں ایک حرف اور تین سال میں تین حروف کی مشق کی۔ اس کے بعد مصوری میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ بظاہر عجیب لگتا ہے کہ ABC کا مصوری سے کیا تعلق لیکن لاشعور کے بہتر مطالعے کے لئے پرانے اساتذہ ایسی مشقیں کرواتے تھے قدیم اساتذہ کی کوشش ہوتی کہ شاگرد پہلے ” با ادب با نصیب“ بنے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد اللہ بخش کے کام کرنے کا انداز نرالا تھا۔

برطانوی مصوروں کی ایک جماعت ان سے ملنے آئی اور فیصل آباد جو اس وقت لائل پور تھا، وہاں مصوری کا مقابلہ منعقد کیا جس کا موضوع ”تخیلاتی مصوری“ تھا یعنی مصور جو چاہے بنائے ، تخیلاتی ہونا شرط تھا۔

برطانوی مصوروں نے استاد جی کو شرکت کے لئے امادہ کیا کہ باقی شرکا ان سے سیکھیں۔

مقابلہ شروع ہوا۔

سارے مصور روایتی انداز میں پہلے خاکہ کشی کی اور پھر اس میں رنگ بھر رہے تھے مگر استاد جی کینوس بورڈ کے سامنے حقے کے کش لگاتے ہوئے کسی خیال میں بے خیال تھے۔

انگریز فکر مند ہوئے کہ استاد جی تصویر کیوں نہیں بناتے۔ اتنے میں استاد جی کرسی سے اٹھے اور ٹرانس میں کینوس پر چند اسٹروکس لگائے پھر بنایدی ڈرائنگ کے بغیر رنگ بھرنے لگے۔ کچھ دیر میں تصویر مکمل ہوگئی۔ برش اور رنگ ایک طرف رکھ کر بے نیازی سے بولے ،

لو جی __ بن گئی جے !

یعنی تصویر مکمل ہو گئی ہے۔

تصویر میں پس منظر جنگل کا تھا جس میں ایک بوڑھا آدمی لاٹھی کے سہارے چل رہا تھا ۔ اس نے بچے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور بچے کے ہاتھ میں پیالہ نما برتن تھا۔

انگریز ان کی مہارت پر حیران تھے۔

ایک مرتبہ استاد اللہ بخش کینوس کے سامنے سوچ بچار میں گم تھے۔ بیگم مسلسل کہہ رہی تھیں کہ لکڑیاں ختم ہو گئی ہیں اور کھانا نہیں پک سکتا ، سوکھی لکڑیوں کا بندوبست کر دو۔ استاد جی جس خیال میں مگن تھے ، اس میں گم رہے۔

بیگم غصے میں آگئیں اور بے نقط سنائیں۔ جو نہیں کہنا چاہیئے تھا وہ کہا۔ استاد جی اچانک اٹھے اور کینوس پر کچھ بنانے لگ گئے ۔ جب تصویر ظاہر ہوئی تو تا حد ِ نظر سوکھا جنگل تھا اور درخت پتوں سے خالی تھے ۔ بیگم سے بولے،

” لے بھلے لوکے ، سارا سال ایناں نو بال“

یعنی اے نیک بخت! یہ لو __ تمہیں سارا سال ایندھن جلانے کے لئے لکڑیاں مل گئی ہیں۔

استاد اللہ بخش کے فن پاروں میں گہرائی ہے۔ ایک سات سالہ بچہ والد کے ہمراہ لاہور کے عجائب گھر کی سیر کو گیا۔ نوادرات دیکھ کر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا لیکن وہاں استاد جی کا ایک نادرِ روز گار فن پارہ ”طلسم ہوش ربا“ آویزاں تھا جسے دیکھ کر بچہ مبہوت رہ گیا اور فن پارہ اس کے ذہن میں نقش ہو گیا۔

اللہ نے بچے کو مصوری کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے وسائل عطا کئے۔ اس نے دنیا بھر کے سینکڑوں مصوروں کے کام کا مطالعہ کیا لیکن ” طلسم ہو ش ربا“ جیسا اثر کسی میں نہیں پایا۔

یہ فن پارہ آج بھی لاہور کے عجائب گھر کی زینت ہے لیکن افسوس کہ خیال نہ رکھنے کی وجہ سے اس کے خدو خال مبہم ہو چکے ہیں۔

قارئین کرام ! استاد اللہ بخش کے کام کرنے کا غیر معمولی انداز کیا کہتا ہے __؟

محترم عظیمی صاحب نے شے کے غیب ظاہر اور ظاہر غیب ہونے کا میکانزم بیان کیا ہے جس میں مصوری کا قانون بھی پنہاں ہے ۔ اس کے نکات درجِ ذیل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں ،

۱۔ اطلاع کے نزول سے دماغ کے اوپر ہونے والا ہلکا سا دبا ؤ واہمہ کہلاتا ہے۔ شعور اس کی گرفت نہیں کر سکتا۔

۲۔ جب یہی دباؤ زیادہ ہوتا ہے تو حواس میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور اس کے ہلکے ارتعاش میں ذہن کے اوپر لہروں سے بنی ہوئی تصویر کا بہت ہلکا سا خاکہ حواس کے اندر داخل ہوتا ہے۔ اس کیفیت کا نام خیال ہے۔

۳۔روشنی کا نزول گہرا ہوتا ہے تو دماغ کے اوپر دنیاوی علوم کی طرزوں میں ہم ماورائی لہروں یا لکیروں کو ڈرائنگ سے تشبیہ دے سکتے ہیں

 خلاصہ یہ ہے کہ ہر شے لہروں سے بنی ہے لہروں میں بہاؤ ہے یعنی جن لہروں سے اللہ نے کائنات کی ہر شے کی شکل و صورت اور ہر نوع کی ماں کے بطن میں بچے کی تصویر بنائی ، ان لہروں میں حرکت ہے اور ان کی رفتار کا اندازہ مادی علوم سے ممکن نہیں۔ مصور اگرچہ لہروں اور ان کے طرز عمل سے آشنا نہیں تصویر بنانے کے جس طریقے کو بیترین قرار دیا گیا ہے ، وہ لاشعور کے نقش کو شعور میں منتقل کرنا ہے۔

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم