Topics

درخت میں روشنی کا غلاف

رب العالمین اللہ کا ارشاد ہے،

          ” اور ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔“          ( الرعد : ۸)     

          پانی اور مٹی کا تیل ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہے۔۔۔؟ یہی نہیں ، لکڑی اور پتھر ، پتھر اور دھات ، دھات اور گیس ہر نوع الگ ہے۔ اس کی وجہ معین مقداروں سے تخلیق ہے۔ جیسے شیر اور ہرن چوپائے لیکن دونوں کی ساخت ، مزاج اور طبائع میں فرق ہے۔

          ممثل کلیات حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں،

          ”نوع ِ انسانی میں زندگی کی سرگرمیوں کے پیش نظر طبائع کی مختلف ساخت ہوتی ہیں مثلاً ساخت الف ، بے ، پے ، چے وغیرہ وغیرہ۔“

          درج بالا ارشاد میں پنہاں نقاط پر تفکر کیا جائے تو یہ روشن ہو کر دائروں میں پھیل جاتے ہیں۔ تخلیقی فارمولے الگ ہونے کی وجہ سے ہر نوع منفرد ہے۔ نوع کے افراد بھی ایکدوسرے کی کاربن کاپی ہونے کے بجائے جداگانہ تشخص اور طبیعت رکھتے ہیں۔ جیسے صورت ، آواز ، بولنے کا انداز ، چال ڈھال وغیرہ ۔ تھوڑا گہرائی میں جائیں تو ترجیحات کا فرق واضح ہوتا ہے۔ مزید گہرائی میں نیت ، ارادہ جذبات اور خیالات میں منفی یا مثبت طرز کا غلبہ جیسے خواص ملتے ہیں۔

          نکتہ یہ ہے کہ فرد محض ایک سراپا کے بجائے دنیا ہے جس کا تھوڑا حصہ ظاہر اور زیادہ حصہ غیب ہے۔ خواہ وہ کسی بھی نوع سے تعلق رکھتا ہو، ظاہری رخ اس کے وجود اور شخصیت کا ادنیٰ جز ہے۔ کتاب نظریہ رنگ و نور میں لکھا ہے،

                   ” تفکر کے ساتھ جب ہم آخری الہامی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھ لیتے ہیں کہ یہ ساری کائنات روشنی ہے ۔ موجودہ دور کا سائنس دان اس مقام تک پہنچ گیا ہے۔اس نے معلوم کر لیا ہے کہ زمین پر ہر چیز روشنی کے غلاف میں بند ہے۔ انسان کے اوپر بھی روشنی کا ایک غلاف ہے جس کو         سائنسی اصطلاح میں aura کہا جا رہا ہے۔Kirlian photography کے ذریعے سائنس دان اور ا کے shadow کا فوٹو لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔“

          واضح رہے کہ محقق جس کو aura کہتے ہیں، تصوف کے مطابق و ہ نسمہ کے shadow کا عکس ہے۔ ہر نسمہ مخلوق کے جسم سے نو انچ کے فاصلے پر روشنی کا وجود ہے۔

          محقق نے جان لیا ہے کہ شے روشنی کے غلاف میں بند ہے۔ ہر نوع اور فرد کی روشنی منفرد ہے جو ماحول پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مثلاً کسی جگہ آلوچے کا درخت ہے تو درخت کی طبع کے مطابق روشنی ماحول میں خاص تاثر پیدا کرتی ہے۔ ہم آلوچے کے درخت کو پھل ، پتّوں ، ٹہنیوں کے رنگ اور بناوٹ سے پہچانتے ہیں لیکن جس طرح ہر آدمی کا مزاج اور طبیعت منفرد ہے ، اسی طرح الوچے کی نوع اور اس نوع کے ہر فرد کی طبع ، جذبات ، پسند اور خواہشات مخصوص ہیں۔

          ۱۔       زید سفر میں تھا۔ ریل گاڑی اسٹیشن پر رکی تو دیکھا کہ سامنے قطار میں ویران عمارتوں کے درمیان خالی جگہ پر شاداب درخت ہے جس کی شاخیں بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔

          ۲۔       کچھ عرصے بعد زید کا گزر پہاڑی علاقے سے ہوا۔ اگرچہ علاقہ سر سبز تھا لیکن پہاڑوں کے دامن میں ایک درخت ایسا تھا جس نے دور سے زید کو متوجہ کر لیا۔ یہ اسی وقت کا قدیم درخت تھا جس کو اسٹیشن پر ویران عمارتوں کے درمیان ایستادہ دیکھا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ دامن ِ کوہ میں ہرے بھرے اسٹیج پر یہ درخت وقار سے کھڑا ، وادی اور پہاڑوں سے مخاطب ہو۔ معلوم ہوا کہ ایک عرصہ قبل یہاں وسیع باغ تھا۔ ایک روز باغ کے مالک نے سارے درخت کٹوا دیئے۔ وہ ان کی جگہ نئے اور زیادہ بہتر نسل کے پھل دار درخت لگانا چاہتا تھا مگر ایک بار اجڑنے کے بعد کوشش کے باوجود باغ دوبارہ آباد نہ ہو سکا۔

          ۳۔      زید اپنی پرانی درسگاہ گیا۔ وہاں دو بڑے ہاسٹل تھے۔ ایک مشرق اور دوسرا مغرب کی طرف۔ دیکھا کہ مشرقی ہاسٹل ویران ہے۔ صحن کے وسط میں بڑا درخت ہے جس کی ٹہنیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے اور خستہ عمارت ڈرؤانا منظر پیش کر رہی ہے۔

          زید کو حیرت ہوئی کہ انتظامیہ اس عمارت کو اباد کرنے کے بجائے نیا ہاسٹل تعمیر کر رہی تھی۔

          قارئین ! یہ دیو مالائی واقعات نہیں ۔ سائنسی علوم کے اس دور میں جب ایک خطے کے درخت دوسرے خطے میں کاشت کئے گئے تو کاشت کاروں اور محققین حتی کہ عوام نے مشاہدہ کیا کہ غیر مقامی درختوں نے فطری نظام ( ایکو سسٹم) پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔

          ۱۔       کئی مقامی درخت جو صدیوں سے اس علاقے میں تھے ، معدومی سے دو چار( اجڑنا ، نسل ختم ہونا ، غائب ہونا) ہوگئے۔

          ۲۔       بعض درختوں کی نشو ونما اور قد و قامت میں تبدیلی واقع ہوئی۔

          ۳۔      ایسے میں غیر مقامی درختوں نے جانوروں اور انسانوں پر کیا اثرات مرتب کئے ہوں گے ، غور کرنے والوں کے لیے اس میں نشانی ہے۔

          مضمون میں تین مقامات کی منظر کشی کی گئی ہے جہاں وسط میں موجود درختوں کا ماحول میں کلیدی کردار ہے۔ آدمیوں اور جنات کی طرح درخت مخصوص مزاج ، شعور اور حساسیت رکھتے ہیں۔ پسندیدہ ماحول سے خوش جب کہ ناپسندیدہ افراد اور خیالات سے ناخوش ہوتے ہیں۔ ان کا مزاج اور طبیعت جس طرح ماحول پر اثر انداز ہوتی ہے اس سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ زمین پر ہر شے اگرچہ مادی شکل میں نظر آتی ہے مگر۔۔۔ حقیقت کچھ اور ہے۔

           درخت کی زندگی پر غور کرنے والے افراد ان کے اثرات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور فوائد حاصل کرتے ہیں ۔ جاڑے کی سردی میں جب پانی کی سطح پر برف کی تہ جمتی ہے اور رگوں میں خون منجمد ہونے لگتا ہے تو کسان رات کو مویشی بیری کے درخت کے نیچے باندھ دیتے ہیں۔ دسمبر یا جنوری کی راتوں میں بیری کے درخت کے نیچے کھڑے ہوں تو سردی نسبتاً کم لگتی ہے۔ دیہات میں مشہور ہے کہ بیری کے درخت کے نیچے رضائی لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی طرح دھریک کے درخت کے نیچے گرمی میں ٹھنڈک کا احساس دوسرے درختوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے ۔ نیم کے سائے میں پُرسکون اور کیکر کے سائے میں گہری نیند آتی ہے۔

          یہ تجربات دلچسپ اور تفکر طلب ہیں۔

          درخت کے سائے میں ٹھہرنا دراصل درخت کی روشنی کے غلاف میں موجود ہونا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیری کے درخت میں کون سی روشنیاں ہیں جو سردی کا احساس کم کرتی ہیں؟ اور ان تین مقامات پر موجود درختوں میں کون سی روشنی ہے جس کی وجہ سے وہ مقامات ویران ہوگئے؟

          قارئین ۔۔۔ درخت کے ظاہر ہونے اور غیب ہونے کا فارمولا لکھئے۔

          قرآن کریم میں زیتون کو مبارک درخت کہا گیا ہے۔ مبارک ہو نا زیتون کے درخت کی باطنی صفت ہے۔ جن روشنیوں سے زیتون کا درخت تخلیق ہوا ہے ، وہ درخت کے گرد ماحول کا احاطہ کر لیتی ہیں اور اثرات مرتب کرتی ہیں۔

          تجربات و مشاہدات ثبوت ہیں کہ درخت ، جانور ، مٹی ، پتھر ، دھات وغیرہ کی ظاہری ساخت ان کا اصل وجود ہرگز نہیں۔ ہر شے کی کنہ روشنی ہے جو مادی وجود کو قائم رکھنے کے ساتھ فضا میں پھیلی ہوئی ہے اور مخصوص اثرات رکھتی ہے۔

          حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں،

                   ” انسان کے جسم سے اوپر ایک اور انسان ہے جو روشنی کی لہروں سے مرکب ہے۔اس کا اصطلاحی نام نسمہ ہے ۔ اصل انسان نسمہ ہ۔ جتنی بیماریاں اور الجھنیں درپیش ہوتی ہیں ، گوشت پوست سے مرکب خاکی جسم میں نہیں ہوتیں۔ البتہ نسمہ میں موجود کسی بیماری یا پریشانی کا مظاہرہ جسم پر ہوتا ہے۔“

          تخلیقی فارمولوں سے واقف خواتین و حضرات فرماتے ہیں کہ جسم دراصل اسکرین ہے اور نسمہ فلم ہے۔ فلم میں سے داغ دھبے دور کر دیئے جائیں تو اسکرین پر تصویر واضح نظر آتی ہے۔ بالفاظ دیگر نسمہ کے اندر سے بیماری کو نکال دیا جائے تو جسم صحت مند ہو جاتا ہے ۔ روشنی میں کمی بیشی بیماری کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً ہائی بلڈ پریشر کا مطلب ہے کہ سبز روشنی میں توازن متاثر ہوا ہے۔ سبز روشنی کے ماحول میں رہیں یا ایسے درخت کے سائے میں بیٹھیں جس کے نسمہ میں سبز روشنی کی کثیر مقدار ہو یا اس کے پھول پھل بطور دوا کھائے جائیں تو کمی دور ہوتی ہے ۔ یہ قانون تمام نوعوں پر نافذ ہوتا ہے۔ اختصار کے لیے درخت کی مثال دی گئی ہے۔

          نکتہ :    درخت کے نسمہ سے ماحول متاثر ہوتا ہے۔ یہ ماحول کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناموافق ماحول میں نا خوش اور موافق ماحول میں خوش رہتے ہیں۔ درختوں میں صلاحیت ہے کہ ماحول میں موجود کسی بھی روشنی کی مقدار کو کم یا زیادہ کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مخلوق کی طرح قدرت نے درختوں کو بھی روشنیاں منتقل اور قبول کرنے کا علم عطا کیا ہے۔

          جس طرح درختوں اور دیگر مخلوقات کی بنیاد روشنی ہے اسی طرح خیال بھی روشنی ہے۔ ذہن اس روشنی کو قبول کرنے کا انٹینا اور روشنی میں معنی پہنانے کا کمپیوٹر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا درخت خیالات کی روشنی قبول یا نشر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔؟ اس ضمن میں محققین کے تجربات کی فہرست طویل ہے۔

          اطالوی محقق ” مونیکا گیگیانو“ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں تدریس و تحقیق سے وابستہ ہیں۔ پودوں کے شعور ، ذہانت اور پیغام رسانی کی صلاحیت کوسمجھنے کے لیے دہائی سے زیادہ عرصہ تجربات کیے ہیں۔ اختلاف کرنے والوں نے بھی اس خاتون محقق کے تجربات سے اتفاق کیا ہے ۔ ان کی تحقیق کے اہم نکات یہ ہیں،

          ۱۔       پودے اور درخت بہت حساس طبیعت رکھتے ہیں اور صرف ان لوگوں سے بات چیت یا پیغام رسانی کرتے ہیں جن پر اعتماد ہوتا ہے۔

          ۲۔       پودے تنہائی میں مجھ سے الفاظ کے ذریعے مخاطب ہوئے۔ میں جانتی ہوں کہ ابھی تک یہ تجربہ سائنسی دائرے سے باہر ہے اوت لیبارٹری کے آلات ان کو ریکارڈ کرنے کے قابل نہیں۔ کسی کی موجودگی میں پودے مجھ سے اس طرح بات نہیں کرتے جیسے غیر موجودگی میں کرتے ہیں۔ پودوں میں ابلاغ کی صلاحیت ہے۔

          ۳۔      شہد کی مکھیاں یا پتنگے جب پھولوں کا رس چوسنے جاتے ہیں تو شہد کی مکھی کے پہنچنے سے پہلے پودے رس میں مٹھاس کی مقدار بڑھا دیتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ مکھیاں پھولوں سے زردانے دوسرے پودوں کے پھولوں پر منتقل کرتی ہیں اور پودوں کی نسل بڑھتی ہے۔ اس وجہ سے پودے شہد کی مکھیوں سے خوش ہوتے ہیں اور تحفتاً رس میں شکر کی مقدار بڑھا دیتے ہیں۔

          ۴۔      پودے محبت ، خلوص اور ایثار سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس سے ان کی پیدا وار بڑھتی ہے ایسے تجربات کی فہرست طویل ہے۔

          محققین کے طویل تجربات سے شواہد سامنے آچکے ہیں کہ درخت یا پودے اپنے نسمہ کی روشنیوں سے ماحول اور مخلوقات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ جب کسی ایسے درخت کا دائرہ کار پھیلتا ہے جس کی روشنی کسی خاص جگہ ، ماحول یا ماحولیاتی نظام کے لیے ساز گار نہ ہو تو ماحول اس کی روشنی سے متاثر ہو جاتا ہے۔جیسا کہ مضمون میں دی گئی تین مثالوں میں منظر کشی کی گئی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ درخت نوع ِ انسانی یا ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اللہ کی کوئی تخلیق بے مقصد نہیں۔ ہر شے کسی دوسری شے کا تریاق ہے۔ ماحول جن درختوں سے منفی طور پر متاثر ہوا وہ درخت اس جگہ کے لیے ساز گار نہیں تھے۔ اس کی روشنی ماحول پر غالب ہوئی اور ماحول میں موجودہ آدمی ، جانوروں اور پرندوں نے مضطرب ہو کر وہ جگہ چھوڑ دی۔

          جس طرح درخت انسان کو متاثر کرتے ہیں اسی طرح انسانوں کی مثبت اور منفی صفات سے درخت کی ہریالی اور افزائش متاثر ہوتی ہے۔

          ہر شے رنگ و روشنی سے بنی ہے اور سب ایک دوسرے کا اثر قبول یا رد کرتےہیں۔ درخت اور پودے لگاتے ہوئے معلوم ہونا چاہیئے کہ مخصوص ماحولیاتی نظام کے لیے کون سے درخت فائدہ مند ہیں تاکہ ماحول میں جس روشنی کی کمی بیشی ہے وہ درختوں کی روشنی سے متوازن ہو جائے۔

          رب ذوالجلال کا ارشاد ہے ،

                   ” اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لئے زمین

 میں پیدا کی ہیں ، ان میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر

 کرتے ہیں۔“       (النحل : ۱۳)

         


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم