Topics
احسن الخالقین اللہ تعالی ٰ کا
ارشاد ہے ،
۱۔ کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں
دیکھا کہ فضائے آسمان میں کس طرح مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے؟
اس میں ایمان رکھنے والی قوم کے لیے نشانیاں ہیں۔ (النحل :۷۹)
۲۔ کیا یہ لوگ پرندوں کو اپنے اوپر
پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمٰن کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے
ہو۔ وہی ہر چیز کا نگہبان ہے ۔ (الملک : ۹)
قرآن کریم میں پرندوں کی ساخت ،
اڑان اور طرز عمل کی مکمل وضاحت ہے۔
¨
پرندوں
کے پر سینکڑوں چھوٹے پروں سے مل کر بنتے ہیں۔ یہ بازو نما ہڈیوں سے پٹھوں کے ذریعے
منسلک ہوتے ہیں۔ پٹھوں کے گرد چربی کی دبیز اور باریک حفاظتی تہیں ہیں ۔ انسانی
بازو کے جوڑ
( کندھے ، کہنی، کلائی ، ہتھیلی اور ہاتھ کی
انگلیوں کے جوڑوں ) کی طرح پرندوں کے پروں کی ہڈیاں کئی جوڑوں پر مشتمل ہیں۔ ہر
پَر انسانی بازو کے قائم مقام ہے لیکن دونوں کی اپنے اپنے اجسام سے نسبت مختلف ہے۔
وزن اٹھانے ، اڑنے اور کم سے کم تھکاوٹ پیدا کرنے کے لیے پَر جسم سے قدرے لمبے ہو
سکتے ہیں۔
¨
پھیلنا
اور سمٹنا پروں کی حرکت کے دو جزو ہیں۔ ان کی مقداروں کا باہمی تناسب کم زیادہ
ہونے سے پرندہ زمین سے اٹھتا ہے، پرواز کو مختلف سمتوں میں بلند و پست اور پست و
بلند کرتے ہوئے بالآخر زمین پر اترتا ہے۔
¨
قدرت
نے پرندوں کو ہوا کے دباؤ ، سمت ، رفتار اور درجہ حرارت کے استعمال کا سائنسی و
تکنیکی علم عطا کیا ہے۔ ابنِ آدم نے پرندوں کے علم کا مطالعہ کیا اور اپنی ضرورت
کو مدِ نظر رکھ کر آخر کار اڑنے والی مشین ہوائی جہاز بنا لیا۔
¨
نظر یہ
آتا ہے کہ پرندے ہوا کو دبا کر اور اس سے پیدا ہونے والے ردِ عمل کی قوت سے اڑتے
ہیں لیکن قرآن کریم کے مطابق پرندوں کی پرواز ہوا کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اللہ
تعالیٰ کی منشا نے انہیں تھاما ہوا ہے__
یعنی پرواز محض پَر پھڑ پھڑانے کا عمل نہیں بلکہ مکمل علم ہے۔ آیئے اس نکتے کو
بیان کرنے سے پہلے ہوا بازی کی صنعت میں پرندوں کا کردار پڑھتے ہیں۔
پھیلنا اور سمٹنا دو بنیادی رخ ہیں
جو پرواز کے عمل پر محیط ہیں۔ پرندوں کی کوئی حرکت ایسی نہیں جو ان دو رخوں سے
باہر ہو۔
معلوم تاریخ میں مسلمان سائنس دان
الجاحظ(776ء تا 868ء) کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے سینکڑوں بری ، بحری اور فضائی
جانوروں پر تحقیق کے لیے دور دراز سفر کیا، جان جوکھم میں ڈالی اور مشاہدے کی بنا
پر شہرہ آفاق کتاب ” کتاب الحیوان “ مرتب کی جو سات ضخیم جلدوں پر مشتمل انسائیکلو
پیڈیا ہے۔
الجاحظ کا اصل نام ابو عثمان عمرو
بن بحر الکتانی البصری ہے۔ بصرہ میں پیدا ہوئے۔ قرآن کریم کی آیات میں تفکر کیا
اور عمر تحقیق و تجربات میں گزاری۔ تحقیق و مشاہدے میں مشغول رہنے سے ان کی آنکھیں
زیادہ تر پوری کھلی رہتیں اور معمول سے بڑی نظر آتی تھیں اس لئے الجاحظ نام پڑا جس
کے معنی ہیں__
کیڑوں کی طرح ہر وقت آنکھیں کھلی رکھنے والا۔
الجاحظ کی کتابیں ذاتی و تجربات پر
مشتمل ہیں۔ ان کی تحقیقات کےاعلیٰ اصولوں اور صحت کی بنا پر بہت سے یونانی حکما کے
نظریات غلط ثابت ہوئے۔ انہوں نے ” کتاب الحیوان“ کے ابتدایئے میں لکھا ہے،
” یہاں اور وہاں جب ہم گہرائی میں
دیکھتے اور سمجھتے ہیں تو فطری قوانین کی نشانیاں نظر آتی ہیں۔ اللہ ہمیں بصیرت
عطا کرتا ہے۔ ادراک ہوتا ہے کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ کے حکم کی تعمیل کریں ،
کائنات اور اس میں مخلوقات جو اللہ نے پیدا کی ہیں، انہیں جانیں ۔ قرآن کریم نے
ہمیں پابند کیا ہے کہ ہم اشیا کی کنہ تلاش کریں اور ذہن پر زور دیں۔“
یہ محض الفاظ نہیں بلکہ وہ ذہنی
رجحان ہے جس نے مسلمانوں کو تحقیق وترقی کی معراج پر پہنچایا۔ ” کتاب الحیوان“ میں
پرندوں کی ساخت اور طرزِ عمل کا سائنسی و تکنیکی جائزہ لیا گیا ہے اس کے تقریباً
نصف صدی بعد اندلس (اسپین) کے مایہ ناز محقق ابنِ فرناس نے الجاحظ کے تحقیقی کام
کا مطالعہ کر کے پروں کے ڈیزائن پر گلائیڈر تیار کیا اور اندلس کے پہاڑوں سے
گلائیڈر کے ذریعے پرواز کی۔ پرواز کامیاب رہی۔ چونکہ اڑان کو مرکز بنا کر گلائیڈر
تیار کیا تھا اور اترنے کے عمل پر توجہ نہ دی تھی اس لئے پروز کے اختتام پر چوٹیں
آئیں اور ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی۔ بعد میں گلائیڈر کے نقائص دور کیے مگر وہ ریڑھ
کی ہڈی کی تکلیف کے باعث دوبارہ پرواز نہ کر سکا۔
الجاحظ اور ابنِ فرناس کی تحقیق و
تجربات سےAerodynamics
(پروں کی ہوائی حرکیات) کے قوانین وضع ہوئے اور ہوائی جہاز کی ایجاد میں چند قدم
کا فاصلہ رہ گیا لیکن صد افسوس کہ مسلمانوں نے تفکر کو خیر باد کہہ کر غفلت کی
چادر کا انتخاب کیا اور نادر روزگار تصنیفات غیر اقوام کے ہاتھوں میں چلی گئیں۔
”کتاب الحیوان“ یورپ کے لئے خزانہ
ثابت ہوئی جس کے مطالعہ و تحقیق سے متعدد کتب لکھی گئیں، مختلف قسم کے گلائیڈر بنا
کر ناکام اور کامیاب پروازیں کی گئیں۔ امریکی بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے اور بالآخر
1903ء میں جدید ہوائی جہاز کی پہلی شکل وجود میں آئی۔
ہوائی جہاز پرندوں کی ہوائی حرکیات
کے اصولوں کے تحت بنائے جاتے ہیں جنہیں ان بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
·
زمین
سے اٹھان کی قوت۔
·
پروں
پر پیدا ہونے والی ہوا کی رگڑ کی قوت۔
·
پروں
کے اوپر ، نیچے اور مختلف حصوں پر ہوا کا مختلف دباؤ اور رفتار۔
·
پروں
کے اوپری حصے کا خم اور اس کی مقدار۔
·
دوران
ِ پرواز پَر اور ہوا کے درمیان زاویہ۔
·
بہتر
اٹھان اور پرواز کے لئے پروں کا نوکدار ہونا اور درمیان میں خلا کا موجود ہونا۔
·
دُم سے
پرواز کو متوازن رکھنا اور رخ بدلنا۔
یہ اصول ” کتاب الحیوان “ میں لکھے
ہیں۔
دلچسپ بات ہے کہ آج 12 سے 15
گھنٹے مسلسل اڑنے والے ہوائی جہازوں کے پروں کی بناوٹ جنوبی سمندروں میں پائے جانے
والے پرندے قادوس(Albatross)
کے پروں کی نقل ہے۔ قادوس کی متوازن ، معلق ، بلند اور طویل
پرواز کو پہلی مرتبہ الجاحظ نے بیان کیا۔
پروں کی ساخت اور طرز عمل کا
مشاہدہ کر کے اس کی غیر معمولی پرواز کی وجوہات کو منظر عام پر لایا۔ پھر ابنِ
فرناد نے قادوس کے پروں کی ساخت پر گلائیڈر بنائے اور مغربی اقوام نے ان ہی اصولوں
کے تحت مزید تحقیقات کیں۔
قادوس کے پروں کی چوڑائی کم اور
لمبائی زیادہ ہے ، سر انوک دار اور لچک دار ہے۔ پروں کے اوپر کا خم مخصوص گولائی
میں ہے جس کی وجہ سے ان کے لئے ہوا میں معلق ہونا آسان ہے۔ آج تقریباً تمام ہوائی
جہازوں میں ان خصوصیات کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے کہ ”پرندوں کو
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں تھاما۔“ اس میں پرواز کے رمز (باطنی رخ) کو سمجھنے
کی دعوت ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پروں کی تمام
حرکات ہوا میں ہوتی ہیں۔ ہوا کیا ہے __؟
مادی حواس بتاتے ہیں کہ ہوا مادی عناصر کے ذرّات پر مشتمل ہے جن میں ٹھوس اور مائع
کی نسبت فاصلہ زیادہ ہے۔ الہامی کتب کی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی شے کے
مادی رخ کی حیثیت لباس کی ہے۔ گیسوں کے ذرّات ہوا کا مادی لباس ہیں۔
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،
” روح کی آنکھ دیکھتی ہے کہ ہوا
ایک مخلوق ہے، اس مخلوق میں تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔ ہوا بچپن کا دور گزار کر جوان
ہوتی ہے اور جوانی کے بعد اس پر انحطاط بھی ہوتا ہے۔ ہوا ایک جرثومہ ہے جو ثابت
مسور کی دال کی طرح ہے۔ یہ گول ، چپٹا اور چکنا جرثومہ بیکٹیریا سے زیادہ چھوٹا
اور تیزی سے نشو ونما پاتا ہے۔ ہوا کی تخلیق کے زون کھلے ریگستان اور سمندر کی
اندرونی سطح ہے۔ اس کے جرثومے مادی آنکھ اور دوسرے خورد بینی آلات سے نظر نہیں
آتے۔ ہوا کی مخلوق پر سبز رنگ غالب ہے لیکن جب ہوا میں شدت آجاتی ہے تو سرخ رنگ
غالب ہو جاتا ہے ۔ ہوا میں وہ تمام رنگ بھی موجود ہیں جو دوسری مخلوقات میں ہیں۔“
(کتاب : خاتم النبیین محمد رسول
اللہ ﷺ ، جلد دوم)
روح کے حواس و مشاہدات پر مبنی
اقتباس میں ہوا کی اصل کی انکشاف ہے۔ مادی حواس ہوا کو دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن اس
کے عنصری لباس ( گیسوں کے ذرّات) کا ہمیں احساس ہوتا ہے کیونکہ ہمارا لباس بھی
مادی عناصر سے بنا ہے۔
قرآن کریم میں ہے،
” ہم ہوا کو بھیجتے ہیں جو بادل کو
پانی سے بھر دیتی ہے۔ پھر ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں۔ پھر وہ پانی تم کو پینے کو
دیتے ہیں اور تم اتنا پانی جمع کر کے نہیں رکھ سکتے تھے۔“ (الحجر : ۲۲)
ہوا کے ذریعے زمین پر نقل و حمل کا
نظام قائم ہے ۔ نیز یہ پرواز کے لیے سہارا فراہم کرتی ہے۔
ایک تصویر صاف
شفاف فضا میں قسم قسم کے پرندے ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر محوِ پرواز ہیں۔ سب کے
پروں کی لمبائی چوڑائی کا تناسب ، حجم زاویہ اور رفتار وغیرہ مختلف ہیں۔ پہلی نظر
میں پرندوں کے درمیان خلا یعنی شفاف فضا نظر آتی ہے۔ غور کرنے سے منظر کی تفصیل
میں اضافہ ہوتا ہے۔ نظر آتا ہے کہ خلا انتہائی چھوٹے جانداروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ
ہوا کے جرثومے ہیں جو چمک دار ، چپٹے ، گول اور تیزی سے متحرک ہیں۔ مزید غور سے
دیکھنے پر چمک میں رنگ نمایاں ہوتے ہیں مگر شفافیت برقرار رہتی ہے۔ پرندوں کے
پھیلے ہوئے پروں کے نیچے ان جرثوموں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پر جیسے ہی سمٹتے ہیں
، ہوا کے جر ثومے بکھرتے ہیں اور پروں کے نیچے ان کی تعداد کافی کم ہو جاتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ جرثومے پرندے کی حرکات کا درست اندازہ کر کے اسے سہارا فراہم
کرتے ہیں جیسے انہیں اس کی تعلیم دی گئی ہو۔
ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیا ؒ
فرماتے ہیں،
مٹی سے نکلتے ہیں پرندے اڑ
کر
دنیا کی فضا دیکھتے ہیں مڑ مڑ
کر
مٹی کی کشش سے اب کہاں جائیں گے
مٹی نے انہیں
دیکھ لیا
ہے مڑ
کر
پرندہ اڑنے کا ارادہ کرتا تو اڑان
کے لیے ہوا آ موجود ہوتی ہے اور اسے ایک حد تک مٹی کی کشش سے آزاد کرتی ہے۔ زمین
پر اتارتی ہے پھر اڑاتی ہے پھر اتارتی ہے حتیٰ کہ ایک دن ایسا آتا ہے جب ہوا کو
پرندے کو مزید اڑانے کا حکم نہیں ملتا۔ مٹی کی کشش کی مقداریں اس طرح غالب آجاتی
ہیں کہ پرندہ مٹی کے ذرّات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔