Topics

لہر-الف___ب___ج

تقریباً نصف انچ قطر موٹائی اور دس میٹر لمبائی کی ایک رسی ہے جو لچک دار اور مضبوط ریشوں سے بُنی گئی ہے۔ رسی کا ایک سرا دیوار میں پیوست میخ کے ساتھ بندھا ہوا ہے جب کہ دوسرا فرد ”الف“ کے ہاتھ میں ہے۔ فرد الف رسی کو قدرے تنی ہوئی حالت میں اوپر نیچے حرکت دیتا ہے تو رسی میں لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ حرکت دینے سے رسی میں جو لہریں پیدا ہوئیں ان میں توانائی دیوار کے مقابلے میں کم ہے کیونکہ دیوار زیادہ وزنی ہے ، اس لئے رسی کی لہریں پلٹ آتی ہیں۔ جب تک الف رسی کو مخصوص ردھم میں حرکت دیتا رہے گا ، لہریں پیدا ہوتی رہیں گی۔

تالاب کے کنارے آٹھ سال کا بچہ کھڑا ہے۔ بچے کے ہاتھ میں کنکر ہیں۔ بچہ ایک کنکر تالاب میں پھینکتا ہے۔ کنکر پانی میں گرنے سے لہریں پیدا ہوتی ہیں اور دائروں میں کناروں تک پھیل جاتی ہیں۔ تواتر سے کنکر پھینکا جائے تو لہریں بننے کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔

ریڈیو اسٹیشن کے ٹاور پر نشریاتی آلات نصب ہیں۔ یہ آلات برقی سگنلز کو وصول کر کے ٹرانس میٹر میں بھیجتے ہیں۔ ٹرانس میٹر میں حساس انٹینا ہے جس کے الیکٹران برقی سگنلز کی فریکوئنسی میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ الیکٹران منفی چارج کا حامل برقی ذرّہ ہے جس کے ارتعاش سے برقی مقناطیسی لہریں پیدا ہوتی ہیں اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔

فرد ب اپنے دوست ج سے مخاطب ہے۔ فرد ب اپنے گلے ، منہ اور حلق کی ساخت کی مدد سے ہوا میں مخصوص ارتعاش پیدا کرتا ہے جو لہر کی شکل میں ج کے کانوں سے ٹکراتا ہے۔ کان اس ارتعاش کو برقی لہر میں تبدیل کر کے دماغ تک پہنچاتا ہے اور ج اپنے دوست ب کی بھیجی گئی لہر کے مفہوم سے واقف ہو جاتا ہے۔

لہر کسی بھی قسم کی ہو ، خواہ مادی میڈیم کی حد تک ہو یا روشنی اور اس سے ماورا میڈیم ہو ، سب کی تخلیق میں ایک اصول کار فرما ہے جسے ہم حرکت کا نام دے سکتے ہیں۔

حرکت کا تسلسل قائم رہتا ہے تو اسے ہم لہر سے تعبیر کرتے ہیں۔ لہر کسی بھی نوعیت کی ہو، حرکت ہے۔ محققین کے مطابق ہر قسم کی لہر ارتعاش سے پیدا ہوتی ہے۔ ارتعاش ایسی حرکت ہے جس میں تسلسل ہے ، تسلسل رہے تو لہروں کی تخلیق عمل میں آتی رہتی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلائی ہے ، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑے ہیں اور دریا بہا دیئے ہیں۔اسی نے ہر طرح کے ثمرات کے جوڑے پیدا کئے ہیں، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے، ان ساری چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔“   (الرعد : ۳)

ہر شے کی تخلیق دو رخوں پر ہے۔ لہروں کی تمام اقسام میں یہ اصول اظہر من الشمس ہے۔ سائنس کے طلبا اس قانون سے واقف ہیں کہ تمام اقسام کی لہروں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلی قسم ان لہروں کی ہے جن میں حرکت کے ذرّات یا قوتیں ، لہر کے سفر کرنے کی سمت کے عمودی رخ (90 ڈگری) پر اوپر نیچے حرکت کرتی ہیں۔ سانپ کی لہر دار حرکت اس کی مثال ہے۔ اگر سانپ کے سفر کرنے کا رخ شرقاً غرباً ہے تو سانپ کے بل کھانے کا رخ شمالاً جنوباً ہوگا۔ زیادہ تر لہریں اسی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ رسی اور پانی میں ارتعاش سے پیدا ہونے والی لہریں حتی کہ روشنی اور تمام برقی مقنا طیسی لہریں ، transverse لہریں کہلاتی ہیں۔ ان کی سادہ ترین شکل کو sine curve کہتے ہیں۔

شکل نمبر (۱) دیکھئے__ شکل میں واضح ہے کہ اس طرح کی لہر اپنے وسطی مقام سے دونوں اطراف ایک جیسے خم رکھتی ہےیعنی ایک جیسے خم مخالف سمت میں جوڑے کی صورت میں منسلک ہیں۔ بظاہر لہر ایک مگر دو ایک جیسے مخالف رخوں سے تخلیق پائی ہے۔

دوسری بڑی قسم ان لہروں کی ہے جن میں لہر کے میڈیم کے ذرّات یا قوتیں ، لہر کے سفر کرنے کی سمت کے متوازی آگے پیچھے حرکت کرتی ہیں۔

شکل نمبر (۲) دیکھئے__اس قسم کی لہر سے واضح ہے کہ ارتعاش کم دباؤ اور زیادہ دباؤ کے جوڑوں کی صورت میں ہے۔ زیادہ دباؤ کی جگہ compression اور کم دباؤ کی حامل جگہ rarefaction کہلاتی ہے۔ طبعی سائنس کی اصطلاح میں ان کو longitudinal لہریں کہتے ہیں۔

اس مختصر بیان کا مقصد یہ ہے کہ لہروں کی تخلیق دو مخالف رخوں سے کی گئی ہے۔ چوں کہ مادی تحقیقات سے دریافت ہو چکا ہے کہ ہر شے خواہ وہ مادے سے بنی ہو یا توانائی کی کوئی شکل ہو، اس کی بنیاد لہر ہے۔ لہر دو رخوں پر ہے تو لامحالہ لہر سے تخلیق پانے والی ہر شے میں دو رخ موجود ہیں۔

رنگ و نور کے عارف عظیمی صاحب فرماتے ہیں:

” مادے کے اندر تفکر کیا جاتا ہے تو مادی قوانین اور مادی خصوصیات معلوم ہوتی ہیں۔ جب ہمارا ذہن مادے کی گہرائی میں جستجو کرتا ہے تو ایسی دنیا کا پتہ چلتا ہے جو مادیت کی بنیاد ہے۔ اس کو ہم لہروں کی دنیا یا روشنی کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے مادے کے اجزائے ترکیبی تلاش کئے تو ایٹم اور ایٹم کے ذرّات سامنے آئے۔ ایٹمی ذرّات میں الیکٹران کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں کہ وہ دہری خصوصیات کا مالک ہے۔ ایک طرف مادی ذرّہ ہے تو دوسری طرف لہر ہے۔ ایٹم کے اندر موجود لہروں کا نظام روشنی کی دنیا کا سراغ دیتا ہے چنانچہ ہم اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتے ہیں ، وہ ایک طرف مادی تشخص رکھتا ہے اور دوسری طرف روشنی کا ہیولا ہے۔ روشنی کے ہیولے میں جو تحریکات پیدا ہوتی ہیں اسی کے مطابق مادی تشخص میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔“

اس اقتباس میں اشیا کے دہرے رخ پر ہونے کی تشریح ہے۔ مادہ بظاہر ساکت و جامد اور ٹھوس تشخص رکھتا ہے لیکن جن روشنیوں اور لہروں پر اس کاقیام ہے، وہ ہمہ وقت حرکت میں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر مادے کے ظاہری رخ کو مغلوب کر کے باطنی رخ یعنی روشنی اور لہر کے نظام سے رابطہ کیا جائے تو مادی لباس میں رہتے ہوئے روشنی کی سرعت (رفتار) اور لطائف سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔

سوال: ہمارا جسم مادے سے بنا ہے اور مخفی رخ روشنی یا لہروں کے نظام پر مشتمل ہے۔ ہم کس طرح روشنی کے رخ سے واقف ہو سکتے ہیں؟ کیا واقف ہوئے بغیر اپنے بارے میں جان سکتے ہیں؟

سادہ جواب ہے کہ اپنے نصف واقف نہیں تو اپنے بارے میں ہماری رائے درست کیسے ہو سکتی ہے!

فلموں ، ناولوں اور تصوراتی خاکوں میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ مافوق الفطرت صلاحیتوں اور قابل یقین قوتوں کے حامل کردار بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہے ہیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ آدمی لاشعوری طور پر اپنے اندر موجود انسان کی صلاحیتوں سے کچھ نہ کچھ واقف ہے اور ان کا کسی نہ کسی صورت میں اعتراف کرتا ہے۔

سوال کا پہلا جزو یہ ہے کہ ہم کس طرح لہروں کے نظام میں داخل ہو کر روشن رخ سے واقف ہوں؟

الہامی کتب اور آخری کتاب قرآن کریم میں لہروں کے وقوف کے پروگرام کو صلوۃ کا نام دیا گیا ہے۔ صلو ٰۃ اللہ تعالی سے ربط ہے ، ربط یکسوئی سے پیدا ہوتا ہے اور یکسوئی تفکر کا نتیجہ ہے۔

لہروں کی وسعت : لہر کا اپنے وسط سے اوپر نیچے اطراف میں پھیلاؤ اس لہر کا حیطہ(amplitude) کہلاتا ہے اور فی سیکنڈ امواج کے گزرنے کی شرح کو فریکوئنسی کہتے ہیں۔ لہر کے ایک فراز ( یا نشیب) سے دوسرے فراز (یا نشیب) تک کا فاصلہ طول موج کہلاتا ہے۔ طول موج جتنی بڑی ہوگی ، فریکوئنسی اتنی ہی کم ہوگی، جیسے کنگھی کے دندانے جتنے زیادہ ہوتے ہیں ، دندانوں کا آپس میں فاصلہ اتنا کم ہوتا ہے۔ زیادہ فریکوئنسی کی لہریں زیادہ توانائی کی حامل ہوتی ہیں ، ان کے راستے میں رکاوٹ آجائے یا مزاحمت ہو جائے تو یہ اپنی توانائی جلد ضائع کر دیتی ہیں اور چھوٹی طول موج کی وجہ سے چھوٹے حجم کی چیزوں سے مزاحم ہو جاتی ہیں۔

گاما ریز اور ایکس ریز طاقت ور سمجھی جاتی ہیں۔ یہ ایٹمی اور نیو کلیائی سطح پر چیزوں سے مزاحم ہو سکتی ہیں۔ نتیجے میں اشیا کی ماہیت میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ ایکس ریز کو زیادہ توانائی اور زیادہ فریکوئنسی کی بنا پر صحت کے لئے اتنا حوصلہ افزا قرار نہیں دیا جاتا۔ اس کے بعد بالائے بنفشی اور پھر بنفشی سے مرئی روشنیوں کا آغاز ہوتا اور سرخ پر اختتام ہو جاتا ہے۔ پھر ریڈار اور اس کے بعد مائیکرو ویو لہریں ہیں۔ جو خلیاتی سطح پر توانائی منتقل کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کھانا گرم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

مضمون میں زیادہ قابل ذکر لہروں کو مختصر بیان کیا گیا ہے ورنہ ایک قسم سے دوسری قسم تک لاشمار اقسام کی لہریں درمیان میں موجود ہیں۔

مائیکرو ویو کے بعد ریڈیو ویوز کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ریڈیائی لہریں دوسری لہروں کی نسبت فریکوئنسی میں کم لیکن طول موج میں بڑی ہیں۔ ریڈیو کی نشریات کے لئے ان مقداروں کی لہروں کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ کیوں کہ طول موج بڑی ہونے کی وجہ سے یہ لہریں رکاوٹوں سے کم متاثر ہوتی ہیں اور عمارتوں اور درختوں وغیرہ کے درمیان خلا کو باآسانی پُر کر سکتی ہیں۔

ریڈیائی لہروں میں نسبتاً short wave اور long wave کی تقسیم موجود ہے۔

چھوٹی ریدیائی لہروں میں FM قابل ذکر ہیں۔ ایف ایم بینڈ ریڈیو کی لہریں لمبائی میں 2.8 میٹر سے3.4 میٹر تک ہوتی ہیں، اور عمارتوں کے اندر یا آس پاس ہر خلا کو پُر کرنے کی خاص صلاحیت نہیں رکھتیں۔تب ہی ایف ایم ریڈیو کی نشریات ہر جگہ اچھی طرح موصول نہیں ہوتیں۔

بڑی ریڈیائی لہروں میں AM ریڈیو بینڈ معروف ہے۔ اے ایم ریڈیوں کی لہریں لمبائی میں 180 میٹر سے 550 میٹر تک ہوتی ہیں اور عمارتوں کے اندر باہر کسی جگہ کو خالی نہیں چھوڑتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اے ایم ریڈیو کی نشریات صاف اور واضح سنی جا سکتی ہیں۔

نکتہ : لہر جتنی بڑی ہوگی راستے میں رکاوٹوں کو اتنا ہی غیر موجود یا غیر مزاحم دیکھے گی یعنی اگر لہر کسی سیارے کے قطر سے بڑی ہو تو سفر کے دوران سیاروں کو موجود نہیں جانتی۔ اگر نظام شمسی سے بڑی ہو تو سفر کے دوران نظام ہائے شمسی کو موجود نہیں جانتی حتی کہ لہر میں اتنی وسعت ہے کہ کائنات کو محیط ہو سکتی ہے۔

بابا تاج الدین ناگپوری ؒفرماتے ہیں،

” سائنس دان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کر دے۔ البتہ انا کی لہریں لامتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں۔ زمانی اور مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان لہروں کے لئے زمانی مکانی فاصلے موجود ہی نہیں ہیں۔ روشنی کی لہریں جن فاصلوں کو کم کرتی ہیں انا کی لہریں ان ہی فاصلوں کو بجائے خود موجود نہیں جانتیں۔“

اس قانون کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم میں حضرت سلیمانؒ کے دربار میں ”کتاب“ کا علم رکھنے والے بندے کا قصہ پڑھیں اور تفکر کریں۔ جو بات سمجھ میں آئے ، ادارے کو لکھ کر بھیج دیں۔

ہر فرد ، شے ، ذرّہ، ستارہ اور سیارہ __سب انا کی لہروں کے مختلف فارمولے ہیں جن سے نوعوں کی تخلیق ہوتی ہے۔ عظیمی صاحب نے ان لہروں کی رفتار کی وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ تفکر دراصل ”انا“ ہی ہے۔ یہ وہ انا نہیں جسے عرف عام میں انفرادیت کے اظہار کے لئے بولا جاتا ہے۔ تصوف میں انا کے معنی وہ مطلق صفت ہے جس کے لیے کائنات کے زمانی و مکانی فاصلے بے معنی ہیں۔ تفکر سے انا کی لہروں کی وسعت اور صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

عام آدمی اس بات سے کسی حد تک واقف ہے کہ جب کسی نقطے پر تفکر کیا جاتا ہے تو بے شک وہ کائنات کے دور دراز گوشوں سے متعلق ہو ، تفکر کی دسترس اس تک ضرور ہوتی ہے۔ روز مرہ گفتگو میں ہم تجلی کا ذکر کرتے ہیں کہ فلاں شاعر یا ناول نگار کا تخیل اس قدر وسیع ہے وغیرہ۔ اس میں خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ہم لاشعوری طور پر انا کی لہر اور میکانزم کی اہمیت کا اقرار کرتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اتنے بڑے کائناتی راز سے شعوری طور پر واقف نہیں۔

اللہ تعالی اپنے محبوب بندے رحمتہ للعالمین ﷺ کے طفیل ہمیں ان علوم کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

 بڑے(macro) اجسام اور لہریں :

الیکٹران بہت چھوٹا ذرّہ ہے اس لئے اس کی طبع کا دہرا پن (لہر اور ذرّہ) بہت زیادہ واضح ہے۔الیکٹران کی حرکت ہمیشہ لہر کی صورت میں ہے۔ لہر کی رفتار اس قدر ہے کہ الیکٹران کو ایک وقت میں ایک نقطے پر تلاش کرنا محققین کے بقول ناممکن ہے۔ جب ہر شے کا قیام لہر پر ہے پھر ہم حواس خمسہ سے اس لہر کا ادراک کیوں نہیں کر سکتے__؟

آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کی رو سے یہ تجرباتی طور پر بھی ثابت ہو چکا ہے کہ جسم کتنا بڑا کیوں نہ ہو، اس کی حرکت ہمیشہ لہر کی صورت میں ہوتی ہے۔ البتہ لہر چونکہ ایٹمی اور نیوکلیائی سطح کی پیمائشوں کی ہے جو الیکٹران کے لئے بہت بڑی اور واضح ہے لہذا ہمارے مادی حواس اس قدر لطیف نہیں کہ اس سطح کی لہر کا ادراک کر سکیں۔ چناچہ آئن اسٹائن نے یہ اخذ کیا اور بعد میں سائنس دانوں نے اس کی تصدیق کی کہ ہر شے بنیادی طور پر روشنی کی لہروں کے طول موج یا ان کے کسی حاصل ِ ضرب کے تحت حرکت کرتی ہے۔ البتہ یہ عین ممکن ہے کہ اس شے کے یا فرد کے حواس اتنے حساس نہ ہوں کہ وہ اس لہر کا اندازہ کر سکیں،

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں،

”سائنس کا عقیدہ ہے کہ زمین اور زمین پر موجود ہر شے کی بنیاد یا قیام لہر اور صرف لہر پر ہے۔ ایسی لہر جس کو روشنی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا اور پوری کائنات صرف ایک ہی قوت کی مختلف شکلوں کا مظاہرہ ہے۔ کائنات میں ممتاز ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ یہ لہر اور روشنی کیا چیز ہے۔

حضرت عیسیٰؒ نے فرمایا ہے ،

God said light and there was light

یعنی خدا نے کہا 'روشنی اور روشنی وجود میں آگئی۔ اس بات کو قرآن کریم نے اللہ نور السمٰوٰت و الارض۔یعنی اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، کہہ کر بیان کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لہر یا روشنی اور زمین و آسمانوں کی بساط براہ راست اللہ کی ذاتِ مطلق سے قائم ہے۔جب ساری کائنات بشمول انسان حیوانات ، نباتات اور جمادات روشنیوں اور لہروں پر قائم ہے تو اس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ سب موجودات دراصل اللہ کے نور (لہر) کا مظاہرہ ہے۔ اسی لہر یا روشنی کو مذہب نے روح کا نام دیا ہے۔“۔


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم