Topics
امام سلسلہ عظیمیہ ابدالِ حق حسن
اخریٰ سید محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیا ءؒ نے اپنی تصنیف ” لوح
و قلم“ میں تحریر فرمایا ہے،
” حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب
یہ سوال کیا گیا کہ اس کائنات سے پہلے کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا،
'امعاء '
سوال کیا گیا
اس کے بعد کیا ہوا؟
ارشاد ہوا ' ماء؛۔
'معاء ؛ عربی اصطلاح میں ایسی
منفیت کو کہتے ہیں جو عقل انسانی میں نہ آسکے
اور 'ماء' عربی میں 'مثبیت ' کو کہتے ہیں جو کائنات کی بنیادیں ہیں۔“
احسن الخالقین اللہ تعالیٰ نے نوع
آدم کو تخلیق کی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ فرد ذہنی سطح کے مطابق تخلیق کرتا ہے ۔
جیسے آدم روحانی صلاحیت بروئے کار لا کر روشنیوں میں تصرف کر کے تخلیق کرتی ہے اور
مادیت کے تابع رہ کر بھی چیزیں تخلیق ہوتی ہیں۔ ہر دور میں روحانی معراج اور مادی
ارتقا اس کی مثال ہے۔
اولیائے کرام نے ہر عہد میں اللہ
کی مخلوق کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں اور علم کی نئی جہتوں سے متعارف کرایا ہے۔
کرامات کے پس پردہ معین مقداروں کے قوانین ہیں جو کائنات کی اساس ہیں۔ دوسری طرف
مادی محققین نے اپنی سطح پر ایجادات کیں جس کا مظاہرہ موجودہ دور ہے۔
ہوائی جہاز 1903ء میں ایجاد ہوا۔
اس ضمن میں صدیوں پہلے شروع ہوئی اور وقت کے ساتھ ابتدائی اور سطحی نوعیت کے اڑنے
والے ڈھانچے میں بتدریج بہتری لائی گئی
حتٰی کہ پہلی جنگ عظیم میں ہوائی جہاز جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئے۔ دوسری
جنگ عظیم کے دوران کوششیں تیز ہوئیں کہ کسی طرح ہوائی جہاز کی رفتار ، آواز کی
رفتار سے زیادہ ہو جائے ۔ امریکی فضائیہ
نے 1945 ء میں اس کا ڈیزائن تیار کیا اور
عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئے اور 1948ء میں Bell
X-1 نامی جہاز نے ایک ہزار میل فی گھنٹے کی
رفتار سے کامیاب پرواز کی۔ واضح رہے کہ محققین آواز کی رفتار 767 میل فی گھنٹہ
بتاتے ہیں۔
پھر اس خیال کی داغ بیل پڑی کہ
مسافروں کے لئے آواز کی رفتار سے تیز طیارے موجود ہوں تاکہ بین البرا عظیمی فاصلے
کم سے کم وقت میں طے ہوں۔ چناچہ 1950ء کے اوائل میں منصوبے کا آغاز ہوا۔ فرانس اور
برطانیہ کے باہمی تعاون اور تحقیق کے نتیجے میں کنکورڈ (Concorde) نامی طیارے وجود میں آئے۔ 1969ء میں کنکورڈ نے پہلی آزمائشی پرواز
کامیابی سے طے کی ، اس کی رفتار آواز سے زیادہ تھی۔
1976ء سے باقاعدہ طور پر برطانیہ
اور فرانس سے امریکہ تک مسافر بردار پروازوں کا آغاز ہوا۔ چند جان لیوا حادثات ،
انتہائی مہنگے سفر اور ہمہ وقت موجود تکنیکی خد شات کے باعث کنکورڈ منصوبے کو
2003ء میں ختم کر دیا گیا۔ بچے کچے کنکورڈ طیارے عجائب گھروں کی زینت ہیں۔
اس وقت دفاعی اور تحقیقی مقاصد کے
لئے سپر سانک طیارے زیر استعمال ہیں۔ جن کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔ جن طیاروں
کی رفتار آواز کی رفتار سے کم از کم پانچ گنا زیادہ ہے وہ ہائپر سانک طیارے کہلاتے
ہیں ۔ یہ ابھی تجرباتی مراحل میں ہیں۔ امریکہ ، روس ، چین ، برطانیہ اور فرانس اس
ٹیکنالوجی میں پیش پیش ہیں۔ خصوصاً امریکہ کے طیارے لاک ہیڈ SR-71 بلیک برڈ ، اور لاک ہیڈ مارٹن F-35 نمایاں ہیں۔
یہ ہوائی جہازوں کی صنعت میں جدت
اور صلاحیت کے زیادہ سے زیادہ حصول کا مختصر احوال ہے۔
1903 ء سے لے کر اب تک طیارہ سازی
کی صنعت کے کچھ عرصے(time line)
میں ہم تمام اہم پیش رفت اور واقعات کو مختصراً بیان کرتے ہیں۔
یہ 1945 ء ہے۔ امریکی فضائیہ نے
پہلے سپر سانک طیارے کو خیال سے وجود میں لانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ محققین اور
انجینئروں کی ٹیم تمام پہلوں اور رکاوٹوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ تین محققین آواز کی
رفتار سے تیز ہونے پر طیارے کو درپیش ہوا کی رگڑ ، مزاحمت اور حدت کو کم سے کم کرنے
کے مفید اور ممکن ڈیزائن بنانے کی کوشش میں ہیں۔
رات کا وقت ہے۔ محقق الف خوب صورت
پُر فضا پہاڑی مقام پر بنی قیام گاہ میں موجود ہے۔آسمان صاف اور جھلمل ستاروں سے
سجا ہوا ہے۔ موسم میں قدرے خنکی ہے لیکن خوش گوار احساس غالب ہے۔ محقق الف تمام تر
ذہنی وسعت اور صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے تفکر کی تصویر بنا ہوا ہے۔ سوچ بچار
کے دوران آنکھیں بند ہوتی ہیں یا کھلی رہتی ہیں۔ ایسے میں پتھر کی ہموار سل پر پُر
سکون نشست میں بیٹھے محقق کی ذہنی مرکزیت ہوائی جہاز کے قابل ِ عمل سپر سانک
ڈیزائن پر ہے۔
وہ ایک خیال میں بے خیال دیکھتا ہے
کہ ہر طرف گھپ اندھیرا اور خلا ہے۔ پھر خیالات غائب ہوگئے۔ اندھیرے میں اس کا وجود محض شاہد (observer) کا ہے۔ اچانک نقطہ نمودار ہوتا۔ غور سے دیکھنے پر محقق کو معلوم
ہوا کہ نقطہ دراصل کروی شکل کا قطرہ (پانی) ہے جو خلا میں معلق ہے۔قطرہ اپنے حجم
میں پھیل کر فٹ بال کے سائز کا ہو جاتا ہے۔ سیال (قطرہ) کا یہ کروی حجم اب بیضوی
شکل میں تبدیل ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی بتدریج اس طرح واقع ہوتی ہے کہ ایک سرے سے سیال
لمبی نوکدار صورت اختیار کر لیتا ہے۔
محقق الف کے ذہن میں خیال وارد
ہوتا ہے کہ پانی یا سیال وہ شے ہے جس میں ہر طرح کی شکل اور ہیت اختیار کرنے کی
صلاحیت ہے۔ خلا میں معلق بیضوی سیال کی شکل مسلسل تبدیل ہورہی ہے۔ اطراف سے دو
متوازی لیکن مخالف سمت میں پَر نما ساخت نمودار ہوتی ہیں۔ پچھلے حصے سے دو اسی طرح
کے متوازی اور مخالف لیکن سائز میں نسبتاً چھوٹے پَر اور اوپر کی طرف عمودی پَر(rudder) یعنی ہوائی جہاز کی شکل بن جاتی ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے۔ جہاز فضا میں
محو پرواز ہے۔ ہوا سفید دھوئیں کی طرح نظر آتی ہے اور جہاز کے مختلف حصوں سے ٹکرا
کر پیچھے جاتی ہے۔ اسی لمحے جہاز کے سامنے کے حصے(Cockpit) ، درمیانی لمبے حصے (fuselage)
پچھلے اور آگے پروں میں معمولی مگر واضح تبدیلی ہوتی ہے۔ نتیجے میں جہازسے ہوا کی
رگڑ اور دباؤ بہت کم ہو جاتا ہے۔
محقق الف کا شعور بیدار ہے اس لئے
یہ عمل اس کے حافضے میں ذہنی وسعت کے مطابق نقش ہو رہا ہے۔ جہاز کے پچھلے پروں اور
دم کے عین نیچے ایک سوراخ نمو دار ہوتا ہے ، اس میں سے انتہائی گرم اور تیز رفتار
گیسیں شعلے کی صورت میں نکلتی ہیں__یہ جہاز میں راکٹ
انجن کے نصب ہونے کی تصویر کشی ہے۔
پھر محقق تصور میں جہاز کی پرواز
کے دوران ہر طرف سے اس کا جائزہ لیتا ہے۔ ہوائی حرکیات (aerodynamics) کی جہاز کے ڈیزائن سے مطابقت کا مطالعہ کرتا ہے اور آنکھیں کھول
دیتا ہے۔چہرے پر مسرت اور آنکھوں میں چمک ہے۔ وہ یہ سب کاغذ پر منتقل کرتا ہے۔
تصاویر اور خاکوں سے جہاز کی شکل وہیئت واضح ہوتی ہے۔ ماڈلز بنا کر انہیں تیز
رفتار ہوا کی سرنگ(wind tunnel) میں رکھا جاتا ہے۔ نقائص دور کر کے بالآخر جہاز
بنانے پر کام ہوتا ہے ۔ اس طرح 1947ء پہلی کامیاب پرواز کا تجربہ کر کے سپر سانک
طیارہ سازی کا نیا شعبہ قائم ہوتا ہے۔
آپ نے ماضی کی تمثیل (analogy) حال میں پڑھی۔ یہ تمثیل باقاعدہ جہاز سازی
کی صنعت کی بنیاد ہے۔ سمجھنے سمجھانے کے لئے واقعاتی شکل میں بیان کرنے کی کوشش کی
گئی ہے۔
کائناتی حقیقت ہے کہ جب تک انہماک
اور ارتکاز کی مطلوبہ مقداروں کے ساتھ تصور قائم نہیں ہوتا، شے کی تخلیق یا ایجاد
کا عمل نامکمل ہے۔آج جدید ترین ٹیکنا لوجی سے لیس سپر سانک اور ہائپر سانک طیاروں
کی صنعت میں یہی اصول کار فرما ہے۔ تصور کی لامحدود دنیا سے معلومات کشید ہو کر
کاغذ ، کمپیوٹر اور ماڈل سے ہوتی ہوئی بالآخر مظاہرہ بن جاتی ہے۔
دلچسپ نکتہ : 1945 ء کے برعکس آج کل چیزوں کی ایجاد تخلیق
میں کمپیوٹر نظام اور سافٹ وئیرز کی مدو موجود ہے۔ جن سافٹ وئیرز میں پیچیدہ
مشینوں سے لے کر سادہ نوعیت کی اشیا کے ڈیزائن اور ماڈل بنائے جاتے ہیں وہ3D ماڈلنگ سافٹ وئیرز کہلاتے ہیں ۔ یہ فن مصوری
کی جدید کمپیوٹر ائزڈ شکل ہے ۔ کاغذ اور کینوس کے بجائے کمپیوٹر اسکرین ، ڈیجیٹل
قلم اور حساس سطحوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
3D
ماڈلنگ سافٹ وئیرز میں مصوری کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سافٹ وئیرز مصور یا محقق کو virtual خلا مہیا کرتے ہیں جن میں شے کی ابتدا رنگین شکل و صورت میں ڈھلنے
والے سیال یا مائع سے ہوتی ہے۔ سافٹ وئیر میں اوپر بیان کی گئی تمثیل کی طرح اس
سیال کو کسی شکل و صورت میں ڈھالا جائے تو وہ ٹھوس جسم کی طرح قائم رہتی ہے۔ سافٹ
وئیر میں سیال کی حالت سے پہلے شے کے حدو د اربع کو نقطوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
نقطوں کے درمیانی خلا کو virtual
مائع سے بھر کر مطلوبہ شکل و صورت میں ڈھالا جاتا ہے۔ جب تسلی بخش تفصیلات کی حد تک کام مکمل ہوتا ہے تو اس شے کو
مادی صورت دینے کے لئے یا تو اسے 3D
پرنٹر میں مادی قالب میں پرنٹ کرتے ہیں یا دوسرے مطلوبہ مواد کی مدد سے وہ شے
بنائی جاتی ہے۔
شے کی تخلیق میں ، خواہ وہ تصور سے
کاغذ ، پنسل یا کمپیوٹر سافٹ وئیرز سے ہو کر مادی وجود تک پہنچے، ایک حالت مشترک
اور لازم ہے۔ یہ حالت مائع، سیال یا دوسرے لفظوں میں پانی کی ہے۔
قرآن کریم میں پانی کو تخلیق کے
لیے بنیاد قرار دینے میں حکمت واضح ہے کہ پانی (ماء) کسی مخصوص فارمولے کے مرکب کا
نام نہیں بلکہ ایسا تشخص ہے جس میں پھیلاؤ کی لامحدود وسعت اور تخلیق کے لیے درکار
معین مقداریں موجود ہیں۔
”اللہ وہی ہے جس نے زمین اور
آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے سے تمہاری رزق
رسانی کے لئے طرح طرح کے پھل پیدا کئے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ
سمندر میں اس کے حکم سے چلے اوردریاؤں کو تمہارے لیے مسخڑ کیا۔“ (القمر : ۱۷)
جان داروں کی تخلیق میں اسپرم اور
بیضہ کیا ہیں؟ پانی کی مختلف صورتیں ہیں۔ نباتات کی تخلیق بھی اسی طرز پر ہے اور
جمادات میں پتھر اور دھات کی بھی۔ یہ پتھر کس طرح وجود میں آئے؟ ابلتے گرم سیال نے
تہ در تہ جم کر چٹانوں کی شکل اختیار کی یا کروی اور بیضوی صورت میں جمنے سے پتھر
تخلیق ہوئے۔ دھات بظاہر ٹھوس اور سخت ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ مائع (پانی) کی جمی
ہوئی حالت ہے جو شدید حرارت مہیا ہونے پر اصل شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
کائنات میں موجود کسی بھی شے کی
تخلیق کی ابتدائی حالت مائع (پانی) ہے جس میں بہاؤ ہے۔ پانی ہر شے میں تحلیل ہونے
کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آج کے جدید ترین 3D ماڈلنگ، 3D پرنٹنگ سافٹ وئیر اور سپر کمپیوٹروں کی ممکنہ سکت سے یہ روز روشن
کی طرح واضح ہے کہ تخلیق کی ابتدا ہمیشہ مائع (پانی) کی صورت سے ہوتی ہے۔
یعنی کسی بھی شے کی تخلیق سے پہلے
اس شے کی ترکیب سے متعلق مقداریں ایسی حالت میں موجود ہوں کہ ان میں بہاؤ ہو اور
مطلوب صورت میں ڈھل جانے کی صلاحیت ہو۔ ایسی حالت کو پانی یا سیال کے علاوہ کوئی
دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا ۔
سمجھنا ضروری ہے کہ ہر وہ عمل جس
میں بہاؤ ہے، تخلیق سے متعلق مقداریں ہیں ، حرکت ہے، کسی بھی شکل یا قالب میں
ڈھلنے کی لامحدود صلاحیت ہے __
وہ ماء(پانی) ہے۔ ماء__
روشنیوں کے بہاؤ ، گیسوں یا مائع کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔
جدید طبیعات میں گیسوں اور مائعات
دونوں کو سیال (fluid)
حالت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ گیسوں سے اوپر روشنی کے سیال مزید لطیف
ہیں۔ راقم الحروف کی فہم کے مطابق قرآن کریم میں واضح ہوتا ہے کہ خالق کائنات اللہ
تعالیٰ جس پانی کو تخلیق کی بنیاد قرار دیتے ہیں وہ معین مقداروں پر مشتمل سیال(fluid) ہے۔
”پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس
نے معین مقداروں سے تخلیق کیا اور ان مقداروں کی ہدایت بخشی۔“
(الاعلیٰ : ۱۔۳)
ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیا ء ؒفرماتے ہیں:
”کائنات کی ساخت میں بساطِ اول وہ
روشنی ہے جس کو قرآن کریم نے ماء (پانی) کے نام سے یاد کیا ہے۔ موجودہ سائنس میں
اس کو گیسوں (gases)
کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان ہی صد ہا گیسوں کے اجتماع سے اولاً جو مرکب بنا
ہے اس کو پارہ یا پارے کی مختلف شکلیں بطور مظہر پیش کرتی ہیں۔ ان مرکبات کی بہت
سی ترکیبوں سے مادی اجسام کی ساخت عمل میں آتی ہے اور ان ہی مادی اجسام کو موالید
ثلاثہ یعنی حیوانات ، نباتات اور جمادات کہتے ہیں۔ تصوف کی زبان میں ان گیسوں میں
سے ہر گیس سے ہر گیس کی ابتدائی شکل کا نام نسمہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں نسمہ حرکت کی
ان بنیادی شعاعوں کے مجموعے کا نام ہے جو مادی وجود کی ابتدا ہیں۔“
ماء__ اللہ تعالیٰ کی لامحدود صفات کا مجموعہ ہے۔ ماء (پانی) سے جب
تخلیق کی مقداریں مخلوقات کی نوعیت کے اعتبار سے الگ ہوتی ہیں تو نسمہ کہلاتی ہیں۔
گویا نسمہ ماء کی ایسی صورت ہے جس میں ہر نوع کی معین مقداریں ہیں۔
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں۔
” پانی کیا ہے ، بس اتنا سمجھ لینا
کافی ہے کہ ماء۔۔base
۔ ہر چیز کی بنیاد پانی ہے۔ ہر چیز پانی سے ہے ۔ پانی نہ ملے مر جائیں گے۔ اب پانی
کیا ہے؟ پانی میں مقداریں ہیں۔ مقداریں روشنی ہیں۔ روشنی نور ہے۔ نور کیا ہے؟ اللہ
کا حکم ہے ۔۔ اللہ کا حکم ۔۔ اللہ کا ذہن ہے۔ اللہ بارش برساتا ہے ۔ خواہش ڈالتا
ہے لوگوں کے دلوں میں۔ اللہ کی محبت ہے کہ کوئی چیز اپنے کام سے نہیں رکتی۔ دل
پھیپڑے سب اپنے وقت پر کام کرہے ہیں۔ ذرا سی گڑبڑ ہو جائے تو ۔۔؟ سب مقداریں ہیں۔“