Topics
• لیزر
ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوہے (حدید) کو ہاتھوں میں نرم کرنا اور اس سے زرہ بکتر ،
زنجیریں ، اوزار اور ہتھیار بنانا۔
• قوی ہیکل
جالوت کو فلاخن سے ختم کرنا۔
• خوش الحانی
سے اللہ کی تسبیح بیان کرنا۔
• پہاڑوں اور
پرندوں کا ذکر میں شریک ہونا۔
خالق ِ کائنات اللہ کا ارشاد ہے ،
” اور بلاشبہ ہم نے داؤد ؑکو اپنی طرف سے بڑا فضل عطا کیا۔
اے پہاڑو! اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو اور پرندو! تم بھی۔ اور ہم نے لوہے کو اس کے
لیے نرم کر دیا۔“ (سبا : ۱۰)
پہاڑوں کا مادی وجود پتھر سے بنتا ہے۔ پتھر کی بنیاد مٹی
ہے۔ لوہا اور تمام دھاتیں مٹی کی صورتیں ہیں__ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑکو جمادات
میں تصرف کی صلاحیت عطا فرمائی۔
الہامی کتب تورات و انجیل میں حضرت داؤدؑ سے منسوب ایک
ہتھیار کا ذکر ہے جس سے انہوں نے جالوت کو ہلاک کیا۔ وہ ہتھیار کیا تھا، اس حوالے
سے کتاب ” خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ ، جلد سوم“ میں سے کچھ حصہ اختصار کے
ساتھ پیش ِ خدمت ہے۔
” حضرت داؤدؑفلاخن ( سنگ ریزوں سے بھری ہوئی تھیلیاں
پھینکنے کا ہتھیار) چلانے میں ماہر تھے۔ فلاخن اتنی طاقت سے پھینکتے کہ جس چیز پر
گرتا تھا ، ریزہ ریزہ ہو جاتی تھی۔ ایک روز وہ جنگل سے گزر رہے تھے کہ راستے میں
پتھر نے متوجہ کیا ،'میں حجرِ موسی ؑہوں، مجھے اٹھا لیجئے ، میں وہی پتھر ہوں جس
سے حضرت موسی ؑنے فلاں دشمن کو ہلاک کیا تھا، پتھر اٹھا کر تھیلے میں رکھ لیا۔ کچھ
فاصلے پر ایک اور پتھر بولا، ' میں حجرِ ہارون ؑہوں ۔' اسے بھی رکھ لیا۔ تھوڑی دور
ایک پتھر اور ملا جس نے کہا،' میں حجر داؤدؑہوں ، داؤدؑاللہ کے نبی ہیں جو میرے
ذریعے جالوت کو ماریں گے ۔ ' انہوں نے یہ پتھر بھی اٹھا لیا۔ تینوں پتھر تھیلے میں
جاکر ایک ہو گئے۔ جب میدانِ جنگ میں حضرت داؤدؑ، دیو ہیکل جالوت کے مقابلے کے لیے
اترے تو ایک ہاتھ میں لاٹھی ، دوسرے ہاتھ میں فلاخن اور کندھے پر سنگ ریزوں سے
بھرا تھیلا تھا۔ جالوت تمسخر سے بولا، کیا تم مجھے کُتا سمجھ کر بھگانے آئے ہو؟
حضرت داؤدؑنے پتھر فلاخن میں رکھ کر جالوت کی طرف پھینکا۔ پتھر ماتھے کی ہڈی توڑ
کر کھوپڑی میں گھس گیا۔ جنگ میں جالوت کی فوج کو شکست ہوئی۔“
فلاخن جسے اردو میں گوپھن بھی کہتے ہیں، ہتھیاروں میں سادہ
ترین ، وزن نہ ہونے کے برابر اور پتھر کے زمانے سے زیرِ استعمال ہے۔ حضرت داؤدؑکے
واقعے کے بعد یہ مقبول ترین ہتھیار بن گیا۔ آج بھی مختلف علاقوں میں اس کی نشانہ
بازی کے مقابلے ہوتے ہیں۔ فلاخن میں ایسی کیا خوبیاں ہیں کہ سادہ رسیوں سے بنا یہ
ہتھیار مہلک بن جاتا ہے__؟ آیئے سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بناوٹ: چھ فٹ لمبی رسّی کو درمیان سے کاٹیں تو تین تین فٹ
کے دو ٹکڑے ہوتے ہیں۔ ان ٹکڑوں کے درمیان تین سے پانچ انچ کا چمڑا یا مضبوط کپڑے
کا ٹکڑا دونوں طرف سے باندھ یا سی دیا جاتا ہے۔ چمڑے کے آزاد سِرے کو خم دے کر
چھلّے (loop) کی شکل دی جاتی ہے جس میں سے دو انگلیاں
گزر سکتی ہیں۔ دوسرے آزاد سرے کے قریب گرہ لگائی جاتی ہے۔ اس کے آگے ایک یا ڈیڑھ
انچ کا ٹکڑا چھوڑا جاتا ہے جس کو نوک دار بنا کر جب فلاخن کوچلاتے ہیں تو ہلکے
دھماکے یا پٹاخے جیسی آواز پیدا ہوتی ہے۔
پنجاب (پاکستان) کے دیہات میں باجرہ ، جوار یا وہ فصلیں جن
پر پرندے حملہ آور ہوتے ہیں، کسان فلاخن کے ذریعے ان کو اڑا دیتے ہیں۔
فلاخن چلاتے ہوئے آواز ختم کرنے کے لیے گرہ سے آگے رسّی کا
تھوڑا حصہ کھول کر دھاگے الگ الگ کئے جاتے ہیں، یوں فلاخن خاموشی سے چلتا ہے۔ چمڑے
کی چوڑائی تقریباً دو انچ رکھی جاتی ہے۔ اس میں ایک آدھ انچ خلا پیدا کیا جاتا ہے
تاکہ پتھر سے مَس ہونے کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ رہے ورنہ توانائی کا ایک مفید حصہ
رگڑ کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔
بہترین ساخت کا فلاخن وہ ہے جس میں رسّی کو اس طرح بُنا
جائے کہ دونوں بازوؤں کی تین فٹ کی بُنائی مکمل ہونے پر ریشوں کو آگے دو میں برابر
تقسیم کر کے تین سے پانچ انچ تک الگ الگ بُنا جائے۔ پھر پہلے کی طرح اگلا بازو
اکٹھا کر کے بُن دیا جائے ۔ شکل الف دیکھیے۔
بہترین ساخت کا فلاخن چلانے کے لیے زیادہ مہارت کی ضروت ہے۔
رسّی جتنی لچک دار ، مضبوط اور ہلکی ہوگی ، فلاخن کی کارکردگی اور رفتار بڑھ جائے
گی ۔ شکل نمبر ۱ اور ۲ دیکھئے۔
طرزِ عمل : فلاخن چلانے کے لئے انگوٹھے اور انگشتِ شہادت سے
گرہ لگے حصے کو پکڑا جاتا ہے پھر انگلیاں چھلّے دار حصے سے گزار کر گرفت مضبوط کی
جاتی ہے۔ درمیانی حصے میں پتھر یا ڈھیلا رکھ دونوں ہاتھوں سے فلاخن کو کھینچتے
ہیں، گرہ والے اور چھلّے دار حصے کو سر کے اوپر کی طرف رکھتے ہیں اور جس حصے پر
پتھر ہے ، اسے سامنے کی طرف قدرے نیچے رکھا جاتا ہے۔
شکل نمبر ۳ کے مطابق آہستہ سے پتھر والے حصے کو آزاد کر کے دوسرے سرے
سے رفتار بڑھاتے ہوئے اسے گھمایا جاتا ہے۔ گھمانے کی رفتار جتنی زیادہ ہوگی۔۔۔
پتھر میں اسی اعتبار سے توانائی ذخیرہ ہوگی۔ شکل نمبر چار دیکھئے۔
پتھر کے وزن ، اس کی محوری حرکت اور رفتار کی ضرب سے
دائرہوی قوت پیدا ہوتی ہے جسے دائروی حرکت۱ کا معیارِ
اثر Angular Momentum کہا جاتا ہے
گھمانے کے دوران نشانے کے رخ پر پتھر کا حصہ آتے ہی دوسری جانب سے گرہ دار حصّے کو
چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے پتھر کا معیارِ اثر Momentum ، دائروی سے
مستقیم میعار اثر Linear Momentum میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پتھر پوری قوت سے
نشانے پر لگتا ہے۔
طبیعات پر مبنی دلچسپ حقائق اور تجزیہ :
کندھے سے ہاتھ تک پھر ہاتھ سے پتھر رکھے ہوئے آخری حصے تک لمبائی
کو معیار ِ اثر کا بازو کہا جاتا ہے۔ لمبائی ممکنہ حد تک بڑھانے اور پتھر پھینکنے
کے لیے جھٹکا دینے کی قوت بھی پتھر کی رفتار اور معیارِ اثر کی قوت کو بڑھا دیتی۔
جدید آلات سے فلاخن سے نکلنے والے پتھروں کی رفتار اور ان
کو منتقل شدہ قوت کی پیمائش کی گئی تو نتائج حیران کن تھے۔ تجربات سے اندازہ لگایا
گیا کہ ایک ماہر فلاخن انداز کے چلائے گئے۔
اوسط یعنی مرغی کے انڈے کے برابر پتھر سے نشانے پر پہنچنے
والی توانائی ، عام رائفل کی گولی کی توانائی کے تقریباً برابر ہے۔ آپ سوچیں گے کہ
رائفل کی گولی کی رفتار (ولاسٹی) زیادہ ہوتی ہے۔
طبیعات کے اصول کے مطابق متحرک مادی شے کی رفتار کے ساتھ اس
کی کمیت (ماس) یعنی مادے کی مقدار یکساں اہم ہوتی ہے۔ رفتار اور کمیت یک جان ہو کر
تیسری قوت پیدا کرتے ہیں جسے معیار ِ اثر کہا جاتا ہے۔ معیارِ اثر وہ قوت ہے جو
نشانے پر منتقل ہوتی ہے۔ فلاخن کے پتھر کی رفتار رائفل کی گولی سے کم ہے لیکن
زیادہ کمیت کی وجہ سے اس معیار ِ اثر ، رائفل کی گولی کے برابر ہو جاتا ہے۔ پتھر
جتنا وزنی ہوگا ، معیارِ اثر کی قوت اور توانائی کی مقدار غیر معمولی ہوگی۔
آثارِ قدیمہ سے ملنے والے فلاخن میں سیسے کی دھاتی گولیان
بڑی تعداد میں دریافت ہوئی ہیں۔ سیسہ لوہے یا تانبے کی نسبت بہت کثیف یعنی وزنی
دھات ہے اس لئے فلاخن میں یہ عام پتھروں کی نسبت زیادہ فاصلے تک جاتا ہے اور زیادہ
توانائی منتقل کرتا ہے۔
حضرت داؤد ؑ کے واقعے میں روحانی پہلو کے ساتھ ساتھ رائج
علوم کے اعتبار سے اس واقعے کا تجزیہ حیرت انگیز نتائج ظاہر کرتا ہے۔ تھیلے میں
جاتے ہی تین پتھر ایک ہو گئے۔ یہ توجہ طلب نکتہ ہے۔ تین پتھروں کی کمیت یعنی مادے
کی مقدار ایک پتھر کے سائز میں منتقل ہوگئی لیکن حجم (سائز) تین گنا نہیں بڑھا ۔
وہ کیسے__؟
اوسط سائز سے تین گنا بڑا پتھر فلاخن چلانے کے لیے بے کار
ہے۔ اس سے ہوا کی رگڑ اور مزاحمت کم از کم تین گنا بڑھ جاتی ہے اور زیادہ توانائی
ضائع ہوتی ہے۔ فلاخن کے لیے بہترین پتھر وہ ہے کو کم سائز میں زیادہ وزن یا کثافت
رکھتا ہو۔۔ ایسے پتھر میں تین گنا زیادہ کثافت کارکردگی کو تین گنا بڑھا دیتی ہے۔
حضرت داؤد ؑ کے ہاتھ میں فلاخن اس وقت میدانِ جنگ میں سب سے
خطرناک ہتھیار تھا۔ دو بے مثال جسمانی قوت کے مالک تھے لہذا اس واقعے کو مادی لحاظ
سے بھی دیکھا جائے تو ان کے ہاتھ سے چلائے گئے فلاخن سے نکلنے والے پتھر کی رفتا
اور ایک پتھر کے سائز میں تین پتھروں کی قوت جمع ہونے سے معیار ِ اثر کی قوت بڑھنے
کا امکان کم از کم تین گنا زیادہ ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ایسے تاریخی معرکے میں فلاخن
کی رفتار عام حالات سے زیادہ اور نتائج اسی مناسبت سے غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔
|
محققین کے مطابق ماہرِ فلاخن انداز کے چلائے گئے سو سے تین
سو گرام پتھر کی رفتار سو میل فی گھنٹہ (160 کلو میٹر فی گھنٹہ) ہے۔ اگر اوسط وزن
دو سو گرام لیں تو معیارِ اثر کی مساوات یہ ہے،
P = m x v
معیار ِ اثر = کمیت x رفتار
(160km/h = 44.4m/s)
(200g = 0.2kg)
8.89kg m/ s = 44.4m/ s x 0.2kg
سائز وہی رہے لیکن مادے کی مقدار (کمیت) تین گنا بڑھا دی
جائے یعنی چھ سو گرام تو معیار ِ اثر کی مقدار 26.7 kg m/ s ہو
جاتی ہے۔ کمیت بڑھنے سے رفتار بڑھنا یقینی ہے کیوں کہ حجم (سائز) وہی ہے۔ رفتار کو
160 کلو میٹر فی گھنٹہ سے بڑھا کر 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کیا جائے تو معیار ِ اثر
کی مقدار33.33 kg m/ s یونٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ امر
یقینی ہے کہ حضرت داؤد کے فلاخن سے نکلے ہوئے پتھر کا معیار ِ اثر اس سے کہیں
زیادہ ہوگا۔ مضمون میں سمجھانے کے لئے احتیاطاً مقداریں کم رکھی گئی ہیں۔ اس کے
باوجود ہم دیکھ سکتے ہیں کہ معیار ِ اثر کی یہ مقدار انتہائی غیر معمولی ہے۔آج
رائفل سے داغی گئی گولی کا اوسط معیار ِ اثر 4.5 kg m/ s ہے۔ اس طرح
33.3kg m/ s اس کا تقریباً سات گنا بنتا ہے۔ لہذا یہ
سمجھنا آسان ہے کہ اتنا زیادہ معیار ِاثر رکھنے والا پتھر جالوت کی پیتل سے بنی
زرہ بکتر یا سر پر پہنے خَود کو پھاڑ کر کھوپڑی میں کیسے گھس گیا۔
فلاخن چلاتے ہوئے رفتار تیز ہو تو دھماکے کی آواز کیوں پیدا
ہوتی ہے__؟ کئی بار قوت سے گھمانے سے دائروی حرکت تیز ہوتی جاتی ہے۔ اچانک رسّی کے
ایک سرے کی رفتار آواز کی رفتار کی حد سے تجاوز کر جاتی ہے۔ ایسے میں ہوا کا تھپیڑ
ا دھماکے کی آواز پیدا کرتا ہے جسے محققین Sonic Boom کہتے ہیں۔
سادہ رسّی میں اس طرح کے عجائبات مخفی ہونا دلچسپ اور تفکر
طلب ہے۔
بین الاقوامی اکائیوں کے نظام (SI ۔ سسٹم انٹر
نیشنل ) کے مطابق کلو میٹر فی گھنٹہ(km/h) کو میٹر فی
سیکنڈ (m/s) اور گرام (g) کو کلو گرام (kg) میں تبدیل کیا
گیا۔