Topics

جھاگ

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

”اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق حرکت میں آگیا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے ۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن بنانے کے لئے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملہ کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لئے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔“  (الرعد  : ۱۷)

وادی ، دو بلند سطحوں جیسے پہاڑوں یا ٹیلو کے درمیان نشیبی علاقہ کو کہتے ہیں۔ پانی کی ایک صفت نشیب میں بہنا ہے۔ بارش کا پانی وادیوں میں ڈھلان زیادہ ہونے کی وجہ سے تیزی سے نشیب کی طرف بہتا ہے اور زمین کی سطح پر موجود گرد و غبار ، تنکوں اور گلے سڑے مادوں سے ، قوت اور رفتار کے ساتھ ٹکرا کر جھاگ پیدا کرتا ہے۔ جھاگ اس لئے بنتا ہے کہ پانی گردو غبار وغیرہ کے درمیان اتصال کا وقفہ کم اور رفتار زیادہ ہوتی ہے۔ نتیجتاً اس عمل میں بلبلوں کی صورت میں قید ہو جاتی ہے۔ بلبلے کی بیرونی سطح مائع اور اندرونی حصہ ہوا پر مشتمل ہے۔ چناچہ زیادہ بلبلے اکٹھے ہو کر بیرونی سطحوں میں اشتراک کرتے ہیں اس طرح بلبلوں کا ایک نیٹ ورک یعنی جھاگ پیدا ہو جاتا ہے۔

جھاگ کی دوسری مثال مذکورہ آیت میں دھات کاری (metallurgy) کے عمل سے بیان کی گئی ہے۔ قیمتی یا عام دھات جس بنیادی مادی سے کشید کی جاتی ہے اسے کچ دھات (ore) کہتے ہیں۔کشید کا عمل مائعات کے لئے استعمال ہوتا ہے ، دھاتیں بھی مائع یعنی پگھلی ہوئی صورت میں کشید کی جاتی ہیں۔ کچدھات عموماً مٹی، پتھر ، چونا اور کسی دھات پر مشتمل پیچیدہ آمیزہ ہے جسے طویل مخصوص عمل سے گزار کر دھات کو باقی اجزا سے الگ کیا جاتا ہے۔ چناچہ کچ دھات (ore) کو باریک پیس کر اسے براہ راست پگھلا لیا جاتا ہے۔ مختلف مادے کثافت میں فرق کی بنا پر الگ ہوجاتے ہیں اور پگھلے ہوئے آمیزہ کی سطح پر جھاگ پیدا ہوتا ہے۔ جھاگ صرف ہوا کی وجہ سے نہیں بلکہ خلا(vacuum) کے بلبلوں کی وجہ سے بھی بنتا ہے۔ بلند درجہ حرارت کی بنا پر پگھلے ہوئے مادے پھیلتے ہیں ، پھیلاؤ کی وجہ سے درمیان میں خلا کے بلبلے ، ہوا کے بلبلوں کی طرح پیدا ہوجاتے ہیں۔

جن کچ دھاتوں کو براہ راست پگھلانے سے اجزا علیحدہ نہیں ہوتے انہیں سفوف کی صورت میں مخصوص مائع کے اندر ملا کر بلند درجہ حرارت پر ابالا جاتا ہے۔ ہلکے اجزا مائع اور ہوا کے ساتھ مل کر جھاگ کی شکل میں اوپر اٹھتے ہیں۔ یہ جھاگ مسلسل الگ کی جاتی  ہے یہاں تک کہ جھاگ بننے کا عمل رک جائے۔

اس عمل کی افادیت یہ کہ زیادہ تر غیر ضروری مادے (gangue) جھاگ کی صورت میں خارج ہو جاتے ہیں اور باقی مادہ کسی مخصوص دھات کی مقدار میں مرتکز (concentrated) یا پہلے کی نسبت کم ملاوٹوں کے ساتھ حاصل ہوتا ہے۔

دھات کاری(metallurgy)  کی سائنس میں جھاگ کے ذریعے تخلیص کے اس عمل کو Froth Flotation Process کہا جاتا ہے یعنی جھاگ بنانے کا عمل۔ یہ عمل زمانہ قدیم سے دھات کاری کے لئے استعمال ہو رہا ہے اور آج بھی یہ ٹیکنالوجی افادیت کے سبب قائم ہے۔ دھات کاری کے علاوہ آج اس عمل کو کاغذ کی ری سائیکلنگ اور آلودہ پانی کی صفائی کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

Froth Flotation Process کے عمل سے گزرنے کے بعد جو کچ دھات مرتکز حالت میں حاصل ہوتی ہے اسے دوبارہ پگھلایا جاتا ہے اور ایک دو مزید مدارج سے گزار کر خالص دھات ( سونا ، چاندی ، لوہا ، تانبا وغیرہ ) حاصل کی جاتی ہے۔

زمانہ قدیم میں سونے اور چاندی سے زیورات بنانے کے لئے  ان دھاتوں پر مشتمل ores کو بلند درجہ حرارت پر پگھلایا جاتا تھا اور جھاگ علیحدہ کر کے مطلوبہ دھات نیچے پگھلے ہوئے مائع کی شکل میں حاصل ہوتی تھی۔ مضمون میں اس عمل کو اجمالاً بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیوں کہ تفصیل کی گنجائش نہیں۔

محترم قارئین ! غور کریں کہ قرآن کریم میں کس قدر جامع اور واضح انداز میں دھات کاری کے اصولوں اور عمل (process) کا بیان ہے۔ دھات کاری کا عمل ، سائنس اورٹیکنالوجی کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ جتنی ایجادات ہیں ان میں کسی نہ کسی دھات کا عمل دخل لازم ہے۔ جنگی ساز و سامان ، گاڑیاں ، مشینیں ، کل پرزے ، ہوائی جہاز ، بحری جہاز ، صنعتی ساز و سامان الغرض کسی بھی شعبہ کا وجود اور ترقی ، دھات کی پیدا وار پر قائم ہے۔

مسلمان قوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے انعام قرآن کریم میں موجود تخلیقی فارمولوں میں تفکر اور عمل کے ذریعے آج دنیا کی امامت کے منصب پر فائز ہو سکتی تھی مگر یہ اعزاز اقوام کو حاصل ہے جنہوں نے تخلیقی فارمولوں میں تفکر کو شعار بنایا۔ مسلمان قرآنی علوم میں تفکر کو اپنا کر اپنا گم گشتہ مقام حاصل کر سکتا ہے۔

آیت میں الفاظ ” زَبَدًا رَّابِیًا “ کا مفہوم ابھرا ہوا جھاگ ہے۔ زید کا مطلب جھاگ اور رابیاً یعنی ابھرا ہوا۔ ابھرنا ، جھاگ کی بنیادی صفت ہے۔ اس طرح ابھرنا کہ اصل شے چھپ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو اس مثال سے حق اور باطل کی وضاحت فرمائی ہے کہ باطل اپنی اصل میں جھاگ کی طرح ہے جو حق کو وقتی طور پر چھپا دیتا ہے لیکن بالآخر ختم ہو جاتا ہے اور حق اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے۔

دوسری طرف ان قوتوں اور عوامل کا بیان ہے جو مائعات کی بنیادی صفات ہیں۔ یہ صفات ہیں  جو مائعات کی مقداروں اور خواص کے اظہار کی بساط ہیں۔  زبدًا کے لغوی معنی جھاگ یا جھاگ جیسے مادہ کے ہیں۔ سائنس کے مطابق جھاگ ایسا مادہ ہے جو گیس کے مائع یا ٹھوس میں چھوٹے چھوٹے حصوں (pockets) کی شکل میں قید ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جھاگ میں گیس کی مقدار مائع کی نسبت زیادہ  ہوتی ہے جو اسی سے ستانوے فی صد تک ہو سکتی ہے۔

مائعات کی ایک صفت مسلسل بخارات میں تبدیل ہوتے رہنا ہے۔ جب تک کوئی مائع جم کر ٹھوس شکل اختیار نہ کر لے ، بخارات بننے کا عمل جاری رہتا ہے۔جھاگ کی سطحیں   دراصل مائع پر مشتمل ہیں۔ لہذا بخارات بننے کے عمل میں مائع میں مائع کی یہ پتلی دیواریں مزید پتلی ہوتی جاتی ہیں اور اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتیں۔ نتیجتاً جھاگ ختم ہونے لگتا ہے یعنی جو ہوا مائع کی دیواروں میں قید ہے وہ آزاد ہوتی ہے اور مائع سطح پر تیرنے لگتا ہے یا نچلے حصہ میں جذب ہو جاتا ہے۔

جب تک جھاگ قائم ہے اس کے قیام میں مختلف قوتیں بر سر عمل ہیں۔ اگرچہ ان قوتوں کی بنیادی نوعیت برقی ہے لیکن اپنے مختلف کام کے اعتبار سے یہ سطحی تناؤ (surface tension) اور  Van der Waals forces کہلاتی ہیں۔ جھاگ میں بلبلوں کی دیواریں ، سطحی تناؤ اور اس میں کمی بیشی کے تناسب پر قائم ہوتی ہیں۔

جھاگ کے ابھرنے سے مراد ان قوتوں کا ذکر ہے جو جھاگ ابھرنے کا سبب ہیں۔ مائع میں اگر سطحی تناؤ کی قوت زیادہ ہو تو جھاگ کم پیدا ہوتا ہے اور فوراً ختم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آبشار کا پانی جب بلندی سے نیچے گرتا ہے تو جھاگ پیدا کرتا ہے جو فوراً ختم ہو جاتے ہیں۔ چناچہ جو مادے پانی یا کسی دوسرے مائع کا سطحی تناؤ کم کرتے ہیں ، جھاگ بننے کے عمل کو تقویت دیتے ہیں ۔صابن یا ڈیٹر جنٹ پانی کی سطحی تناؤ کی قوت میں کمی لاتے ہیں اور جھاگ بننے کے عمل کو تیز اور دیرپا بناتے ہیں۔ بارش کا پانی جب وادیوں میں بلندی سے پستی کی جانب تیزی سے بہتا ہے تو اپنے اندر ایسے مادے حل کر لیتا ہے جو پانی کی سطحی تناؤ کی قوت کو کم کر کے جھاگ پیدا کرنے کے عمل کو تیز کرتے ہیں۔ جھاگ چونکہ زیادہ تر ہوا پر مشتمل ہے لہذا پانی کی سطح سے اوپر ابھر آتا ہے۔

غور طلب بات اس آیت میں یہ بھی ہے کہ جھاگ کے پیدا ہونے میں وادی یعنی نشیب و فراز کا ذکر ہے۔ نشیب میں بہنے کا مطلب کششِ ثقل کے زیر ِ اثر بہنا ہے یعنی نشیب زیادہ ہونے کی صورت میں بہاؤ میں تیزی آتی ہے اور پانی کی حل پذیری کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ وادیوں کی زمین کے اندر موجود معدنی اور نامیاتی مواد میں حل ہوتا ہے اور زمین کی زر خیزی کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دریاؤں سے سیراب شدہ علاقہ زرخیز ہوتا ہے۔

قارئین کرام ! قرآن کریم کی ہر آیت اپنے اندر علم کا سمندر ہے۔ شعور شے کو جزئیات میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ چناچہ کسی ایک جزو کے مفہوم کو اس شے کے کل کو سمجھنے کے لیے کافی قرار نہیں  دیا جا سکتا ۔

آیت کے پہلے حصہ میں پانی کی حل پذیری (Solubility) ، حل پذیری میں کام کرنے والی قوتیں جیسے سطحی تناؤ ، گاڑھا پن ، قطبین کی کشش کی قوت(Dipole Dipole forces)اور Van der Waals Forces وغیرہ شامل ہیں کا ذکر ہے۔ پھر ان مادوں کا ذکر ہے جو پانی کی حل پذیری کی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں اور جھاگ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پھر جھاگ کی سائنس کا ذکر ہے کہ وہ اپنی کم کثافت اور پھیلاؤ کی بنا پر ابھر آتا ہے۔

جھاگ میں مائع کی دیواریں بہت باریک پردے ہیں جو ہوا کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں۔ مائع میں ہوا بھر کر اسے پھیلا دینا ایسا عمل ہے جو آج کے جدید دور میں بے شمار مفید چیزوں کی ایجاد کا سبب ہے۔ عام آدمی سائنسی دل چسپی کم یا نہ ہونے کے برابر رکھتا ہے ، وہ فوم کے تکیے ، پیکنگ میں جھاگ یا اسفنجی مادوں کے استعمال سے ضرور واقف ہے۔ فطرت کا کسی حد تک مطالعہ کرنے والوں کے سامنے سمندری کورل اور لکڑی ایسی  مثالیں ہیں جو جھاگ سے مماثل ہیں۔ ان مادوں میں ہوا نیٹ ورک کی صورت میں ٹھوس حصہ میں قید ہوتی ہے۔

ایک ماہر خوراک کے سامنے بریڈ ، کیک اور آئس کریم کی مثالیں موجود ہیں جو جھاگ جیسے مادہ سے بنی ہیں۔ اسی طرح انجینیئر کے سامنے جھاگ کے استعمال کے وسیع امکانات موجود ہیں جیسے عمارت میں مضبوط اور  ہلکے اسفنجی ساخت کے مادوں کا استعمال ، انرجی ضائع ہونے سے بچانے کے لئے thermal insulaton ، فلٹریشن اور انرجی کو محفوظ کرنے سمیت ڈھیر سارے مفید کام لینے کے لئے ہوتا ہے۔

آیت کے دوسرے حصہ میں دھات کاری اور اس میں جھاگ پیدا کرنے کے عمل کا بیان ہے۔ قدیم یونانی اور ایرانی دستاویزات میں Froth Flotation Process کا تذکرہ ہے۔ جدید دور میں دھات کاری کے اس عمل میں جدت اور تیزی آئی ہے۔ کچ دھاتوں کو پیس کر ابلتے مائع میں حل کیا جاتا ہے۔ یہ عمل بہت بڑے لوہے کے سیل جسے Froth Floatation Cell کہتے ہیں ، میں انجام دیا جاتا ہے۔ جھاگ کی سطح کو کیمروں ، روشنی ، کمپیوٹر اور سیل میں لگے مختلف سینسرز کی مدد سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ پگھلی ہوئی مائع دھات جو ابھی نا خالص ہے ، سیل کے پیندے سے پائپوں کے ذریعے نکال لی جاتی ہے۔ اسے تخلص کے مزید مراحل سے گزارا جاتا ہے لیکن جھاگ نتھارنے کا عمل اکثر دھاتوں کی پیدا وار میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ کچ دھات سے اصل دھات الگ کرنے کا پہلا اور بنیادی مرحلہ یہی ہے۔

اس عمل کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ کم وقت میں بآسانی بڑی مقدار میں کچ دھاتوں کی تخلص کی جا سکتی ہے۔ دھات کاری کے علاوہ معدنیات پر مشتمل مواد کو مرتکز کرنے کے لیے جھاگ پیدا کرکے نتھارنے کا عمل صنعتی پیمانہ پر کیا جاتا ہے۔ چناچہ یہ عمل کان کنی کے شعبہ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

اس آیت میں ایجادات ، صنعت ، معدنیات ، کان کنی اور دھات کاری کے اصولوں پہ مشتمل فارمولے ہیں۔ اس مختصر تحریر کا مقصد اولی الالباب خواتین و حضرات کی تعلیمات کے مطابق قرآن کریم میں تفکر ہے۔

اللہ کے دوست __ عظیمی صاحب فرماتے ہیں :

” جب ہم آسمانی صحائف اور آخری کتاب قرآن کریم کی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو اللہ کی کتاب تفکر کا حکم دیتی ہے ۔ تفکر سے مراد یہ ہے کہ تمام تر ذہنی قوت کے ساتھ کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر غور کیا جائے۔“

 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم