Topics
نمک کا نام سنتے ہی دماغ میں نمک
کی کان یا سفوف (مادی وجود) کی تصویر بننے سے پہلے ، نمکین ذائقے کا احساس ہوتا ہے
کیونکہ کم و بیش ہر فرد کے ذہن میں نمک کا تصور ذائقے سے منسوب ہے۔ نمک کے بغیر
کھانے کا مزا ادھورا ہے۔ دیگر ذائقوں کی اپنی اہمیت ہے لیکن نمکین کی حیثیت مستقل
اور بنیادی ذائقے کی ہے۔
ہمیں
نمکین ذائقہ کیوں پسندہے__؟
سائنس اور علمِ نفسیات میں کئی
توجیہات پیش کی گئی ہیں۔ سادہ جواب یہ ہے کہ سوڈیم (نمک) انسانی جسم کی بنیادی ضروریات
میں سے ہے لہذا قدرت نے نوع ِ آدم کی طبع میں نمکین ذائقے کی طلب رکھی ہے تاکہ جسم
کی ضرورت پوری ہو۔
کھانے پینے کی ہر شے میں نمک قدرتی
طور پر مخصوص مقدار کے ساتھ موجود ہےاور نمک کے ذائقے کے لیے حسیات (receptors) مختص ہیں جو زبان کے اگلے حصے کے دونوں اطراف،
کناروں پر موجود ہیں۔ معروف مسلمان محقق اور طبیب ابن سینا کے بارے میں مشہور ہے
کہ وہ غذا چکھ کر اس میں اجزا کی درست نشاندہی کرتا ہے ۔
کھانے کا نمک ” سوڈیم کلورائیڈ“
ہے۔ یہ سوڈیم اور کلورین کا آئنی (ionic)
مرکب ہے جس میں سوڈیم کا ایک مثبت آئن ، کلورین کے ایک منفی آئن سے جڑا ہوا ہے۔ اس
طرح لاتعداد آئن مکعب (cube)
شکل کی ٹھوس قلمیں بناتے ہیں جو سائز (حجم) میں کئی مربع میٹر ہو سکتی ہیں۔ بڑے
سائز کی قلمیں دوسرے عناصر کی ملاوٹ سے پاک ہوں تو پیسنے سے سفید رنگ کا سفوف بن
جاتی ہیں۔
قدرتی طور پر نمک (سوڈیم کلو رائیڈ)
حاصل کرنے کے دو بڑے ذرائع ہیں۔
۱۔ سمندر کا پانی : محققین
کا کہنا ہے کہ تقریباً ہر ایک لیٹر سمندری پانی میں 35 گرام کی شرح سے حل شدہ حالت
میں نمک موجود ہے۔ سمندر کے کنارے بڑے بڑے تالابوں میں پانی جمع کیا جاتا ہے۔ دھوپ
میں پانی بخارات بن کر اڑتا ہے اور نمک باقی رہ جاتا ہے۔ دیگر اجزا علیحدہ کر کے
اس کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
۲۔ چٹانی کانیں : دنیا میں
نمک کی کانوں کا سب سے بڑا ذخیرہ پاکستان میں ” کوہستان ِ نمک“ ہے۔ کوہستان نمک
تقریباً چار سو کلو میٹر طویل اور 30 سے 40 کلو میٹر چوڑا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں
معدنی نمک کے ذخائر ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کان ”کھیوڑہ“ سمیت یہاں کئی کانیں ہیں۔
کھیوڑہ کی کانوں سے 1872 سے نمک نکالا جا رہا ہے اور اس کان کی پیداوار میں مسلسل
اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ سالوں میں اس کی سالانہ پیدا وار تین لاکھ پچاس ہزار میٹرک
ٹن ریکارڈ کی گئی ہے جو دنیا میں نمک کی طلب کے بڑے حصے کو پورا کرتی ہے۔
کھانے میں معدنی نمک ، سمندر سے
حاصل کئے گئے نمک کی نسبت اعلیٰ معیار کا قرار دیا جاتا ہے۔
ہمالیہ کا گلابی نمک؟ خوب
صورت ہلکے گلابی رنگ کے دانوں یا قلموں(crystals)
پر مشتمل نمک کی یہ خاص قسم دنیا بھر میں مشہور ہے مگر ہمالیائی گلابی نمک کے نام
سے فروخت ہوتی ہے۔
ارضیاتی ماہرین یہ ثابت کر چکے ہیں
کہ مخصوص گلابی رنگ کا معدنی نمک صرف پاکستان میں کھیوڑہ کی کان سے حاصل ہوتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو پاکستانی نمک کے طور پر دنیا میں متعارف کروایا جائے
تاکہ وطن عزیز کا نام روشن ہو۔ یہ نمک قدرت کا پاکستان پر خصوصی انعام ہے۔ اس میں
صحت کے لیے مفید معدنیات ہیں بشرطیکہ معتدل مقدار میں استعمال کیا جائے۔ اس کا رنگ
صحت بخش قدرتی اجزا کی وجہ سے گلابی ہے اور دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والے نمک کے
مقابلے میں فائدہ مند ہے۔
غذا میں نمک کی ضرورت کیوں ہے اور
یہ جسم میں کیا کام کرتا ہے __؟
نمک کے اجزا (سوڈیم اور کلورین ) اچھی صحت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ معدے میں ایک
اہم رطوبت نمک کا تیزاب ہے جس کے لیے کلورین نمک سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بغیر غذا
ہضم نہیں ہوتی اور غذا کے اجزا علیحدہ ہو کر جزوِ بدن نہیں بن سکتے۔ جگر ، لبلبہ ،
پتّا اور غدود میں بننے والے مرکبات میں کلورین اہم جزو کے طور پر شامل ہے۔
نمک کا ایک جزو سوڈیم__خون ، پلازما اور خلوی مائع میں
الیکٹرولائٹ کے طور پر کام کرتا ہے ، اعصاب اور عضلات کو صحیح کام کرنے میں مدد
دیتا ہے اور جسم میں پانی کی مقدار کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پیاس لگنا ، سیرابی اور جسم سے پانی کا اخراج ، یہ نظام براہِ راست سوڈیم سے منسلک
ہے۔ جسم میں دوڑنے والی برقی رَو جس واسطے (medium) سے اعصابی نظام اور دماغ میں برقی اطلاعات کا نظام قائم رکھتی ہے
، وہ میڈیم سوڈیم کے آئن ہیں جو خون ، خلیات اور خلیات کے درمیان مائع میں متحرک
ہیں۔ جسم میں سوڈیم کی مقدار معین حد سے کم ہو جائے تو اعصابی نظام سست روی کا
شکار ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں زیادہ دیر رہنے سے بلڈ پریشر کا کم ہونا ، عضلات میں
تناؤ اور درد ، دھڑکن متاثر ہونا اور انتہائی صورتوں میں کوما اور موت واقع ہو
سکتی ہے۔
نمک کی زیاتی اور بیماریاں : آج کل
99 فیصد عوارض کا سبب خون میں سوڈیم کی زیادتی ہے۔ اس سے جسم میں دور کرنے والی
برقی رو میں ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ نتیجے میں دماغ کے خلیات سکڑنے لگتے ہیں، سوچ میں
انتشار ، عضلات میں کھنچاؤ اور درد، غصے کی زیادتی ، سر درد اور شدید صورتحال میں
اسٹروک ، کوما ، حرکتِ قلب بند ہونا ، نیند میں شدید کمی، فالج اور لقوہ جیسے
اعصابی امراض یہاں تک کہ پاگل پن جیسے نتائج سامنے آتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج دنیا ایسے امراض کی
لپیٹ میں ہے جن کی ایک خاموش وجہ(Processed Food)
ہے ۔ وہ غذائیں جن کو کیمیائی مواد کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے۔ ان میں اکثر
غذائیں بظاہر نمکین نہیں لیکن ان میں دوسرے کیمیائی عناصر کے ساتھ سوڈیم کے مرکبات
موجود ہیں اسی لئ غذا مختصر یا طویل عرصے کے لیے محفوظ ہو جاتی ہے۔ کیمیائی مادوں
میں ایسے نمکیات کی بھر مار ہے ، زبان جن کی موجودگی کو محسوس نہیں کرتی۔
محفوظ کی گئی غذاؤں میں ایسے نمک
شامل ہوتے ہیں جو عام طور پر جسم کی ضرورت نہیں لہذا ان کے مسلسل استعمال سے جسم
میں نمک کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔ زیادہ مقدار میں آئن جمع ہونے سے ذہنی و
نفسیاتی امراض کا خطرہ کئی بڑھ جاتا ہے۔واضح رہے کہ نمک کی یومیہ معتدل مقدار ایک
چائے کے چمچ کے برابر ہے۔ جن معاشروں میں processed food ، کھانے میں نمک کی زیادتی ، بازاری کھانے اور فاسٹ فوڈ کا رجحان
زیادہ ہے، ماہرین کے مطابق وہاں فرد روزانہ دو سے تین گنا اور بعض اوقات چھ گنا تک
نمک استعمال کر رہا ہے۔ بے سکونی ، نیند میں کمی ، سوچ میں انتشار حتیٰ کہ شدید
صورتوں میں تشدد ، خود کشی اور قتل و غارت گری جیسے واقعات اس کے نتائج ہیں۔ ذہنی
امراض میں دیگر محرکات اپنی جگہ ہیں تاہم نمک کا زیادہ استعمال اور غیر ضروری
نمکیات کو غذا کا حصہ بنانا ایک بڑا محرک ہے۔
تدارک : مسائل
، بیماری ، الجھن اور پریشانی کی بڑی وجہ فطرت سے دوری ہے۔ کہاوت ہے کہ ،
”آدمی وہی کچھ بنتا ہے جو وہ کھاتا
ہے۔“
کچھ عرصہ پہلے تک غذائیں سادہ تھیں
تو ذہنی و نفسیاتی امراض کی شرح بہت کم تھی۔ غذا سادہ ، صاف ستھری اور ملاوٹ سے
پاک ہو تو یہ صفات کھانے والے کو منتقل ہوتی ہیں۔ اگر ہم غذا کو سادہ اور کھانے
میں نمک کی مقدار معتدل رکھیں ، بازاری کھانوں سے پرہیز کریں اور کھانا اس حد تک
پکائیں کہ غذائیت برقرار رہے تو معاشرے سے امراض کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
محترم عظیمی صاحب کے پاس مریضہ
لائی گئی جو کسی پیچیدہ و نفسیاتی بیماری میں مبتلا تھی۔ ہر قسم کا علاج ہو چکا
تھا لیکن فائدہ نہ ہوا۔ انہوں نے فرمایا ، ”علاج بہت آسان ہے۔ ایک ماہ تک کسی بھی
چیز میں نمک نہ دیں اور روزانہ صبح شام ، چائے کا ایک چمچ شہد کھلائیں۔“
اختلاجِ قلب کا مریض حاضر ہوا۔ وہ
بھی ہر قسم کے علاج سے عاجز آ چکا تھا۔ دل کی دھڑکن بعض اوقات اتنی بے ترتیب ہو
جاتی کہ زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہوا محسوس ہوتا۔ انہوں نے فرمایا،
”چالیس دن تک نمک سے مکمل پرہیز
کریں اور روزانہ ایک چمچ شہد کھائیں۔“
مریض نے عمل کیا اور بفضلِ خدا
شفایاب ہوا۔ نمک کے استعمال میں زیادتی کے حوالے سے عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ،
دماغی ، نفسیاتی اور پاگل پن کے
مریضوں کو نمک کم سے کم استعمال کرنا چاہیے۔ اگر low بلڈ پریشر نہ ہو تو ٹینشن ، ڈپریشن ، مرگی، ہائی بلڈ پریشر ،
استقا ، جلدی امراض ، شیزو فرینیا ، کم خوابی اور برص میں نمک کا زیادہ استعمال
مضر ہے۔“
بحیرہ مردار اور سمندر میں نمک :
اردن اور فلسطین کے درمیان ایک بڑی
جھیل ہے جسے بحیرہ مردار کہا جاتا ہے۔ رقبہ کم و بیش 42 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس
کے پانی میں نمک کی غیر معمولی مقدار ہے۔ تحقیق و تلاش (سائنس) کے مطابق ایک لیٹر
عام سمندری پانی میں نمک 35 گرام کی اوسط سے حل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بحیرہ
مردار کے ایک کلو گرام پانی میں ، نمک 342 گرام کی اوسط سے حل ہے جو عام سمندری
پانی سے تقریباً دس گنا زیادہ ہے۔ اس طرح یہ جھیل زمین پر موجود کسی بھی پانی کے
ذخیرے سے زیادہ کھاری ہے۔
انتہائی کھارے پن کی وجہ سے اس میں مچھلیاں، آبی
جانور اور پودے نہیں رہتے۔ نمک کی کثیر مقدار حل ہونے سے پانی میں اچھال کی قوت
بہت زیادہ ہے اس لئے کوئی ڈوبتا نہیں ، سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ حیران کن مظہر کا
تجربہ کرنے دنیا بھر سے سیاح بحیرہ مردار جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ جس مقام پر آج بحیرہ
مردار ہے، وہاں ماضی میں قومِ لوط آباد تھی جو الہامی کتب کے مطابق شدید زلزلوں
اور آسمان سے آگ اور گندھک برسنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئی تھی۔
بحیرہ مردار جس جگہ پر ہے وہ زمین
کا سب سے پست مقام بتایا جاتا ہے کیونکہ عذاب کے وقت زلزلوں کی وجہ سے یہاں زمین
سطح سمندر سے کم و بیش چار سو کلو میٹر نیچے چلی گئی اور ڈوب گئی البتہ اس کا پانی
اب خشک ہو رہا ہے۔
سمندر میں لاتعداد آبی مخلوقات
بستی ہیں جن میں دیوہیکل جسامت کی وہیل ، شارک ، ڈولفن اور دوسری کروڑوں انواع ہیں
جو سطح سے لے کر اتھاہ گہرائیوں میں ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ موت و حیات کے عمل سے گزرتی
ہیں۔ موت کے بعد مردہ جسم میں تعفن پیدا ہوتا ہے۔ سمندر میں لاشمار جانور پیدا
ہوتے ہیں اور مرنے واے جانوروں کی تعداد کا بھی شمار نہیں۔ تاہم مردہ آبی اجسام سے
سمندر میں تعفن پیدا نہیں ہوتا، وجہ سمندر کے پانی میں نمک کی بڑی مقدار کا حل
ہونا ہے۔
دنیا تین حصے سمندر اور ایک حصہ
خشکی ہے ۔ بارش برسنے اور آب و ہوا کا نظام سمندروں کے مرہونِ منت ہے۔ اگر سمندروں
میں تعفن پیدا ہو جائے تو خسکی کی آب و ہوا تعفن سے بھر جائے گی اور نظامِ زندگی
درہم برہم ہو جائے گا۔ اس طرح سمندر کے پانی میں نمک کا حل ہونا قدرت کی بڑی
نشانیوں اور حکمتوں میں سے ہے۔
جب پیغمبر موسیٰ ؑ نے اللہ کے حکم
دے دریائے نیل میں عصا مارا تو پانی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور درمیان میں
راستہ بن گیا۔ حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کو لے کر بحفاظت دوسرے کنارے پہنچ گئے۔ جب
ظالم و جابر فرعون رعمسیس دوم ، لشکر کے ساتھ بنی اسرائیل پر پر حملہ آور ہونے کے
لیے اس راستے پر آیا اور اس کا لشکر پانی کے دونوں کناروں کے درمیان پہنچا تو اللہ
کے حکم سے پانی کے جدا حصے مل گئے۔ غرق ہوتے وقت فرعون نے ایمان لانے کا اعلان کیا
لیکن __دیر ہوگئی تھی۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے :
”کیا اس وقت ! حالاں کہ اس سے پہلے
تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ لہذا آج ہم صرف
تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے ایک نشانی بنے اور اگرچہ زیادہ
تر لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔“ (یونس : ۹۲۔۹۱)
فرعون رعمسیس دوم کی لاش آج بھی
مصر کے عجائب گھر میں محفوظ ہے اور قرآن کریم میں کئے گئے وعدے کے مطابق لوگ عبرت
کی نشانی کو دیکھنے آتے ہیں۔
سائنسی تجزیے سے بارہا تصدیق ہو
چکی ہے کہ فرعون رعمسیس دوم کی لاش سمندر میں قدرت نے نمک کی تہوں میں محفوظ کر دی
حتی کہ کھال اور بال سلامت رہے۔ کچھ لوگوں نے توجیہ پیش کی کہ لاش اس زمانے میں
حنوط کی گئی تھی اس لئے محفوظ رہی۔ یہ توجیہ غلط ثابت ہوئی کیونکہ رعمسیس دوم کے
علاوہ کوئی ممی اس طرح ثابت اور سلامت نہیں کہ چہرے کے خدوخال ، جلد کا رنگ اور
بالوں پر خضاب موجود ہو۔
قارئین کرام ! ہر تخلیق کے دو رخ
ہیں۔ نمک کا ظاہری رخ ہمارے سامنے ہے جس کے ذریعے ہم خوراک ، چمڑے اور دیگر اشیا
کو طویل عرصے تک محفوظ رکھتے ہیں اور اس سے بے شمار کیمیائی مرکبات اور ادویات
حاصل کرتے ہیں۔
۱۔ نمک کا باطنی رخ کیا ہے؟
۲۔ باطنی علوم کے ماہرین نے اس حوالے سے کن
رازوں سے پردہ اٹھایا ہے؟
۳۔ کششِ ثقل پر قبو پانے کی سر توڑ
کوشش کی جارہی ہے۔ کیا نمک میں کششِ ثقل کم کرنے یا ختم کرنے کی صفات ہیں؟۔
توجہ
فرمایئے __
اللہ کے دوست فرماتے ہیں،
” مٹھاس شعور کی base (بیس ، بنیاد) ہے اور نمک لاشعور کی بیس ہے۔“
مختصر الفاظ میں شعور و لاشعور کی
باطنی سائنس بیان کر دی گئی ہے۔ جیسے جیسے قاری ان الفاظ پر غورو فکر کرتا ہے،
رموز کی دنیا روشن ہوتی ہے۔
تحقیق و تلاش (سائنس) نے اپنی بساط
کے مطابق مٹھاس (شعور) کو بیان کیا ہے۔
” مٹھاس کی ایک قسم گلوکوز ہے جو
جسم کے لیے توانائی کا بنیادی ذریعہ یعنی جسم کی مشین چلانے کے لیے جس ایندھن کی
ضرورت ہے وہ ایندھن مٹھاس یا گلوکوز ہے۔ عالمِ ناسوت میں آباد ہر نوع کی جسمانی
حرکت اسی ایندھن پر قائم ہے۔ سب سے زیادہ خلیات پر مشتمل عضو دماغ ہے۔ اس میں
نیوران یا عصبی خلیات کی تعداد تقریباً دو سو ارب یا دو کھرب ہے۔ لہذا دماغ کو
تمام اعضا کی نسبت زیادہ توانائی درکار ہے تاکہ اس کی فعالیت برقرار رہ سکے۔“
تحقیقات سے ظاہر ہے کہ جسم کو
درکار مٹھاس کی کل مقدار کا تقریباً نصف دماغ خرچ کرتا ہے۔ دماغ کے بنیادی افعال
جن میں سوچنا ، یا دداشت اور سیکھنا شامل ہیں، خون میں مٹھاس کی مقدار اوراسے خرچ
کرنے کی شرح سے منسلک ہے۔اگر خون میں مٹھاس کی مقدار ناکافی ہو تو دماغ میں
کیمیائی اشاروں(pulses) کی پیدائش اور ترسیل کا نظام
درست کام نہیں کرتا جس سے عصبی خلیات کا آپس میں ربط ٹوٹنے لگتا ہے اور سوچنے
سمجھنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔
دماغ مٹھاس کو بطور ایندھن استعمال
کرتا ہے تاہم اعتدال سے زیادہ مٹھاس نقصان دہ ہے۔
۱۔ مٹھاس کی زیادتی سے جسم اور
خصوصاً دماغ کے خلیات کی اوسط عمر میں کمی ہوتی ہے۔
۲۔ جسم میں مٹھاس کی مقدار کو
متوازن رکھنے کا نظام ناکارہ ہو سکتا ہے جسے ذیابیطس کہا جاتا ہے۔
نمک دماغ کی کارکردگی اور فعالیت
میں کیا کردار ادا کرتا ہے__؟
برطانوی تحقیقی ادارے ، سوسائٹی آف
اینڈو کرائنو لوجی نے جسم میں نمک کی مقدار کی کمی بیشی کے دماغ پر اثرات اور نمک
کے نیند اور بیداری سے تعلق کو جاننے کے لیے تجربہ کیا۔
تجربہ ۱ : 20
صحت مند نوجوان رضا کاروں کو منتخب کیا گیا۔ پانچ شب ان کی نیند کے دورانیے کو
ریکارڈ کیا گیا۔ چھٹے دن سے آٹھ بجے کھانے میں ہر دس کلو جسمانی وزن کے مساوی نصف
گرام نمک کی اضافی مقدار دی گئی۔ مثلاً کسی رضا کار کا وزن 70 کلو گرام ہے تو اسے
روزانہ کھانے میں ساڑھے تین گرام اضافی نمک کھلایا گیا۔ رضا کاروں کی نیند کا
دورانیہ ، رات کو بیدار ہونے کے اوقات ، نیند میں بے چینی کا اظہار ، گہری نیند ،
پرسکون نیند کا وقفہ ، رات کو پانی پینے کی طلب اور اوقات ، ابتدائی نیند اور گہری
نیند ، آخری حصے اور بیداری سے قبل کی نیند ، خواب دیکھنے کی شرح اور نوعیت ، تمام
چیزیں نوٹ کی گئیں۔
نتائج : نمک کی
زیادتی سے رضا کاروں کو نیند دیر سے آنے لگی اور جب سوتے تو بار بار بیدار ہو
جاتے۔ یہ حالت دو تین گھنٹے تک رہتی۔ گہری نیند میں درجہ بدرجہ کمی واقع ہوئی۔ رضا
کاروں کو معمول سے ہٹ کر زیادہ خواب یاد رہنے لگے۔ ان میں خوشگوار ، عجیب اور
ڈراؤنے خواب شامل تھے۔ بیداری کے بعد رضا کار نیند پوری نہ ہونے کی شکایت کرتے۔
بار بار بیدار ہو کر پانی پینے کی طلب ہوتی اور دن میں تھکن اور اضمحلال کا احساس
غالب رہتا۔ ایسے خواب دیکھنے کی شرح درجہ بدرجہ بڑھتی گئی جن میں وہ خود کو ہوا
میں اڑتا ہوا دیکھتے یعنی بے وزنی کی حالت ہوتی۔
یہ ایک تحقیقی ادارے کا تجربہ ہے۔
نیند اور خواب پر تحقیق کرنے والوں نے اس تجربے کو بارہا دہرایا ہے اور نتائج کی
تصدیق کی ہے۔
قابلِ غور نکات یہ ہیں۔
۱۔ بیداری میں ہر قسم کے افعال
انجام دینے کے لیے دماغ کو جو حصہ استعمال ہوتا ہے ، اسے ہم بیداری کا دماغ کہہ
سکتے ہیں۔ مٹھاس اس حصے کے لئے توانائی اور ایندھن کا بنیادی مسالا ہے۔ خون میں
مٹھاس کی مقدار مطلوبہ سطح سے کم ہو تو دماغ کی کار کردگی متاثر ہوتی ہے۔ نتیجے
میں دماغ کے احکامات پر چلنے والی مشین (جسم) درست کام نہیں کرتی۔
۲۔ نیند میں بیداری کا دماغ اور
جسم عارضی طور پر معطل ہوتا ہے ، اس کے باوجود ہم خود کو تمام تقاضے پورے کرتا
دیکھتے۔ نیند میں حرکت کرنے والا جسم اور دماغ کون سا ہے؟
۳۔ نمک کی زیادتی سے خواب دیکھنے
اور خواب یاد رکھنے کی صلاحیت بڑھی۔ نیند کے دماغ اور اس کے ماتحت جسم میں ایک نئی
تحریک پیدا ہوئی جس کو بیداری کے دماغ نے حافظے میں محفوظ کر لیا اور اثرات جسم پر
مرتب ہوئے۔
۴۔ نمک کی زیادتی سے بیداری کے
دماغ اور جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن نیند کے دماغ اور جسم کی تحریکات
بڑھ جاتی ہیں۔
۵۔ مٹھاس کی زیادتی سے نیند کے
دماغ اور جسم کی تحریکات کم ہوتی ہیں اور دماغ ان کے نقوش کو یاد رکھنے سے قاصر
رہتا ہے۔
قارئین کرام! تجربات سے واضح ہوتا
ہے کہ مٹھاس مادی شعور کی بنیادی غذا ہے۔ اس کے بغیر جسم کا قیام ممکن نہیں جبکہ
نیند کے شعور اور غیر مادی جسم کے لیے نمک کی اہمیت۔
۱۔ کیا نمک کی ان مقداروں سے واقف
ہو سکتے ہیں جو خواب کے شعور میں کام کرتی ہیں؟
۲۔ اگر خواب کی دنیا میں شعوری طور
پر داخل ہونا چاہیں اور دونوں دنیاؤں میں تعلق کو سمجھنے کی کوشش کریں تو کیا اس
کے لیے نمک کی مقداروں سے مدد مل سکتی ہے؟
غیر جانبدار ذہن راہ نمائی کرتا ہے
کہ نمک کو محض مادی وجود سمجھنے کے بجائے اُس اثر کو جاننا ضروری ہے جس پر نمک کا
مادی وجود قائم ہے۔ نمک ، مٹھاس ، مادی جسم اور کھوپڑی میں دماغ سب خول یا لباس
ہیں۔ ان کی اصل کیا ہے؟
ہم خود کو خواب میں زندگی کے تمام
تقاضوں کے ساتھ متحرک دیکھتے ہیں اوراقرار کرتے ہیں کہ سونے والا اور خواب میں
حرکت کرنے والا فرد میں ہوں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ خواب والا رخ مادی وجود ہرگز نہیں
۔ سوال یہ ہے کہ ،
۱۔ کیا ایسے مزید رخ یا پرت موجود
ہیں؟
۲۔ ان رخوں یا پرتوں کو متحرک
رکھنے والی اور انہیں حواس عطا کرنے والی ایجنسی کون ہے__؟
۳۔ نمک ، مٹھاس ، پانی ، مٹی ،
پتھر ، حیوانات اور نباتات کو جس طرح ہم دیکھتے ہیں، کیا یہ محض پہناوا ہیں؟ ان کی
بساط؟
تجربہ ۲ : کر لین
فوٹو گرافی کی تکنیک سے یہ دریافت ہو چکا ہے کہ ہر شے کے گرد توانائی کا ہالہ ہے۔
دوست مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے ہالے بھی مصافحہ کرتے ہیں اورروشنی کے تبادلے کے
ذریعے ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔
کوئی شخص پتھر اٹھاتا ہے تو پتھر
کا ہالہ آدمی کے ہالے سے ملتا ہے۔ ہر نوع اپنے شعور کے مطابق دوسری نوع سے متعارف
ہوتی ہے۔ اگر آدمی اپنے اور پتھر کے گرد روشنی کے جسم سے واقف نہیں ، اس کا علم
نہیں رکھتا تو ایسے میں وہ پتھر کا لمس ، سختی اور رنگ وغیرہ دیکھتا اور محسوس
کرتا ہے لیکن جس روشنی پر وہ پتھر قائم ، اس کو دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر رہتا
ہے۔
طالب علم کے ہاتھ میں چٹانی نمک کا
ٹکڑا ہے جس کا وہ بغور جائزہ لے رہا ہے۔ اس کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ نمک میں
ایسی کیا مقداریں یا روشنیاں ہیں جن سے خواب کی دنیا کے مشاہدات میں اضافہ ہوتا
ہے؟ علاوہ ازیں کششِ ثقل سے آزادی اور فضا میں اڑنے کا احساس کیوں ہوتا ہے؟ یہ
خیال بھی اتا ہے کہ نمک کے ٹکڑے کی روشنی میرے جسم کی روشنی سے مل رہی ہے لیکن
ٹکڑا جسامت میں چھوٹا اور میرے ایک ہاتھ تک محدود ہے۔ ایسی جگہ جانا چاہیے جہاں ہر
طرف نمک کا ہالہ ہوتا کہ غور کیا جائے کہ ان روشنیوں کا ذہن پر کیا اثر ہوتا ہے۔
طالب علم سوچتا ہے کہ وہ کہاں
جائے۔ اپنے گرد نمک کا ڈھیر لگا لے یا ایسی جگہ پہنچے جہاں آگے پیچھے ، دائیں
بائیں ہرطرف نمک ہو۔ یہ ماحول نمک کی کان یا نمکستان میں مل سکتا ہے جہاں نمک مٹی
کا قائم مقام ہے۔
طالب علم نمک کی کان میں داخل ہوا اور ایک کلو میٹر سے
زیادہ فاصلہ طے کر کے اندرونی حصے تک گیا جہاں ہر طرف لاکھوں سال سے موجود نمک کے
کرسٹل اور ان سے بننے والی چٹانیں ہیں۔ نمک کی دنیا میں فرش ، درو دیوار اور چھت
ہر شے نمک سے بنی ہے۔
ماحول میں گہرا سکوت تھا۔ نمک کی
کان میں کافی وقت گزرنے کے بعد طالب علم کو احساس ہوا کہ ذہن ہلکا پھلکا اور جسم
کسی حد تک بے وزن ہو گیا ہے۔ ماحول میں مخصوص بو کا احساس ہوا۔ اس نے ذہن کے
ریکارڈ میں تلاش کیا کہ یہ کس قسم کی بو ہے۔ ذہن نے بارہا ایک ہی طرف اشارہ کیا یہ
ویلڈنگ کی بو سے ملتی جلتی ہے۔
وہ نمک کی کان کے ایسے حصے کی طرف
گیا جہاں کافی اندھیرا تھا اور سکوت دوسرے حصوں کی نسبت زیادہ تھا۔ وہاں کچھ دیر
بیٹھا اور ماحول میں اثرات جذب کرنے کی کوشش کی۔ محسوس ہوا کہ ہر طرف مخصوص لہروں
کا ہجوم ہے جو نمک کے نوک دار کرسٹل زمین کے اندر سے تخلیق ہو کر اوپر کی جانب
بڑھتے ہیں اور بلندی تک چلے جاتے ہیں۔ بلندی پر نمک کے کرسٹل سورج کی روشنی میں
جگمگا رہے تھے۔ طالب علم کو اندر میں لطافت کا احساس ہوا۔
طالب علم اس خیال سے باہر آیا اور
کیفیت میں معنی پہنانے کی کوشش کی پھر ارادہ ترک کر دیا۔ اندر میں کوئی کہہ رہا
تھا کہ ذہن کے دیکھنے کو دیکھنے کے بجائے ایسے شخص کی راہ نمائی حاصل کرو جو اندر
میں اندر کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔
کان سے نکلتے ہوئے خیال آیا کہ جو
کان کن طویل عرصے سے یہاں کام کر رہے ہیں یا وہ عملہ جو نمک کی کان میں زیادہ وقت
موجود رہتا ہے، ان کے تجربات غیر معمولی اور حیران کن ہونے چاہیئں۔ تحقیق سے معلوم
ہوا کہ کان کنوں اور دیگر عملے کی کیفیات معمول کے مطابق ہیں اور ان کو علم نہیں
کہ نمک کے ماحول میں ۔ مخصوص اثرات موجود ہوتے ہیں۔
طالب علم نے پڑھا ہے کہ نمک کی
مقداریں لاشعوری تحریکات کو تیز کرتی ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ نمک کی کان میں طویل
عرصہ گزارنے والے لوگ جو نمک کی مقداروں یا روشنی کے حصار میں ہیں، انہیں عام آدمی
کے مقابلے میں لاشعوری حواس سے زیادہ واقفیت ہونی چاہیے یا کم از کم غیر معمولی
کیفیت کا تجربہ ہونا چاہیے ۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔
الجھن اس وقت دور ہوئی جب یہ سوال
اس نے اپنے روحانی استاد سے کیا۔انہوں نے فرمایا،
” اہمیت وقت لگانے کی ہے ،
کنسنٹریشن کی ہے۔دلچسپی ہو تو ہر علم سیکھ سکتے ہیں۔“
ان الفاظ میں لاشعوری حواس ، خواب
کی دنیا کے رموز ، روحانی علوم کی طرزیں سیکھنے اور سمجھنے کا فارمولا تھا۔ جب فرد
کوئی علم سیکھنا چاہتا ہے تو کامیابی اس پر منحصر ہے کہ وہ کتنی دلچسپی لیتا ہے،
کنسنٹریشن کتنی ہے اور علم سیکھنے کے لیے کتنا وقت دیتا ہے۔ اگر ذوق و شوق ہے تو
ناموافق حالات میں بھی وہ علم سیکھ لیتا ہے جب کہ توجہ کی کمی یا غیر موجودگی میں
( سازگار ماحول کے باوجود) علم سیکھنا ممکن نہیں۔ دلچسپی کے ساتھ موافق ماحول حاصل
ہو جائے تو سیکھنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ استاد کے الفاظ سے واضح تھا کہ علم
سیکھنے کا دارومدار ذوق و شوق سے بھرپور وقت دینے پر ہے۔
قارئین کرام! کمرے میں تین رنگ کے
بلب ہیں ۔ ان کا رنگ سرخ ، نیلا اور سبز ہے۔ سرخ بلب روشن کیا جائے تو کمرے میں
سرخ روشنی پھیلے گی، سرخ کے ساتھ سبز روشنی کا بلب آن کر دیا جائے تو دونوں
روشنیاں آپس میں مل کر زرد رنگ کی روشنی کا تاثر دیں گی اور کمرے میں زرد روشنی
پھیل جائے گی۔
نکتہ : الگ
الگ دو یا تین رنگوں کی روشنیوں سے مل کر بننت والے رنگ ، مختلف رنگوں کے paint آپس میں ملانے سے مختلف ہوتے ہیں۔ سرخ اور سبز بلب اکٹھے روشن ہو
کر زرد روشنی بناتے ہیں۔ جیسے ہی نیلا بلب روشن ہوگا تو تینوں بلب کی روشنیوں سے
سفید روشنی کا تاثر پیدا ہوگا۔ اگر صرف نیلا اور سرخ بلب روشن ہو تو گلابی روشنی
بنتی ہے۔ نیلی اور سبز روشنیاں مل کر فیروزی رنگ کی روشنی کا تاثر پیدا کرتی ہیں۔
قارئین کرام ! ہر روشنی مخصوص
مقداروں مجموعہ ہے۔ جب یہ دوسری روشنی سےملتی ہے تو الگ مقدار میں ظاہر ہوتی ہے۔
نمک اور مٹھاس مقداروں کے خاص
مجموعے کا نام ہے۔ ان کی تخلیق میں کون کون سی اشیازیر بحث آتی ہیں؟ شہنشاہِ ہفت
اقلیم__
حضرت بابا تاج الدین ناگپوری ؒ فرماتے ہیں :
” کائنات زمانی مکانی فاصلوں کا
نام ہے۔ یہ فاصلے انا کی چھوٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں۔ ان لہروں کا چھوٹا
بڑا ہونا ہی تغیر کہلاتا ہے۔دراصل زمان اور مکان دونوں اسی تغیر کی صورتیں ہیں۔
دخان جس کے بارے میں دنیا کم جانتی ہے، اس مخلوط کا نتیجہ اور مظاہر کی اصل ہے ۔
یہاں دخان سے مراد دھواں نہیں ہے۔ دھواں نظر آتا ہے اور دخان ایسا دھواں ہے جو نظر
نہیں آتا۔ انسان مثبت دخان کی اور جنات منفی دخان کی پیدا وار ہیں۔ رہا فرشتہ ، ان
دونوں کے ملخص سے بنا ہے۔ عالمین کے یہ تین اجزائے غیب و شہود کے بانی ہیں۔ ان کے
بغیر کائنات کے گوشے امکانی تموج سے خالی رہتے ہیں۔ نتیجے میں ہمارا شعور اور
لاشعور حیات سے دور نابود میں گم ہو جاتا ہے۔ ان تین نوعوں کے درمیان عجیب و غریب
کرشمہ بر سر عمل ہے۔ مثبت دخان کی ایک کیفیت کا نام مٹھاس ہے۔ اس کیفیت کی کثیر
مقدار انسانی خون میں گردش کرتی رہتی ہے۔ دخان کی منفی کیفیت نمکین ہے۔ اس کیفیت
کی کثیر مقدار جنات میں پائی جاتی ہے۔ ان دونوں کیفیتوں سے فرشتے بنے ہیں۔ اگر ایک
انسان میں مثبت کیفیت کم ہو جائے اور منفی بڑھ جائے تو انسان میں جنات کی تمام
صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ جن میں مثبت کیفیت بڑھ جائے اور منفی کیفیت کم
ہو جائے تو اس میں ثقل (وزن) پیدا ہو جاتا ہے۔ فرشتہ پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔اگر
مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے اوپر آجائیں تو مثبت کے زور پر وہ انسانی صلاحیت
پیدا کر سکتا ہے اور منفی کے زور پر جنات کی۔ بالکل اسی طرح اگر انسان میں مثبت
اور منفی کیفیات معین سطح سے کم ہو جائیں تو اس سےفرشتہ کے اعمال صادر ہونے لگیں
گے۔ طریق کار بہت آسان ہے۔ مٹھاس اور نمک کی معین مقداریں کم کر کے فرشتوں کی طرح
زمانی و مکانی فاصلوں سے وقتی طور پر آزاد ہو سکتے ہیں۔ محض مٹھاس کی مقدار کم کر
کے جنات کی طرح زمانی و مکانی فاصلے کم کر سکتے ہیں لیکن ان تدبیروں پر عمل
پیرا ہونے کے لیے کسی روحانی انسان کی راہ نمائی اشد ضروری ہے۔“
قارئین! جیسا کہ متنبہ کیا گیا ہے
اس طریقے پر ہرگز اجازت کے بغیر خود سے عمل نہ کیا جائے ورنہ ناقابلِ تلافی نقصان
کا اندیشہ ہے۔ واقف کار استاد کی اجازت سے ایسا کوئی عمل کیا جا سکتا ہے اس لئے
استاد کی ہمہ وقت نگرانی ضروری ہے۔
غور طلب ہے کہ انا کی چھوٹی بڑی
لہریں آپس میں مل کر دخان بناتی ہیں۔ دخان ایسی تخلیق ہے جو مادی آنکھ کو نظر نہیں
آتی۔ محقق اس کا طرز عمل اور حرکات دھوئیں جیسا بتاتے ہیں۔
واضح رہے کہ محققین نے دخان کو
دھوئیں کا نام دیا ہے جب کہ روحانیت میں دخان کا ترجمہ دھواں نہیں__بھاپ بھی نہیں۔ دخان بااختیار مخلوق ہے۔
کائنات کی تخلیق سے پہلے جب زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے تو اللہ نے دخان سے
فرمایا کہ داخل ہو جا زمین میں ، خوشی یا زبردستی سے۔ دخان نے کہا، میں آپ کا
اطاعت گزار ہوں۔ یہ کہہ کر وہ خوشی سے داخل ہو گیا۔
دخان کے داخل ہونے سے موجودات میں
انفرادیت ظاہر ہوئی۔
²²²²
محققین کے مطابق زمین پر مختلف
اقسام کے دھوئیں ہیں جن میں مشترک بات ذرّات کی بظاہر بے ہنگم حرکت۔ انہوں نے
دھوئیں کے ذرّات کے مطالعے سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بے ترتیب سمجھی جانے والی حرکت
دراصل اپنے اندر ایک پیچیدہ ترتیب رکھتی ہے۔ ریاضی کی مدد سے دھوئیں کی حرکت کے
فارمولے ترتیب دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ محققین کے بیان کئے گئے فارمولے کو
سادہ الفاظ میں لکھا جائے تو ترتیب یہ ہوگی،
”دھوئیں کی لہریں اپنے منبع سے ،
ایک خطِ مستقیم میں ، ایک دوسرے کے متوازی سفر کرتی ہیں۔ یہ لہریں بہت قریب لیکن
الگ الگ ہوتی ہیں۔ مخصوص فاصلہ طے کرنے کے بعد دائروی اور نیم دائروی حالت میں
بظاہر بے ہنگم انداز اختیار کرتے ہوئے بڑے رقبے پر پھیل جاتی ہیں۔ ہر تھوڑے فاصلے
پر ایسے حلقے بنتے ہیں جہاں ذرّات یا لہروں کا ہجوم نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ اگر
دھوئیں کی یہ مقدار کہکشانی اور کائناتی سطح پر موجود ہو تو یہ حلقے تخلیق کے
مقامات ہیں جہاں ستارے ، سیارے ، کہکشائیں اور کہکشاؤں کے جھڑمت تخلیق ہوتے ہیں۔“
تحقیق و تلاش (سائنس) مادی شعور کی
پابند ہے مگر تسلیم کرتی ہے کہ دھواں اپنی ہئت اور حرکت میں تخلیقی صفات رکھتا ہے۔
ماہرِ فلکیات اجرامِ فلکی کے حوالے سے یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ ان کی ابتدائی
حالت دھوئیں کے ضخیم بادلوں جیسی تھی۔ اگرچہ یہ مفروضہ ہے لیکن ظاہر ہوتا ہے کہ
لاشعوری طور پر دخان جس کو انہوں نے دھوئیں کا نام دیا ہے ، اس کے وجود اور کردار
کو تسلیم کر رہے ہیں۔
توجیہ : کائنات
لہروں پر قائم ہے۔ باطنی علوم کے ماہرین کی تعلیمات سے راہ نمائی ملتی ہے کہ تفکر
کی لہریں جب ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو فاصلے(اسپیس) تخلیق ہوتے ہیں۔ یہی فاصلے
کائنات کی وسعت بنتے ہیں۔ لہروں کے مدغم ہونے کا انداز دخانی حرکت ہے۔ جب لہریں
متوازی سفر کرتی ہیں اور باہم خلط ملط نہیں ہوتیں تو فاصلے یا اسپیس کا تذکرہ نہیں
آتا۔ جیسے ہی باہم پیوست ہو کر نئی تخلیقات کا بنیادی مسالا بنتی ہیں ، اسپیس ظاہر
ہو جاتی ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے ،
” اور ہم نے ہر شے کے جوڑے بنائے
ہیں تاکہ تم اس سے سمجھو۔“ (الذٰریٰت : ۴۹)
انا کی لہریں باہم مخلوط ہو کر جو
دخان بناتی ہیں وہ مثبت اور منفی جوڑے کی شکل میں تخلیق ہوتا ہے۔ مثبت دخان کی ایک
کیفیت مٹھاس آدمی کی دنیا کی اساس ہے۔ وہ اس کیفیت سے تمام عمر منسلک رہتا ہے تاکہ
اس کا مادی وجود قائم رہے۔ جنات میں مٹھاس کی جگہ یہ حیثیت نمک کی ہے جب کہ فرشتوں
کی تخلیق میں دخان کی یہ دونوں مقداریں ایک خاص سطح تک موجود ہیں۔
سوال : اللہ
عالمین کا رب ہے۔ ہماری زمین کے علاوہ کائنات میں کھربوں زمینیں ہیں۔ ہر زمین پر
موجود مخلوق میں اشیا کے اجزائے ترکیبی دوسری زمینوں سے مختلف ہیں۔ ہماری زمین پر
مٹھاس کاربن ، آکسیجن اور ہائیڈروجن کے لباس میں ہمارے سامنے ہے جبکہ نمک سوڈیم
اور کلورین کے سانچوں میں بنتا ہے۔
۱۔ کیا ہر زمین پر یہ دونوں
مقداریں اسی لباس میں موجود ہیں؟ اگر ہر زمین پر ان کا لباس مختلف ہے تو پھر مٹھاس
اور نمک کی اصل کیا ہے؟
۲۔ کسی بھی شے کو اس کی ظاہری شکل
و صورت اور ہیئت سے سمجھنا حقیقت ہے یا سراب؟
۳۔ پھر پانی ، مٹی ، آگ ، ہوا اور
گیس کے اصل فارمولے کیا ہیں؟
روحانی آنکھ نمک کو کیسے دیکھتی
ہے، وہ انسان جانتے ہیں جن کو اللہ نے علم عطا کیا ہے۔