Topics

رنگوں سے علاج

قرآن کریم میں ارشاد ہے :

” ان سب نے کہا کہ دعا کریں آپ ہمارے لئے اپنے رب سے کہ وہ بیان کرے ہمارے لئے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ بے شک وہ فرماتا ہے بلاشبہ وہ گائے ہو زرد رنگ کی ، زرد رنگ  ایسا ہو کہ دیکھنے والے خوش ہوں۔“

(البقرۃ : ۶۹)

آیت میں جس انداز اور وضاحت کے ساتھ زرد رنگ کے خواص بیان کئے گئے ہیں وہ تفکر طلب ہیں۔ واقعاتی تفصیلات سے قطع نظر آیت کے مرکزی نکتہ یعنی زرد رنگ کے بیان کردہ خواص پہ توجہ مرکوز کی جائے تو انکشافات کا جہاں نظر آتا ہے۔

لفظ صفرا کا مادہ (root word) صفر ہے جس کے معنی زرد یا پیلا رنگ کے ہیں۔ اردو میں اس استعمال طبی شعبہ میں معروف ہے جیسے صفرادی طبیعت ، صفرا (بیماری) وغیرہ۔ آگے اس رنگ کی صفت لفظ ” فاقع“ سے بیان کی گئی ہے۔فاقع کا ترجمہ کچھ مترجمین نے ”گہرا“ جبکہ بعض نے ”روشن“ کیا ہے جو لغوی اعتبار سے زیادہ درست ہے۔ عربی لغت میں فاقع کا مطلب واضح روشن رنگ ہے ، ایسا رنگ جو آنکھوں کو روشن لگے۔

آیت کا اگلا حصہ یعنی ” تسر الناظرین “ اس تاثر کو بیان کرتا ہے جو زرد رنگ کو دیکھ کر ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ لفظ  ”تسر“ کا مطلب مسرت پیدا کرنے والی شے ہے۔ اردو میں اس مادہ کے مستعمل الفاظ سرور ، مسرت اور مسرور ہیں۔

قارئین کرام! سورۃ البقرۃ کی آیت میں منظم انداز میں زرد رنگ کی خصوصیات اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ زرد رنگ جو روشن اور واضح ہو اور ناظرین کے ذہنوں پہ خوشگوار تاثر مرتب کرے۔ پہلے حصہ میں رنگ کا بیان ہے ، دوسرے میں اس رنگ کی طبعی و ہئیتی خصوصیت بیان کی گئی ہے۔ اس خصوصیت کو ہم طول موج اور فریکوئنسی کی اصطلاحات سے سمجھ سکتے ہیں۔ تیسرے حصہ میں زرد رنگ کو دیکھنے کی صورت میں مرتب ہونے والا اثر ہے۔ ان نکات کو پہلے سائنس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سورج کی روشنی میں تمام رنگوں کی طول موج یا فریکوئنسی کے اعتبار سے تقسیم یکساں نہیں ہے۔ یاد رہے کہ طول موج اور فریکوئنسی ایک دوسرے سے معکوس متناسب ہیں۔ یعنی طول موج جتنا زیادہ ہوگا فریکونسی اتنی کم ہوگی یا جتنی فریکونسی زیادہ ہوگی طول موج اتنا کم ہوگا۔ دونوں پہلو ایک خصوصیت کے دو رخ ہیں۔

زرد اور نارنجی رنگ کی مقداریں ، سورج کی روشنی میں دوسرے رنگوں کی مقداروں سے زیادہ ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مادی آنکھ اس رنگ یا روشنی پہ دوسرے تمام رنگوں کی نسبت زیادہ حساس ہے۔ یعنی ہمیں زرد رنگ باقی تمام رنگوں سے زیادہ روشن اور واضح نظر آتا ہے۔ زرد روشنی کی طول موج تقریباً پانچ سو ستر (570) نینو میٹر ہے۔ ایک نینو میٹر ، ایک میٹر کا اربواں حصہ ہے۔

یہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے کہ جس روشنی کی مقدار ہمارے سورج میں  دوسری روشنیوں کی نسبت زیادہ ہے، اسی روشنی پہ ہماری آنکھوں کی حساسیت انتہائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رات کو عام بلب کی روشنی کی نسبت سوڈیم لیمپ کی روشنی میں ہم  زیادہ واضح اور روشن دیکھ سکتے ہیں کیونکہ سوڈیم لیمپ کی روشنی میں زرد روشنی کی مقدار زیادہ ہے۔

مادی آنکھ تقریباً 400 نینو میٹر سے لے کر  700 نینو میٹر طول موج کی روشنیاں یا رنگ دیکھ سکتی ہے۔ اگرچہ ان حدود سے کم یا زیادہ طول موج کی روشنیاں لا شمار ہیں لیکن مادی آنکھ انہیں دیکھنے سے قاصر ہے۔ دوسری مخلوقات خصوصاً حشرات کئی ایسی روشنیاں دیکھ سکتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں۔

مادی آنکھ کی مرئی حدود :   سب سے زیادہ طاقتور یا زیادہ فریکوئنسی کی روشنی جو مادی آنکھ دیکھ سکتی ہے وہ جامنی ہے، اس کا طول موج تقریباً 400 نینو میٹر ہے۔ اس کے بعد گہرے نیلے رنگ کی روشنی ہے جس میں ہلکی جامنی جھلک موجود ہو،اس کا طول موج تقریباً 445 نینو میٹر ہے۔ پھر نسبتاً روشن نیلا رنگ ہے جس کا طول موج تقریباً 475 نینو میٹر ہے۔ اس کے بعد سبز روشنی جو تقریباً 510 نینو میٹر طول موج پر مشتمل ہے۔ سبز کے بعد زرد روشنی ہے جس  کا طول موج تقریباً 570 نینو میٹر ہے۔ زرد کے بعد نارنجی روشنی تقریباً 590 نینو میٹر اور سرخ روشنی تقریباً 650 نینو میٹر کا طول موج رکھتی ہے۔ یہ درجہ بندی سہولت کے لئے ہے جبکہ ایک رنگ سے دوسرے رنگ میں حقیقتاً کوئی حد فاصل موجود نہیں ہے۔

مادی آنکھ اوسطاً رنگوں کے دس لاکھ شیڈز دیکھ سکتی ہے۔ شواہد موجود ہیں کہ کچھ افراد میں یہ صلاحیت دس گنا زیادہ پائی گئے ہے لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی آنکھ میں رنگ شناخت کرنے والے خلیات(Cones) تین گروہوں میں تقسیم ہیں جو بالترتیب سرخ، زرد اور سبز رنگوں کی شناخت کرتے ہیں۔ ایک کون تقریباً 100 شیڈز شناخت کر سکتا ہے۔ اس طرح تمام خلیات مجموعی طور پر دس لاکھ شیڈز شناخت کر سکتے ہیں ۔ جن افراد میں یہ صلاحیت دس گنا زیادہ ہوتی ہے ان میں خلیات (cones) کے تین گروہوں کے بجائے چار گروہ موجود ہوتے ہیں ۔ اضافی گروہ نارنجی رنگ کی شناخت کرتا ہے۔ باقی تمام رنگ ان رنگوں کے امتزاج سے پیدا ہوتے ہیں۔

برقی مقناطیسی اسپیکٹرم اور مرئی روشنیاں :   روشنی کا لفظ عموماً ایسی برقی مقناطیسی لہروں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جن کو مادی آنکھ دیکھ سکے۔ جبکہ تمام قسم کی برقی مقناطیسی لہریں درحقیقت روشنیاں ہیں اگر چہ مادی آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ سائنس نے برقی مقناطیسی لہروں کی جو اقسام معلوم کی ہیں ان کی طاقت ور ترین قسم گیما شعاعیں شمار کی جاتی ہیں۔ ان کا طول موج ایک پیکو میٹر کی حدود میں ہے۔ ایک پیکو میٹر ، ایک میٹر کا دس کھربواں حصہ ہے۔ گیما شعاعوں سے کم انرجی کی لہریں ایکس ریز اور الٹرا وائلٹ روشنیوں پہ مشتمل ہیں۔پھر مرئی روشنیاں(visible spectrum) ہیں۔ ان کے بعد انفراریڈ ، مائکرویوز اور ریڈیو ویوز ہیں۔

ریڈیو ویوز کی طول موج ایک ملی میٹر سے لے کر کئی کلو میٹر تک ہوسکتی ہے۔ حتی کہ طول موج کی طوالت اتنی زیادہ بھی ہو جاتی ہے کہ کائنات کا احاطہ کر لیتی ہے۔ اس نکتہ پر تفکر کرنے سے روحانی علوم کی فہم حاصل کی جا سکتی ہے بفضلہ تعالیٰ ۔ ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ جن روشنیوں میں ہماری آنکھیں دیکھنے کے قابل ہیں، وہ تمام معلوم یا دریافت شدہ روشنیوں کا کتنا حصہ بنتا ہے؟

یہ امر غور طلب اور حیران کن ہے کہ مرئی روشنیاں معلوم برقی مقناطیسی اسپیکٹر ( ویزیبل اسپیکٹر) کے ایک فی صد کے دس لاکھویں حصہ سے بھی کم پہ مشتمل ہیں۔

قارئین کرام! کیایہ امر مادی حواس کی محدودیت کو ظاہر نہیں کرتا؟ کیونکہ جن روشنیوں کو مادی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں وہ تمام معلوم روشنیوں میں مقدار اور تعداد کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان روشنیوں میں کائنات و موجودات کا مشاہدہ کرنا کچھ بھی نہ دیکھنے کے برابر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان روشنیوں کا احاطہ بھی نوع آدم کے مادی علوم ابھی تک نہیں کر پائے۔

یہ بات طے ہے کہ مادی حواس کی حدود مقرر ہیں۔ ان حدود میں رہ کر شے کی کنہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ مادہ کی بساط بھی مادہ پہ قائم نہیں بلکہ ان روشنیوں پر ہے جو آدمی کو تو نہیں لیکن انسان کو نظر آتی ہیں۔

غور طلب امر یہ ہے کہ مختصر ترین حدود کی روشنیوں کا احاطہ اب تک نہیں کیا جا سکا تو دوسری روشنیوں میں کائنات کی وسعتوں کا کیا عالم ہوگا۔۔؟ اگر ہم ان روشنیوں کو دیکھنے کی صلاحیت حاصل کر لیں تو وہ رنگ کس طرح نظر آئیں گے؟ یقیناً ان رنگوں کو احاطہ بیان میں لانا ممکن نہیں کیونکہ مادی حواس میں ان رنگوں کا ریکارڈ موجود نہیں۔ ان رنگوں کی ہیئت ان رنگوں سے یکسر مختلف ہے۔ روحانی حواس کی فہم کے بغیر اس سوال کا جواب ناممکنات میں سے ہے۔

بے شمار رنگ :  اللہ کے دوست ، عظیمی صاحب ، بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی کے ایم اے کے نصاب میں شامل اپنی تصنیف ” احسان و تصوف “میں رقم طراز ہیں:

”ایک صوفی نے سیہون شریف میں لعل شہباز قلندر﷭ کے مزار پر مراقبہ کیا ۔ اس نے دیکھا کہ اس کے اندر سے روح کا ایک پرت نکلا اور قبر کے اندر اتر گیا۔ لحد میں صاحب قبر موجود تھے۔ قبر کے بائیں طرف دیوار میں ایک کھڑکی یا چھوٹا دروازہ ہے۔ قلندر صاحب ﷭ نے فرمایا ، جاؤ! یہ دروازہ کھول کر اندر کی سیر کرو ، تم وہاں جا سکتے ہو۔ صوفی نے دروازہ کھولا تو باغ نظر آیا۔ ایسا خوبصورت باغ جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ اس باغ میں ایسے پرندے دیکھے جن کے پروں سے روشنی پھوٹ رہی ہے۔ ایسے پھول دیکھے جن کا تصور نوع انسانی کے شعور سے ماورا ہے۔ پھولوں میں خاص اور عجیب بات یہ نظر آئی کہ ایک ایک پھول میں کئی کئی سو رنگوں کا امتزاج ہے اور یہ رنگ محض رنگ نہیں بلکہ ہر رنگ روشنی کا قمقمہ ہے۔ ہوا چلتی ہے تو رنگ اور روشنیوں سے بنے ہوئے پھول ایسا سماں پیدا کرتے ہیں کہ ہزاروں رنگ برنگے روشن قمقمے درختوں کی شاخوں پر جھول رہے ہیں۔“

قارئین کرام ! برقی مقناطیسی لہروں کے اس بحربے کراں میں موجود جن لہروں کو ہم موئی روشنیاں کہتے ہیں، قطرہ سے زیادہ مقدار نہیں رکھتیں جبکہ مادی حواس کے لئے ان کی حیثیت بھی لامحدود ہے۔

زمین، سورج ، چاند ، تارے ، پھل ، پھول ، حیوانات و نباتات ، پہاڑ ، سمندر ، دریا ، ہوائی جہاز ، عمارتیں ، گاڑیاں ، بڑے بڑے شہر اور جو کچھ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں، انہی چند روشنیوں میں ہمیں نظر آتا ہے جنہیں ہم مرئی روشنیاں سمجھتے ہیں۔ زندگی ان روشنیوں میں گزر جائے تو باقی لامڈود روشنیوں کا ادراک حاصل نہیں ہوگا۔ یقیناً اس صورت حال کو ناانصافی اور ظلم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ رب العالمین نے کوئی شے بے کار پیدا نہیں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ خود چاہتے ہیں کہ نوع آدم کے افراد ان حواس سے واقف سے واقف ہوں جن کی فہم اور حصول کے بغیر کائنات کو سمجھنا ممکن نہیں۔

مثال :      ایک بہت بڑی دیوار ہے۔ دیوار کے پیچھے خوب صورت پہاڑ ، آبشاریں ، باغ ، پھل ، پھول اور سبزہ سب موجود ہے۔ دیوار میں بہت چھوٹا سوراخ ہے۔ ناظر دیوار کے پار اس خوب صورت دنیا کو دیکھنا چاہتا ہے لیکن انتہائی مختصر  سوراخ کے علاوہ دیکھنے کی صورت موجود نہیں۔ وہ اس سوراخ سے ساری عمر بھی دوسری طرف دیکھتا رہے، دوسری طرف موجود حقیقت و وسعت سے روشناس نہیں ہو سکتا اور نہ خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ ایک ہی صورت ہے کہ کسی طرح مختصر شگاف کے بجائے بہت بڑی کھڑکی نصب کی جائے یا دیوار سے آزادی حاسل کر لی جائے۔

 مادی حواس کی حدود اس مختصر شگاف سے زیادہ نہیں۔

باطنی علوم کے ماہرین کے مطابق ہر رنگ ایک مقدار ہے اور مقدار معین ہے۔ اس بات کو مادی طرزوں میں مقداروں کی طول موج یا فریکوئنسی جیسی اصطلاحات سے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک رنگ کا دوسرے سے مختلف ہونا، مقدار کے فرق کی وجہ سے ہے۔ ہر مقدار مخصوص طبع و خصوصت رکھتی۔ پکی ہوئی فصلیں ، پکے ہوئے پھل ، ہلدی ، مسالے ، خورد و نوش کی بیش تر اشیا حت کہ دھوپ اور مٹی میں بھی زرد رنگ غالب کیوں نظر اتا ہے؟ زرد رنگ کی مقداریں کس قسم کے حواس پیدا کرتی ہیں اور ان سے کیا کیفیات مرتب ہوتی ہیں۔۔؟

الشیخ عظیمی فرماتے :

” جس قدر زرد رنگ کا غلبہ زیادہ ہوگا اسی مناسبت سے آدمی کے اوپر دنیاوی حواس کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ روحانیت میں مراقبہ اس لئے کرایا جاتا ہے کہ آدمی کے اوپر سے زرد رنگ کی گرفت کم ہو جائے۔ زرد رنگ کی گرفت کم ہونے سے آدمی کا ذہن سبز رشنیوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ سبز روشنیاں اسے سکون دیتی ہیں اور ذہنی زرتکاز میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ جب ذہنی زرتکاز سبز روشنیوں پر ہوتا ہے تو ذہن نیلی روشنیوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔“

عظیمی صاحب نے اس بات کو دوسری جگہ درج ذیل پیرائے میں بیان فرمایا ہے :

” قلندر شعور ہمیں بتاتا ہے کہ ذہن کو دنیاوی علائق اور دنیاوی معاملات سے یک سو کرنے کے لئے ایسی مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے جن مشقوں سے ذہن دنیا کو عارضی طور پر چھوڑ دے یعنی ذہن سے دنیا کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ یوں کہیے کہ دنیاوی معاملات روٹین کے طور پر پورے ہوتے ہیں تو آدمی کے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار ہونا شروع ہو جاتی  ہیں جب ذہن ان صلاحیتوں میں بہت زیادہ متوجہ ہوتا ہے تو شعور کے اوپر سے زرد رنگ کا خلیہ ٹوٹنے لگتا ہے ، نتیجہ میں زمان و مکان کی حد بندیاں اس طرح ختم ہو جاتی ہیں کہ آدمی بیدار ہوتے ہوئے بھی ایسے عمل کرنے لگتا ہے جس طرح خواب کی زندگی میں کرتا ہے۔ مراقبہ میں آنکھیں بند کئے ہوئے پوری طرح احساس ہوتا ہے کہ میں جسمانی طور پر زمین پر بیٹھا ہوا ہوں ، اس کے باوجود زمین پر چل پھر رہا ہوں، فضا میں اڑ رہا ہوں اور فاصلوں کی نفی کر کے دور دراز چیزوں کو دیکھ رہا ہوں۔“

حکمت کی گہرائیوں سے معمور اقتباسات سے چند چشم کشا انکشافات سامنے آتے ہیں۔

۱۔ زرد رنگ سے ثقل پیدا ہوتا ہے یا زرد رنگ ثقل کی مقداروں سے براہ راست منسلک ہے۔ زرد رنگ یا زرد روشنی پہ غلبہ ، قوت ثقل پہ غلبہ ہے۔ یہ فارمولا ایسی ٹیکنالوجی کا سراغ دیتا ہے جس کی مدد سے ثقل پہ غلبہ حاصل کر کے حیرت انگیز کام سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔

۲۔ زرد رنگ ، زمان و مکان کی حد بندیوں کو مستحکم کرتا ہے یعنی مادی حواس کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ زرد رنگ کا خلیہ ٹوٹنے سے زمان و مکان کی حد بندیاں ختم یا اتنی کم زور ہو جاتی ہیں کہ ہم فاصلہ اور وقت حزف کر کے نئی دنیاؤں سے واقف ہو سکتے ہیں۔

۳۔ مادی حواس کو زرد رنگ کے حواس کہا جا سکتا ہے کیونکہ ہر روشنی منفرد خصوصیات کی بنا پہ مخصوص کیفیات یا اسپیس پیدا کرتی ہے۔ مادی  حواس کی اسپیس ، زرد رنگ یا زرد روشنی کی اسپیس ہے اسی طرح سبز روشنی یا نیلی روشنی مخصوص اسپیس پیدا کرتی ہے۔ واقف ہونے کے لئے ان روشنیوں کی اسپیس میں داخل ہونا ضروری ہے۔ اس طرح یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر روشنی معین مقداروں سے مختلف ابعاد (dimensions) پیدا کرتی ہے جن سے وقوف ، ان ابعاد میں داخل ہوئے بغیر ممکن نہیں۔

۴۔رنگوں اور روشنیوں کے خواص اور مقداروں کی کنہ تک رسائی سے ایسی سائنس کے در وا کئے جا سکتے ہیں جو نوع آدم کو پابند حواس سے لامحدود حواس میں داخل کر سکے۔

کتاب ” رنگ و روشنی سے علاج“ میں تحریر ہے :

” زرد رنگ کی کمی امراض معدہ کا سبب بنتی ہے اور اس ک زیادتی بخار کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔“

جسم میں زرد رنگ کی مخصوص مقدار کو جسم میں قائم رکھنے کے لئے انتظام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشیائے خور دو نوش پہ زرد رنگ کا غلبہ ہے۔ محترم عظیمی صاحب جس طرح زرد رنگ کی کمی بیشی کے جسم پہ اثرات بیان فرماتے ہیں ، اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ بیماریوں کے علاج میں اگر ہم لطیف مقداروں سے واقف ہو جائیں تو نہ صرف کثیف مادی واسطوں سے آزاد ہو سکتے ہیں بلکہ علاج  میں روشنیوں سے مدد لے کر انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

مرض دراصل روشنیوں کی مقداروں کا عدم توازن ہے جسے روحانی آدمی توازن میں تبدیل کر کے بیماری ختم کر دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ روشنیوں اور رنگوں کے خواص جاننے کی کوشش کی جائے۔

دوا مخصوص مقداروں کا مرکب ہے۔ ایسی مقداریں جو جسم میں داخل کرنے سے روشنیوں کا عدم توازن (بیماری) ختم ہو جائے۔ لیکن مادی واسطہ میں نقائص بہرحال موجود ہیں۔ ایک تو یہ انتہائی سست واسطہ ہے۔ دوم یہ کہ مخصوص مقداروں کے علاوہ اس میں متعدد غیر متعلقہ مقداریں شامل ہیں جو نہ صرف مطلوبہ مقداروں کی کار کردگی اور اثر کو کم کرتی ہیں  بلکہ منفی اثرات (side effects) جسم پر مرتب کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایک جیسا علاج ہمیشہ کارگر نہیں ہوتا کیونکہ معالج روشنیوں کی بنیادی مقداروں سے واقف ہونے کے بجائے ان مرکبات سے واقف ہے جن میں روشنیاں بطور آمیزش موجود ہیں۔ جسم میں براہ راست یا زیادہ لطیف واسطوں کو اپنا کر جسم کو روشنیوں میں رکھا جائے تو علاج انشاء اللہ کامیاب ہوگا۔

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم