Topics
ستاروں ، سیاروں ، کہکشاؤں اور
دیگر اجرام فلکی کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کے لئے ترقی یافتہ اقوام نے صحراؤں اور
پہاڑی چوٹیوں پر بھی رصد گاہیں قائم کی ہیں۔ جدید آلات ، طاقت ور کمپیوٹر نظام اور
دیو ہیکل طاقت ور دور بینوں سے آراستہ جدید رصد گاہ کے قیام کے لئے خطیر رقم اور
وسائل درکار ہوتے ہیں۔
آبادی سے دور رصد گاہ تعمیر کرنے
کا بنیادی مقصد ہے کہ گردو غبار ، دھوئیں اور مصنوعی روشنی سے مبرا صاف شفاف ماحول
میسر ہوتا کہ اجرام فلکی کا مشاہدہ کرنے میں زمینی و فضائی آلودگی حائل نہ ہو۔
آدھی رات کا وقت ہے ۔ مطلع صاف ہے۔
پہاڑی سلسلہ ” الف“ کی بلند ترین چوٹی پر موجود رصد گاہ میں ماہرین فلکیات ،
محققین کی ایک ٹیم تحقیق و تلاش میں مصروف ہے۔ جدید ٹیکنا لوجی کی حامل انتہائی
جسیم دور بین ، طاقت ور کمپیوٹر سے منسلک ہے۔ ٹیم کے چند ارکان کی توجہ کمرے میں
نصب کمپیوٹر اسکرینوں پر ہے۔ کچھ ارکان دور بین کے عدسوں اور آئینوں کو ترتیب میں
رکھنے پر متعین ہیں۔ دو محقق عدسوں پر نظریں جمائے مشاہدہ میں مصروف ہیں۔ ستاروں
سے آنے والی روشنی دور بین میں داخل ہوتی ہیں۔ عدسوں اور آئینوں کی مخصوص ترتیب سے
گزرتی ہوئی محقق کے بصری نظام میں داخل ہوتی ہے۔
اسی اثنا میں کمپیوٹر کا نظام دور
بین کی وصول کردہ روشنی کو برقی مقناطیسی سگنلوں میں تبدیل کر کے مختلف اسکرینوں
پر تصاویر ، جدول (چارٹ) اور اعداد میں ظاہر کرتا ہے۔ محقق ان معلومات کو یکجا کر
کے اجرام فلکی کی ہیت حرکت اور ساخت وغیرہ سے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحقیق کے اس عمل کی ترتیب اس طرح
بنتی ہے کہ کسی مخصوص ستارہ سے خارج ہونے والی روشنی خلا میں اربوں کھربوں میل کی
مسافت طے کر کے زمین کی فضا میں داخل ہوئی۔ فضا کے اجزا ( گیسیں ، گرد و غبار،
بخارات) کی تہ گزر کر دور بین کے بڑے حصہ تک پہنچی۔ مختلف آئینوں اور عدسوں سے
گزرتی ہوئی آخری عدسہ میں داخل ہوئی جس پر ماہرین فلکیات کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔
ستاروں سے روشنی خارج ہوتے وقت یہ روشنی جن مقداروں ( طول موج ، فریکوئنسی ، شدت
وغیرہ) پر مشتمل تھی کیا اتنے پردوں میں سے گزرنے کے بعد بھی یہ مقداریں قائم ہیں؟
بصریات (optics) کے طالب علم جانتے ہیں کہ روشنی جب ایک واسطہ سے دوسرے واسطہ میں
داخل ہوتی ہے تو اس کی مقداریں یکساں نہیں رہتیں۔ رفتار میں کمی بیشی واقع ہوتی ہے
جس کی بنا پر روشنی منعطف (خم دار) ہو جاتی ہے۔ طول موج ، فریکوئنسی اور شدت وغیرہ
پر اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ جو روشنی (اطلاع لے کر) ستارہ سے خارج ہوئی، مختلف واسطوں
سے گزر کر اس اطلاع میں تحریف ہوتی گئی۔
حتی کہ آنکھ بھی ایک واسطہ ہے۔
آنکھ میں نصب عدسہ ، شفاف سیال وغیرہ روشنی کی مقداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
آنکھ کے پچھلے حصہ میں موجود کونز اور راڈز کا نظام روشنی کی مقداروں میں تمیزکے
ساتھ ساتھ تحریف کا ذمہ دار ہے کیونکہ یہ نظام خود ایک واسطہ ہے۔ پھر روشنی دماغ
میں برقی رو میں تبدیل ہو کر ان خلیات میں پہنچتی ہے جو بصری نظام سے متعلق ہیں۔
مساوات یہ بنی۔
ستارہ سے روشنی خارج ہوئی،
خلا سے گزر کر زمینی فضا میں داخل
ہوئی،
فضا سے گزرتے ہوئے روشنی کی مقدار
تبدیل ہوئی،
روشنی دور بین میں داخل ہوئی،
دور بین نے فضا کی تبدیل کردہ
روشنی کو دیکھا،
دور بین نے روشنی میں تحریف کی،
اور آنکھ نے وہ دیکھا جو شیشہ دکھا
رہا ہے۔
اتنی تبدیلی کے بعد بالآخر ستارہ
کی جو معلومات حاصل ہوئیں وہ کس قدر درست ہیں؟
وضاحت کے لئے شکل نمبر (۱) دیکھئے۔
مادی واسطوں سے پیدا ہونے والا
فریبِ نظر (optical illusion)
کے دور میں معمہ نہیں۔مضمون میں یہ باور کرانا مقصود ہے کہ جب بھی اطلاع مادی
واسطوں سے گزر کر دماغ تک پہنچتی ہے، اس میں تحریف اور تبدیلی واقع ہونا ناگزیر
ہے۔ پھر اطلاع کو من و عن اصلی حالت میں وصول کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا ہمارے
اندر وہ آنکھ یا بصارت موجود ہےجو اطلاع کو اصل صورت میں قبول کرنے کی صلاحیت
رکھتی ہے؟
زید کے گھر سے مغرب کی جانب
200میٹر کے فاصلہ پر مسجد ہے۔ ہوا میں نمی کا تناسب 70 فی صد ہے کیونکہ بارش دو
گھنٹے پہلے رکی ہے۔ ہوا کی رفتار 45 کلو میٹر فی گھنٹہ مغرب سے مشرق کی جانب ہے۔
ہوا کی یہ رفتار معمول سے کافی تیز ہے۔مسجد کے لاؤد اسپیکر میں اذان دی جاتی ہے۔
”زید“ کو اذان کی آواز معمول سے بہت بلند سنائی دیتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ مسجد
200 میٹر کے فاصلہ پر نہیں بلکہ 50 میٹر سے کم فاصلہ پر ہے۔
حامد کا گھر مسجد سے 200 میٹر مغرب
کی جانب ہے۔ اذان کی آواز اسے معمول سے مدھم سنائی دیتی ہے جیسے مسجد 200 میٹر کے
فاصلہ پر نہیں بلکہ 500 میٹر یا اس سے دور واقع ہے۔
”زید“ اور ”حامد“ کے گھر مسجد دے
یکساں فاصلہ لیکن مخالف سمت میں ہیں۔ اذان کی آواز کی بلندی دونوں سامعین کے لئے
یکساں اس لئے نہیں کہ آواز کا واسطہ یعنی ہوا ، آواز کی لہروں کو زید کے لئے بلند
اور حامد کے لئے پست کر رہا ہے۔ جس سے ”زید“ کو مسجد کے لاؤڈ اسپیکر( آواز کا
منبع) سے قریب اور ”حامد“ کو دور ہونے کا الوژن پیدا ہوا۔ شکل نبمر (۲) دیکھئے۔
قارئین کرام! آواز اپنے منبع سے
خارج ہوئی۔ ہوا کے پردہ (واسطہ) سے گزر کر کان میں داخل ہوئی۔ کان بھی ایک پردہ (
واسطہ) ہے۔ دونوں پردے مادی ہیں۔ ہوا گیسوں پر اور کان ٹھوس اور مائع حصوں پر
مشتمل ہے۔ آواز کے مصدر (منبع) کا ارتعاش ہوا میں منتقل ہوا ، ہوا مرتعش ہوئی ،
ہوا کا ارتعاش کان میں منتقل ہوا، ارتعاش برقی سگنلوں میں تبدیل ہوئے اور دماغ نے
معنی پہنائے۔ صورتحال وہی ہے__صوتی منبع سے پیدا
ہونے والا ارتعاش جب پردوں یا واسطوں سے گزرا تو کیا ان میں میڈیم کی مقداروں سے
خلط ملط کی وجہ سے تبدیلی نہیں ہوئی؟
طالب علم مطالعہ میں مصروف ہے۔ ایک
صفحہ کے بعد دوسرا صفحہ شروع ہوتا ہے۔ طالب علم پانی سے تر اسفنج پر انگلی مس کرتا
ہے تاکہ انگلی اور کاغذ کے درمیان چپک پیدا ہو۔ اس چپک سے صفحہ پلٹنے میں آسانی
ہوتی ہے وگرنہ دو تین صفحے اکٹھے پلٹنے کا احتمال ہے۔
اسفنج نرم ہے۔ کتنا نرم ہے؟ طالب
علم بتا سکتا ہے کہ اسفنج کی نرمی ، پاس رکھے تکیہ کی نرمی سے مختلف ہے۔ اسفنج
پانی سے تر ہے۔ طالب علم انگلی مس کرنے سے تری اور پانی کے بخاراتی عمل کی وجہ سے
پیدا ہونے والی ٹھنڈک کو محسوس کرتا ہے۔ پھر انگلی کاغذ سے مس ہوتی ہے اور کاغذ کی
موٹائی ، ملائمت اور لچک کی اطلاعات بذریعہ لمس طالب علم کے دماغ تک پہنچتی ہیں۔
بایاں ہاتھ کتاب کے نیچے ہے۔ کتاب
کی جلد جس گتے سے بنی ہے ، اس کی سختی اور اس پر منڈھے چمڑے کے texture کا احساس طالب علم کو بخوبی ہے طالب علم مطالعہ ختم کرتا ہے۔
سامنے کتابوں کی الماری ہے۔ الماری کا ہینڈل لوہے سے بنا ہے۔ طالب علم ہینڈل کو
مضبوطی سے پکڑتا ہے اور کھنچنے سے طاق کھل جاتا ہے۔
دماغ لوہے کی سختی ، مضبوطی اور
ٹھوس پن کی اطلاعات بذریعہ لمس قبول کرتا ہے۔ لمس کے اعصاب جسم ، خصوصاً جلد میں
نیٹ ورک کی صورت میں پھیلے ہوئے ہیں جو کسی شے کے چھونے کے احساس کو دماغ میں برقی
سگنلوں کے ذریعے منتقل کرتے ہیں لیکن شے چاہے وہ لوہا ، لکڑی ، کاغذ ، کپڑا اسفنج
یا کوئی میٹریل ہو، اس کے لمس کی انتہائی بنیادی سطح کیا ہے؟
سائنس وضاحت کرتی ہے کہ کوئی بھی دو
سطحیں خواہ وہ کتنی قوت اور مضبوطی سے آپس میں مس ہوں، ان کے ایٹموں کے بیرونی
الیکٹران یکساں منفی چارج رکھنے کی بنا پر ایک دوسرے سے گریز کرتے ہیں۔ چناچہ دو
سطحوں کے درمیان ہمیشہ خلا موجود رہتا ہے چاہے وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔
مطلب یہ ہوا کہ دو سطحیں ایک دوسرے
سے حقیقی طور پر مس نہیں ہوتیں بلکہ ایک دوسرے کے بیرونی الیکٹرانوں کی مخالف اور
برابر قوت کی بناء پر ہمیشہ ایک فاصلہ پر رہتی ہیں۔ سمجھ میں آتا ہے کہ مادی لمس
کی بنیاد الوژن پر قائم ہے۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے :
” اور ہم اس کی رگِ جاں سے زیادہ
اس سے قریب ہیں۔“ (ق : ۱۶)
کتاب میز پر ہے ۔ دونوں کے درمیان
بظاہر خلا نظر نہیں اتا لیکن خلا موجود ہے۔ اس طرح کتاب میز سے حقیقی طور پر مس
ہونے کے بجائے نظر نہ آنے والے خلا میں معلق ہے۔ باطنی علوم کے ماہرین وضاحت کرتے
ہیں کہ مادہ کا آپس میں ربط خلا کے ذریعہ ہے اور ان میں بذاتِ خود خلا ہے۔
محترم عظیمی صاحب مادہ (matter) ، مادہ کے ٹھوس پن اور خلا کا قانون لکھتے
ہیں:
” جو چیز جتنی ٹھوس ہوگی اسی
مناسبت سے اس میں خلا ہوگا۔ روحانی آنکھ سے اگر دیوار کو دیکھا جائے تو ہر اینٹ کے
اندر بڑے بڑے سوراخ نظر اتے ہیں۔ پہاڑوں کو اگر باطنی آنکھ سے دیکھا جائے تو بڑے
بڑے غار نظر آتے ہیں لگتا ہے بادلوں کی طرح کوئی چیز آسمان میں تیر رہی ہے۔ خلاؤں
کو پُر کرنے کے لئے ان حواس میں ایسے تقاضے بھی موجود ہیں جن کو ہم اختیاری حواس
کہہ سکتے ہیں یعنی ایسے حواس جو ہمیں زندگی کے تعمیری رخ پر قائم رہنے کی تلقین
کرتے ہیں۔ ان خلاؤں میں جو رخ تعمیر کی طرف متوجہ کرتا ہے اس کا نام ضمیر ہے۔“
کوانٹم فزکس کے ذریعے محقق اس
نتیجہ پر پہنچ گیا ہےکہ مادہ کی اصل خلا ہے۔ ایٹم اور ایٹم کے ذیلی ذرّات دراصل
خلا کی مختلف اکائیاں ہیں۔
وہ حواس جو مادہ کی سطح تک محدود
ہیں، شے کی اصل تک رسائی حاسل نہیں کر سکتے کیونکہ کہ وہ مادہ کے خلا سے باہر نہیں
نکل سکتے۔چنانچہ ان حواس سے ترتیب پانے والا شعور الوژن کے تانے بانے پر مشتمل ہے۔
اللہ تعالیٰ آدم کی توجہ اس امر کی برف مبذول کراتے ہیں۔
” اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے
کا سامان ہے۔“ (الحدید : ۲۰)
دیکھنے ، سننے ، چھونے ، سونگھنے
یا چکھنے کے مادی حواس شے کو براہ راست جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک شے کی مدد سے
دوسری شے کو سمجھتے ہیں۔ درمیانی حوالہ ، میڈیم یا پردہ شے کی حقیقت اور کنہ کے
وقوف میں مانع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مادی حواس کی روشنی میں شے کی حقیقت سے متعلق
اختلاف موجود رہتا ہے ۔ ایک ہی شے کو جاننے اور سمجھنے کے نظریات وقت کے ساتھ ساتھ
بدلتے ہیں، مسترد ہوتے ہیں اور نئے نظریات بنتے ہیں حالاں کہ شے کی اصل ایک ہے۔ ان
نظریات پر ڈگریاں بھی ملتی ہیں ، نظریات غلط ثابت ہو جاتے ہیں لیکن ڈگری واپس نہیں
لی جاتی۔
ماہرین حیاتیات کی تحقیقات کے
مطابق زمین پر موجود جانوروں میں ایک فی صد سے بھی کم ایسے جانور ہیں جن میں نیلا
رنگ نمایاں ہے۔ وجہ ان میں نیلے رنگ کا پگمنٹ ہے جب کہ باقی جتنے جانور ، پرندے ،
مچھلیاں اور حشرات الارض وغیرہ ہیں، ان میں نیلے رنگ کے شیڈز نظرآتے ہیں لیکن یہ
نیلے رنگ کے نہیں ہوتے ۔ پھر ایسے جانور ہمیں نیلے کیوں نظر آتے ہیں؟
وجہ یہ ہے کہ ان کے پروں یا بالوں
کی خورد بینی ساخت کی وجہ سے جب روشنی ان سے ٹکراتی ہے تو روشنی میں سوائے نیلے
رنگ کے باقی تمام رنگ فضا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ میں ان کی ظاہری سطح نیلی
نظر آتی ہے۔ یہ مثال واضح کرتی ہے کہ مادی حواس کو دھوکہ دینا کس قدرآسان ہے۔
ہم بظاہر جو دیکھتے ہیں ، سنتے
ہیں، چھوتے ہیں یا چکھتے ہیں، ضروری نہیں وہ اسی طرح ہو۔ یہ معمول ہے کہ شے کی اصل
کچھ اور ہوتی ہے مگر ہمارے حواس دھوکہ کھا کر اسے کسی اور طرح دیکھتے اور سمجھتے
ہیں۔
خاتم النبیین رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:
” مر جاؤ مرنے سے پہلے۔“
یعنی مرنے سے پہلے مرنے کے بعد کی زندگی کے حواس
سےواقف ہو جاؤ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرد کو دنیا میں
رہتے ہوئے الوژن حواس سے نکل کر ان حواس سے وقوف کا لازمی قرار دیا ہے جو جنت کے
حواس ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جنت میں شجر ممنوعہ کے قریب جانے سے منع فرمایا۔ آدم پر
جنت میں زمان و مکان کی پابندی نہیں تھی۔ نافرمانی کی صورت میں قید و بند کا عذاب
مسلط ہو گیا۔
عظیمی صاحب فرماتے ہیں،
”وہ درخت گندم کا درخت ہرگز نہیں
ہے۔ وہ درخت ہے حواس کا، ایسے حواس کا جو انسان کو ہمیشہ پابند اور مقید رکھتے
ہیں، درخت معنوی نقطہ نظر سے ایک ایسی چیز کو کہا جاتا ہے کہ جس میں شاخ در شاخ
پتّے اور پھل کی موجودگی پائی جاتی ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، اے آدم ! زمان و
مکان کی پابندی قبول نہ کرنا ورنہ تو اس میں اس طرح جکڑا جائے گا جس طرح کسی درخت
کی شاخ میں سےشاخ اور پھر شاخ میں سے شاخ اور ہر شاخ میں بے شمار پتے ہوتے ہیں اور
جب تو اس قید و بند کو آزادی اور خوشی کے بدلے قبول کر لے گا تو اپنے اوپر طلم کرے
گا۔فتکونا من الظالمین۔ اور جب آدم نے قید و بند کی زندگی کو اپنا لیا تو جنت نے
جو آزاد اور زمان و مکان کی پابندیوں سے ماورا مقام ہے ، اسے رد کر دیا۔ چونکہ
آدمی جنت کے حواس کھو بیٹھا جو اس کے اپنے اصلی حواس ہیں اس لئے آدم کو زمین پر
پھینک دیا گیا جہاں وہ پابندی اور قید و صعوبت کے حواس میں گرفتار ہے۔ علم مابعد
النفسیات کا یہ کہنا ہے کہ زمین کے اوپر کام کرنے والے حواس مفروضہ ہیں اس لئے کہ
یہ انسان کے اصل حواس نہیں ہیں بلکہ عارضی اور نقلی ہیں۔انسان کے اصل حواس وہ ہیں
جہاں اس پر زمان و مکان کی حد بندیاں عائد نہیں ہوتیں۔“
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” سنو! بے شک اللہ کے دوستوں کو
خوف ہوتا ہے اور نہ غمگین ہوتے ہیں۔“ (یونس
: ۶۲)
آدمی عارضی اور نقلی حواس کے تسلط
سے نجات پالے تو پھر وہ اصلی اور آزاد و حواس کوحاصل کر سکتا ہے جس میں نہ غم کو
دخل ہے نہ پریشانی کو اور نہ جذباتی کشمکش ، اعصابی کشیدگی اور دل و دماغ کے کرب
کی داستانیں ہیں۔۔