Topics

آم

          گہرائی میں مطالعہ کیا جائے تو ہر درخت یا پودا مختلف قسم کے وسائل پیدا کرنے کی فیکٹری ہے۔ ایک درخت کتنی اقسام کے کیمیائی مرکبات پیدا کرتا ہے ۔۔؟ اس کا شمار ممکن نہیں۔

          ہر مخلوق افزائش کے لیے وسائل کی محتاج ہے۔ وسائل کی تخلیق اور تقسیم کا مربوط نظام ہے جس میں تعطل نہیں ہے۔ نوع آدم جن وسائل پر انحصار کرتی ہے ان میں روٹی ، پانی ، ہوا، لباس ، مکان ، ادویات ، الات اور ذرائع آمد و رفت وغیرہ سر فہرست ہیں۔ کسی بھی نوع کی حیات کے لیے درکار وسائل کا اندازہ کرنا ممکن نہیں۔رحم مادر میں بچہ کی نشونما کے لیے درکار وسائل مہیا ہونے میں کئی رموز ہیں جن سے زندگی کا نظام اور حیات کی بنیاد منکشف ہوتی ہے۔ رحم مادر میں داخل ہونے سے پہلے اور پیدائش کے بعد بھی وسائل کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ بچہ عالم آب و گل میں آنکھ کھولتا ہے اور مسلسل وسائل استعمال کرتے ہوئے ایک روز یہاں سے رخصت ہو جاتا ہے۔ وسائل کی فراہمی اسے دوسرے عالم میں بھی جاری رہتی ہے۔ یہ سب نعمتیں مفت مہیا ہوتی ہیں اور ان کو تخلیق و تقسیم کرنے والی ذات اللہ رب العالمین ہے۔

          وسائل کی تخلیق کہاں اور کیسے ہوتی ہے؟ یہ ایک لا محدود نظام ہے جس کا احاطہ شعور نہیں کر سکتا۔ البتہ قرآن کریم میں وسائل کی تخلیق کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ان نشانیوں میں سے ایک آسان فہم اور مانوس ترین نشانی درخت ( پودے ، گروہ نباتات) ہیں۔

          اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔

          ” اور دیکھو زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔ انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں کچھ دہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزہ میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کم تر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔“      (الرعد :۴)

          ” کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لئے ۔“         (النحل : ۶۷)

 

          ”پھر پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لئے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیئے ، تمہارے لئے ان باغوں میں بہت سے لذیذ پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو اور درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سیناء سے نکلتا ہے، تیل بھی لیے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی۔“ (المؤ منون : ۱۹۔۲۰)

          آیات میں درختوں یا پودوں سے حاصل ہونے والے وسائل کا تفصیل سے ذکر ہے۔ بنیادی وسائل میں غذا ، دوا ، مکان اور لباس وغیرہ شامل ہیں۔

          پہلی بات یہ ہے کہ زمین ایک ہے جس میں سے مختلف شکل و صورت اور خصوصیات کے پودے اور درخت اگتے ہیں، مختلف رنگ ، ذائقہ اور خوش بوؤں کے پھل پھول پیدا ہوتے ہیں اور قد و قامت ، شکل و صورت میں ایک دوسرے سے منفرد نظر آتے ہیں۔ یہ سر سری مشاہدہ سے نظر آنے والے اوصاف ہیں۔

          گہرائی میں مطالعہ کیا جائے تو ہر درخت یا پودا مختلف قسم کے وسائل پیدا کرنے کی فیکٹری ہے۔ ایک درخت کتنی اقسام کے کیمیائی مرکبات پیدا کرتا ہے۔۔؟ اس کا شمار ممکن نہیں۔

          سائنس نے جن پودوں کے کیمیائی مرکبات ابھی تک دریافت کئے ہیں وہ اس طرح ہے کہ فرض کیجیئے کہ کوئی پودا ایک لاکھ قسم کے کیمیائی مرکبات بناتا ہے تو ان میں سے اب تک چند دریافت ہوئے ہیں۔ جن مرکبات کی مقدار مجموعی طور پر دوسرے مرکبات سے زیادہ ہے وہ بآسانی دریافت ہو جاتے ہیں۔ جو مرکبات قلیل یا انتہائی قلیل مقدار میں ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ نوع نباتات کی تعداد و اقسام شماریات سے ماورا ہے اور یہ صرف ایک زمین کی بات ہے جب کہ نباتات سے بننے والے مرکبات اور ان کی اقسام کا شمار بھی ممکن نہیں۔

          محترم قارئین ! اللہ تعالیٰ کی صنعتوں میں سے ایک نباتات جب لامحدود وسعتوں کی حامل ہے تو دیگر تمام وسائل کا احا طہ کیسے ممکن ۔۔؟

          قرآنی آیات میں جامع انداز میں درختوں سے حاصل ہونے والے وسائل کا ذکر ہے۔ کھجور ، انگور اور آم پھل دار درخت ہیں، خوش بو دار اور خوش ذائقہ غذا مہیا کرتے ہیں۔ زیتون ادویاتی خصوصیات کا حامل درخت ہے جو غذا کے ساتھ دوا بھی فراہم کرتا ہے۔ مختلف اقسام کے پودے اور درخت لباس کے لیے عمدہ ریشہ فراہم کرتے ہیں اور مکان و رہائش اور فرنیچر کے لئے لکڑی مہیا کرتے ہیں۔

          آم ، کھجور ، انار ، امرود وغیرہ ایسے درخت ہیں کہ ہم ان کی ایک خصوصیت یعنی پھل کو ہی مرکزیت دے کر ان کی دوسری لاشمار خصوصیات کو عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں جب کہ پھل کے علاوہ ان کے پتوں ، پھولوں ، چھال ، تنے کا گودا اور جڑ کے حصوں میں کون کون سی ادویاتی اور کیمیائی خصوصیات ہیں؟ ہماری توجہ اس طرف شاذ ہی راغب ہوتی ہے۔

          سب کے پسندیدہ پھل آم کی بات کی جائے تو یقین ہے کہ نام پڑھتے ہی آم کی مٹھاس زبان پر غالب ہو جائے گی۔ دنیا کے لذیذ ترین پھلوں میں سے ایک پھل آم کے درخت کے دوسرے حصے ( پھل کے علاوہ) جیسے بور ، چھال اور پتے اپنے اندر مختلف ادویاتی خصوصیات رکھتے ہیں جب کہ خود یہ پھل ایک مقوّی غذا اور مختلف بیماریوں کے لیے دوا ہے۔

          آم کا درخت عموماً 35 میٹر تک بلند ہوتا ہے۔ تنے کا قطر ڈھائی فٹ ہوتا ہے۔ آم کے درخت طویل عمر پاتے ہیں۔ بعض اقسام کے بارے میں ماہرین نباتات نے اندازہ لگایا ہے کہ تین سوسال کے بعد بھی بہترین پھل دیتی ہیں ، جڑیں زمین میں بیس فٹ گہرائی تک جاتی ہیں اور بڑے حجم میں پھیلتی ہیں۔ پھول سائز میں بہت چھوٹے اور گچھوں کی صورت میں چار سے 16 انچ طویل شاخوں پر لگتے ہیں جنہیں عرف عام میں ”بور“ کہا جاتا ہے ۔ درخت کی لکڑی بہت ہلکی اور نرم ہوتی ہے۔

          آم کا آبائی وطن بر صغیر پاک و ہند کا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ آم کی تقریباً ایک ہزار اقسام دنیا کے بیش تر ممالک میں کاشت کی جاتی ہیں۔ بعض اقسام ذائقہ اور معیار کے اعتبار سے اعلیٰ تصور کی جاتی ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں کاشت کی جانے والی آم کی اقسام دنیا بھر میں اپنے ذائقہ اور معیار کی وجہ سے معروف ہیں اور تحفتاً دوسری اقوام کے سر براہان کو بھیجی جاتی ہیں۔

          آم کے درخت کا اہم ترین حصہ یعنی غذائیت ، وٹامن اور مفید معدنیات کا خزانہ اور اللہ تعالی ٰ کا انعام ہے۔ مٹھاس ( کاربو ہائیڈریٹ) ، ریشہ (فائبر( اور معمولی چکنائی کے علاوہ آم میں وٹامن A,B1,B2,B6, B12, C اور Kموجود ہیں جب کہ معدنیات ( منرلز) میں کیلشیم ، آئرن ، پوٹاشیم ، سوڈیم ، کاپر اور فاسفورس شامل ہیں۔ یہ سارے مفید اجزا پھل کے گودے ، چھلکوں اور مغز میں پائے جاتے ہیں ۔ آم کے چھلکے اور گٹھلی یا بیج عموماً پھینک دیئے جاتے ہیں جب کہ یہ بے کار ہرگز نہیں۔

          سائنسی تحقیق وضاحت کرتی ہے کہ آم کے چھلکوں میں غذائی ریشہ (فائبر) کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو وزن کم کرنے اور انہضام کے عمل کے لیے مفید ہے۔ وٹامن ، معدنیات اور دوسرے اہم کیمیائی اجزا آم کے چھلکوں میں بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ چھلکوں میں کینسر ، جگر اور دل کے امراض سے بچاؤ کے لئے مفید مرکبات موجود ہیں۔

          بعض مرکبات درازئ عمر کا باعث ہیں۔ حتیٰ کہ بعض محققین کی نظر میں ، آم کے چھلکے اپنی افادیت میں گودے سے بڑھ کر ہے۔ عام طور پر پکے آم کے چھلکے ، کچے چھلکوں سے زیادہ مفید ہیں۔

          آم کا بیج قدرت نے ایک سخت خول کے اندر محفوظ کیا ہے۔ ادویاتی اور غذائی خصوصیات سے بھر پور ہے۔ بیج کا نرم حصہ اپنے اندر سات سے پندرہ فی صد مفید چکنائی رکھتا ہے۔ یہ چکنائی ہضم ہو کر کلی طور پر تحلیل ہو جاتی ہے اور کو لیسٹر ول سے پاک ہے۔

          آم کے بیج میں موجود چکنائی دراصل کئی مفید چکنائیوں کا پیچیدہ مرکب ہے اس وجہ سے یہ چکنائی چاکلیٹ کی کئی مصنوعات میں مستعمل ہے۔ چاکلیٹ کی مصنوعات کے پیکٹ یا ڈبے پر عموماً آم کا مغز اجزا کی فہرست میں درج ہوتا ہے۔

          علاوہ ازیں آم کا بیج یا مغز گرتے بالوں کو روکنے، خشکی اور قبل از وقت بال سفید ہونے سے بچاؤ کے لیے مفید پایا گیا ہے جب کہ جلدی امراض کے لیے جن میں پھوڑے پھنسیاں اور جلد کا پھٹنا شامل ہے آم کا مغز دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ آیو رویدک طریقہ علاج میں آم کا مغز دل کے امراض ، ذیابیطس اور خون میں کولیسٹرول کی زیادتی کے لیے بطور دوا استعمال ہوتا ہے۔

          پھلوں کے بادشاہ آم کے پکنے کا موسم شدید گرمی ہے۔ اس پھل کو پکنے کے لیے زیادہ حرارت درکار ہے۔

          آم میں مٹھاس کی مختلف اقسام بڑی مقدار میں پائی جاتی ہیں ۔ امریکی محکمہ زرات کی رپورٹ کے مطابق آدھا کپ آم میں تقریباً 70 کیلوریز موجود ہیں جن میں زیادہ تر مٹھاس سے حاصل ہوتی ہیں۔چوں کہ مٹھاس یا گلوکوز کے ایک گرام میں چار کیلوریز ہوتی ہیں اس طرح آم سے حاصل ہونے والی کیلوریز کا 90 فی صد حصہ مختلف اقسام کی مٹھاس کی وجہ سے ہے۔

          آم میں موجود مٹھاس کا تقریباً نصف ، سکروز پر مشتمل ہے۔ سکروز گھروں میں استعمال ہونے والی چینی ہے۔ یہ گنے کے علاوہ مختلف پھلوں میں بھی پائی جاتی ہے۔آم کی ایک تہائی مٹھاس فرکٹوز کی شکل میں موجود ہے۔ یہ مٹھاس تقریباً تمام پھلوں میں مشترک ہے جب کہ باقی پائی جانے والی مٹھاس ڈیکسٹروز پر مشتمل ہے جو دراصل پانی کے ساتھ منسلک گلوکوز ہے۔

          آم کی مٹھاس کی مختلف اقسام کے جسم پر اثرات تقریباً یکساں ہیں اور جسم کے لیے بہت مفید ہیں کیوں کہ یہ فائبر ، وٹا من اور معدنیات کے ساتھ ایک متوازن صورت میں موجود ہے۔

          آم کے پکنے کا عمل قدرتی اور مصنوعی دونوں طریقوں سے مکمل ہو سکتا ہے۔ قدرتی طور پر پکے ہوئے آم کی تاثیر اور ذائقہ مصنوعی طریقہ سے پکے ہوئے آم کی نسبت بہت بہتر ہے۔ کاروباری سہولت کے لیے آم مصنوعی طریقہ پر بھی پکائے جاتے ہیں۔ دونوں طریقوں میں پکنے کا عمل Ethylene گیس کے اخراج کی صورت میں ہوتا ہے۔

          چاند کی چاندنی تمام پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے کا بنیادی سبب ہے۔ سوال یہ ہے کہ مصنوعی طریقہ سے پکنے کے عمل میں چاندنی کس طرح شامل ہوتی ہے؟

          غور طلب ہے کہ آم کے پکنے سے پہلے آم میں مٹھاس کی تمام مقداریں مختلف شکل میں موجود ہیں۔ یعنی یہ مقداریں نشاستہ اور acids کی صورت میں ہیں۔ چاندنی میں اللہ تعالیٰ نے خاصیت رکھی ہے کہ جب اس کے فوٹان پھلوں سے ٹکراتے ہیں تو پھلوں میں مٹھاس کی مقداریں تخلیق ہونے لگتی ہیں۔ یہ مقداریں خواہ اولین صورت یعنی نشاستہ اور acids کی صورت میں ہوں یا اپنی انتہائی صورت یعنی سکروز ، گلوکوز اور فرکٹوز وغیرہ کی شکل میں۔

          پھلوں کے پکنے کے عمل کے دوران ethylene کا اخراج نشاستہ اور ایسڈز کے مٹھاس کے مالیکیولز میں تبدیل ہونے کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ اس طرح ethylene پکنے کے عمل میں معاون گیس ہے نہ کہ مٹھاس پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔

          حاصل کلام یہ ہے کہ نباتات کے گروہ میں کسی بھی نوع کی خصوصیات کا مطالعہ شروع کیا جائے تو ذہن کو دریائے ناپید ا کنار سے واسطہ پڑتا ہے۔

          کائنات میں تمام مخلوقات بشمول نباتات ، اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظاہرہ ہیں۔ جب خالق کائنات کی ایک صفت کا احاطہ ناممکن ہے تو ان صفات سے تخلیق پانے والی مخلوقات بھی اپنے بحربے کراں سمیٹے ہوئے ہیں۔ عالمین ، ان میں مخلوقات ، اجرام فلکی اور بروج اللہ تعالیٰ کی قدرت و رحمت کے مظاہر ہیں۔ تو جہ کا رخ کسی بھی شے کی طرف موڑ دیں وہ اپنی بے کراں وسعت سے یہ باور کراتی ہے کہ شے کا خالق قادر مطلق ہے۔

          ” زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے قلم بن جائیں اور سمندر جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ “      (لقمٰن: ۲۷)

          قلندر شعور راہ نمائی کرتا ہے کہ درخت محض تنے ، شاخوں ، پتوں ، پھولوں ، ٹہنیوں اور جڑوں پر مشتمل وجود کا نام نہیں، اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایسا تعارف ہے جو وسائل کی تخلیق و ترسیل کا منبع یا علامت ہے۔ درخت کی تخلیق کے حوالے سے عظیمی صاحب فرماتے ہیں۔

                   ” ہم جب زمین کے اوپر موجود نت نئی تخلیقات پر تفکر کرتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ تخلیق کا عمل ظاہر بین نظروں سےدیکھا جائے تو ایک نظر آتا ہے۔ مثلاً ہم کسی درخت کی پیدائش کے بارے میں غور کرتے ہیں تو زمین کے اوپر موجود تمام درختوں کی پیدائش کا لامتناہی سلسلہ ایک ہی طریقہ پر قائم ہے۔ درخت چھوٹا ہو بڑا ہو ، تناور ہو،بیل کی شکل میں ہو یا جڑی بوٹیوں کی صورت میں ، پیدائش کا سلسلہ یہ ہےکہ زمین کے اندر بیج بویا جاتا ہے۔ زمین اپنی کوکھ میں یا پیٹ میں اس بیج کونشو نما دیتی ہے اور بیج کی نشو نما مکمل ہونے کے بعد درخت وجود میں آ جاتا ہے۔ لیکن بڑی عجیب بات ہے باوجود یہ کہ پیدائش کا طریقہ ایک ہے، ہر درخت اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور درخت کی یہ انفرادیت نامکمل نہیں ہوتی۔ مثلاً آم اور بادام کے درخت کو دیکھا جائے تو درخت کی حیثیت سے وہ دونوں ایک ہیں، دونوں کی پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے، دونوں کا قد و قامت بھی ایک جیسا ہے لیکن آم کے درخت کا پھل اور بادام کے درخت کا پھل بالکل الگ الگ شکل و صورت میں موجود ہے۔اسی طرح جب ہم پھولوں کی طرف متوجہ ہوتےہیں تو پھول کا ہر درخت اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے اوراس انفرادی حیثیت میں اس کے پتے بھی الگ ہوتے ہیں۔ اس کیشاخیں بھی الگ ہوتی ہیں۔ اس کے اندر پھول بھی الگ ہوتا ہے ۔ پھولوں کی بے شمار قسموں پر جب نظر جاتی ہے تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ہر پھول میں الگ خوش بو ہے۔ پھولوں میں ایسےگلینڈ ہوتے ہیں جن سے مختلف قسم کا خوشبودار تیل نکل کر ہوا میں اڑتا رہتا ہے اس طرح فضا میں خوش بو پھیلتی رہتی ہے۔ پھولوں کے گلینڈز میں خوشبو دار تیل کا ذخیرہ سونگھنے سے دماغ معطر ہو جاتا ہے۔ پھول اگر رنگین ہے تو درخت کے پھول الگ الگ رنگ کے ہیں۔“

          نباتات کرہ ارض پر تخلیقات کے لیے زندگی اور وسائل کی ضمانت ہیں۔ حیرت انگیز اور معجزانہ اثرات کی حامل جڑی بوٹیاں اور پودے موجود ہیں جن پر تحقیق کر کے لا علاج بیماریوں سے نجات مل سکتی ہے حتی کہ مادہ کی خصوصیات میں ماہیت قلب کی صلاحیت حاصل کی جا سکتی ہے لیکن قدرت کا اپنا نظام ہے۔ گوہر مقصود اسی کو عطا ہوتا ہے جو اس کا اہل ہو۔

          حضرت لقمان ؑ کے بارے میں مشہور ہے کہ پودے ان کے سامنے اپنے خواص آشکار کر دیتے تھے۔

          تفکر سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وحی کی تعلیمات اور پیغمبرانہ طرز فکر ایسا راستہ ہے جو آدمی کو کائنات کی اصل اور آدمی کی اپنی اصل سے واقف کرواتا ہے اور قدم قدم چلا کر رب العالمین کی نیا بت کی منزل تک پہنچا دیتا ہے ۔ خالق کائنات کا نائب بندہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور فراست سے اشیا کی کنہ تک پہنچ جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اشیا اس بندہ پر خود کو آشکار کر دیتی ہیں۔

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم