Topics
حکیم وعلیم ، اللہ رب العالمین کا
ارشاد ہے،
۱۔ اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں
گے۔ (الکہف : ۴۷)
۲۔ اور آپ ﷺ سے پہاڑوں کے بارے میں
پوچھتے ہیں۔ پس فرما دیجئے کہ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا۔ (طٰہٰ : ۱۰۵)
۳۔ اور ہم نے مسخر کر دیئے داؤدؑکے
ساتھ پہاڑ کہ وہ تسبیح کرتے اور پرندے ۔ (الانبیآء : ۷۹)
اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتے ہو کہ یہ
جمے ہوئے ہیں جب کہ یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت ہے جس نے ہر چیز
کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔ وہ جانتا ہے تم لوگ کیا کرتے ہو۔ (النمل : ۸۸)
۵۔ اور پہاڑ چلیں گے ، جیسے چلتے
ہیں۔ (الطور : ۱۰)
۶۔ اور پہاڑ چلائے جائیں گے پس وہ
سراب کی مانند ہو جائیں گے۔ ( النباء : ۲۰)
۷۔ اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے
دھنکی ہوئی اون ۔ ( القارعہ : ۵)
۸۔ اور پہاڑوں کو دیکھو گے کیسے
قائم کئے گئے ہیں۔ ( الغاثیہ : ۱۹)
یہ چند آیات ہیں جن میں پہاڑوں کی
زندگی ، جس مادے سے ان کی تخلیق ہوئی ہے، پہاڑوں کے شعور ، زمین پر ان کے قیام اور
حرکت سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔ ان آیات سےوضاحت ہوتی ہے کہ مادی علوم کی ، پہاڑوں
کی اصل سے متعلق رسائی نہیں ہو سکی۔ محقق اور عوام پہاڑ کو ساکت و جامد ، کثیف
چٹانی بے جان وجود اور مٹی یا پتھر کا بڑا اجتماع تصور کرتے ہیں لیکن قرآن کریم
ہمیں ان پہلوؤں کی جانب متوجہ کرتا ہے جو ہماری فہم سے اوجھل ہیں۔
۱۔ پہاڑ ساکت اور منجمد نہیں بلکہ
اللہ تعالی قوانین کے تحت متحرک ہیں۔ لفظ ” سیّرت“ کا مصدر ” سیر“ ہے ، اس کا مطلب
چلنا پھرنا یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا ہے۔
۲۔ ایک مقام پر ”نسفاً“ لفظ
استعمال ہوا ہے جس کا لغوی معنی گردو غبار یا دھوئیں جیسی حالت ہے۔ قرآن کریم کے
مطابق یہ پہاڑ کی اصل حالت ہے یعنی پہاڑ جس مادے سے تخلیق ہوا ہے ، وہ اس قدر لطیف
ہے کہ ہوا میں اڑتا ہے۔
۳۔ پہاڑ جاندار ہیں۔ عقل و فہم میں
آدمی ( نہ کہ انسان) سے آگے ہیں ۔ اس کی ایک مثال پہاڑوں کو امانت پیش کرنے کا
واقعہ ہے۔
۴۔ قرآن کریم کا طرز بیان نوعِ جن
و انس کی شعوری سکت کے مطابق ہے ۔ ایک بات مختلف مثالوں ، اشاروں اور طریقوں سے
سمجھائی گئی ہے۔ پہاڑوں کی اصل سمجھانے کے لئے انہیں اون یا روئی ( چٹانوں
اور پتھروں سے ہلکا یا لطیف مادہ) پھر گردوغبار( اون یا روئی سے لطیف تر
مادہ )پھر بادل ( گردو غبار سے لطیف تر مادہ ) اور پھر سراب
( بادل سے لطیف تر غیر مادی مظہر ) سے تشبیہ دی گئی ہے۔بالفاظ دیگر
اللہ نے پہاڑ کی اصل بیان کرنے کے لئے کثیف سے لطیف ترشے کی مثالیں بیان کی ہیں۔
۵۔ ' اور پہاڑوں کو دیکھو کیسے
قائم کئے گئے ہیں۔' یہاں عربی لفظ نُصبت ، نصب سے مشتق ہے۔ آیت سے واضح ہے کہ زمین
پہلے موجود تھی پھر پہاڑوں کو زمین میں نصب کیا گیا یا گاڑا گیا۔
سائنسی نظریات : سائنسی
علوم میں پہاڑوں کی تخلیق سے متعلق دو بنیادی نظریات ہیں۔
۱۔ زمین کا بیرونی پرت ( قشرِ ارض)
پلیٹوں پر مشتمل ہے۔ پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو رگڑ اور دباؤ سے مٹی اور ریت کے
نیچے چٹانی مادہ پہاڑ کی شکل میں ابھرتا ہے۔ جہاں دباؤ زیادہ ہوتا ہے وہاں پہاڑ
زیادہ بلند ہوتے ہیں جیسے ہمالیہ اور اینڈیز ___ جبکہ کم دباؤ کے نتیجے میں نسبتاً کم بلندی والے پہاڑ وجود میں
آتے ہیں۔
۲۔ زمین کے بطن میں جہاں سے لاوا
خارج ہوتا ہے ، وہاں لاوے کے اکٹھا ہونے اور جمنے سے مخروطی شکل کے پہاڑ بن جاتے
ہیں۔ جاپان کا فیوجی پہاڑ ، ایران کا کوہِ دماند اور چلی کا پیر ینا کوٹا اس کی
نمایں مثالیں ہیں۔
ابتدا میں پہاڑوں کے زمین پر نظر
آنے والے حصے کو پہاڑ کے وجود کا 90 فی صد سمجھا جاتا تھا۔ پھر گہرے غاروں اور
کھائیوں کی دریافت سے یہ قیاس کیا گیا کہ پہاروں کا نصف وجود زمین کے لئے خیال کیا
گیا کہ پہاڑوں کا کم از کم دو تہائی یا تین چوتھائی حصہ زمین کے اندر ہے۔ آخری
نظریے پر اختلاف رہا۔ تاہم 2010ء میں کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ پہاڑی
سلسلے کی گہرائی زمین کے اندر 250 کلو میٹر تک ہے جبکہ زمین پر اس کی انتہائی
بلندی نو کلو میٹر سے کم (8848 میٹر) ، ماؤنٹ ایورسٹ کی شکل میں ہے۔ اس طرح علم
ہوا کہ زمین کے اوپر پہاڑ کا حصہ ، زمین کے اندر پہاڑ کا عشر عشیر بھی نہیں۔
اس دریافت سے پہاڑوں کے بارے میں
قائم مفروضے سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ محقق اب کہتے ہیں کہ پہاڑوں کا چٹانی مادہ ،
زمین کے باقی مادوں سے کم کثافت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پہاڑ زمین کے
سب سے بیرونی حصے پر موجود ہیں ۔ تاہم اس مادے کی زمین میں کئی سو کلو میٹر گہرائی
میں موجودگی اس طرح کے مفروضات کی نفی کرتی ہے۔
قرآن کریم میں پہاڑوں کو زمین میں
میخوں کی طرح نصب کرنے کا ذکر ہے۔ کسی سطح کو قائم رکھنے کے لئے اس میں میخ نصب کی
جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ میخ کا زیادہ تر حصہ اندر اور بہت کم حصہ سطح کے باہر رہ
جاتا ہے۔
کشش ِ ثقل اور پہاڑ : محقق
کہتے ہیں کہ پہاڑ جتنا بلند ہو گا ، اس پر کشش ِ ثقل اتنی کم ہوگی کیونکہ بلند
ہونے سے پہاڑ کا زمین کے مرکز سے فاصلہ بڑھ جاتا ہے جو کشش میں کمی کا باعث بنتا
ہے۔ لیکن یہ کمی محققین کے مطابق اس قدر معمولی ہے کہ محسوس کرنا ممکن نہیں۔
کششِ ثقل اور اس کا ماخذ کیا ہے؟
تحقیق و تلاش (سائنس) اس کا حتمی
اور حقیقی جواب تلاش نہیں کر سکی ۔ کششِ ثقل کو قدرتی قوتوں میں سے ایک قرار دیا
جاتا ہے۔ مضمون کی ابتدا میں آیات پر تفکر کیا جائے توواضح ہوتا ہے کہ لطیف اور
ہلکا ہے۔ بادل ہوا میں اس لئے اڑتے ہیں کہ وہ کافی حد تک زمین کی کشش سے آزاد ہیں۔
اگر پہاڑ بھی ایسے لطیف جوہر پر مشتمل ہیں تو پہاڑوں پر کشش ِ ثقل کا اثر بہت کم
ہونا چاہیے ۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا لیکن __ قدرت کا نظام ہے کہ وہ تلاش کرنے والوں کو اپنی نشانیاں ضرور
دکھاتی ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے ،
” عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں
دکھائیں گے باہر اور ان کے اپنے اندر حتی کہ ان پر کھل جائے کہ بے شک وہ حق ہے۔
کیا تمہارے لئے کافی نہیں کہ تمہارا رب ہر شے پر گواہ ہے۔“ (حٰمۤ السجدہ : ۵۳)
دنیا کے مختلف پہاڑی علاقوں میں
ایسے مقامات دریافت ہوئے ہیں جہاں چیزیں معمول سے ہٹ کر پستی سے بلندی کی طرف سفر
کرنے لگتی ہیں۔ پہلے سمجھا گیا کہ وہاں کی زمین میں مقناطیسی مادہ ہے جو لوہے سے
بنی گاڑیوں کو کششِ ثقل کی مخالف سمت لے جانے کا سبب بنتا ہے۔ ایسی جگہوں کو
مقناطیسی پہاڑی (magnetic hill) کا نام دیا گیا۔ بعد میں ثابت
ہوا کہ صرف لوہا نہیں بلکہ پانی سمیت تمام دھاتی اور غیر دھاتی اشیا ان جگہوں پر
بلندی کی جانب جاتی ہیں۔اب تک ایسے سو سے زیادہ مقامات دریافت ہوئے ہیں۔
قارئین کرام ! پاکستان میں فورٹ
منرو کے نزدیک ایک جگہ ایسی ہے جہاں نصف کلو میٹر کے قریب ڈھلوان سڑک کا ایک قطعہ
ہے۔ اس پر پانی بہایا جائے تو وہ پستی سے بلندی کی طرف بہتا ہے ۔ اسی طرح نیوٹرل
گیئر میں گاڑیاں بلندی کی طرف چلنے لگتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ آگے بڑھتے ہوئے
رفتار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
قرآن کریم میں زمین کو بچھونا قرار
دیا گیا ہے جس کو قائم رکھنے کے لئے پہاڑ نصب کئے گئے ہیں۔ پہاڑوں پر ایسے سینکڑوں
مقامات کا دریافت ہونا ، پہاڑ اور کشش ِ ثقل کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تعلق کیا
ہے اور کیا اس کو دریافت کر کے ہم کششِ ثقل پر غلبہ حاسل کر سکتے ہیں__؟
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں،
” ایک بزرگ رمپا خیالات کی لہروں
کے علم سے وقوف رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ماہرین آثار قدیمہ کے اصرار پر یہ انکشاف کیا
ہے کہ بیس ہزار سال پہلے کے وہ لوگ جنہوں نے اہرام مصر بنائے ہیں ، آج کے سائنس
دانوں سے زیادہ ترقی یافتہ تھے اور وہ ایسی ایجادات میں کامیاب ہو گئے تھے جن کے
ذریعے پتھروں میں سے کششِ ثقل ختم کر دی جاتی تھی ، کششِ ثقل ختم ہونے کے بعد پچاس
یا سو ٹن وزنی چٹان ایک آدمی اس طرح اٹھا سکتا ہے جیسے پروں سے بھرا ہوا تکیہ ۔ اس
طرح سائنس کی دنیا میں ایک اور بزرگ جناب ایڈ گر کیسی کے مطابق ان پتھروں کو ہوا
میں تیرا کر موجودہ جگہ بھیجا گیا ہے۔“
ان الفاظ میں کششِ ثقل کے فارمولوں
سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
۱۔ اہرام بنانے والے لوگ پہاڑوں کے
تخلیقی مادے اور چٹانوں کے اس رخ سے واقف ہو چکے تھے جو بادلوں جیسا لطیف ہے ۔ وہ
اس رخ کو غالب کرنے کا علم رکھتے تھے جس سے بڑی بڑی چٹانیں بادلوں کی طرح ہوا میں
تیرتیں اور وہ انہیں جہاں چاہتے بآسانی لے جاتے۔
۲۔ مطلوبہ جگہ پہنچا کر چٹانوں کے
باطنی لطیف رخ کو مغلوب کر دیا جاتا اور چٹانیں وزنی اور ساکت و جامد نظر آتیں۔
یہ کہنا بے جا نہیں کہ تحقیق و
تلاش نے جتنی کوشش کشش ِ ثقل کو تسخیر کرنے کے لئے کی ہے، شاید ہی کسی اور مقصد کے
لئے کی ہو۔ راکٹ ، میزائل ، مصنوعی سیارچے ، ہوائی جہاز اور خلائی اہرام بنانے والوں
نے حاصل کیا، موجودہ ایجادات اس کے سامنے ہیچ ہیں۔
کشش ِ ثقل ہمیں زمین سے باندھ کر
رکھتی ہے ۔ معروف سائنسی نظریے کے مطابق ،
” کشش کا منبع زمین کا مرکز ہے ۔
ہر ستارے ، سیارے ، سورج اور چاند کا اپنا اندرونی مرکز کشش ثقل کا ماخذ ہے۔ ستارے
یا سیارے میں مادے کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی ، کشش اس کے مطابق ہوگی ۔ مادے کا
اجتماع ہمیشہ ایک مرکز کے ارد گرد ہو کر کروی یا بیضوی صورت اختیار کر لیتا ہے اور
جو کششِ ثقل پیدا ہوتی ہے اس کا رخ اس ستارے یا سیارے میں اس کے مرکز کی جانب ہوتا
ہے ۔“
سوال۱: زمین
کا سطح سے مرکز تک کا فاسلہ تقریباً 6400 کلو میٹر بتایا جاتا ہے یعنی سطح سے مرکز
تک پہنچنے کے لئے چھ ہزار کلو میٹر سے زیادہ زمین کے اندر گہارئی میں جانا ضروری
ہے ۔ ابھی تک زمین میں سب سے گہرا سوراخ روس میں کولا کے مقام پر کیا گیا ہے جس کی
گہرائی 12.26
کلو میٹر ہے۔ تاہم یہ منصوبہ ترک کیا جا چکا ہے کیونکہ اس سے نیچے درجہ حرارت
اورچٹانوں کی ساخت کی وجہ سے مزید ڈرل (drill) کرنا ممکن نہیں تھا۔ ابھی تک
کوئی مشین یا محقق زمین کے اندر اتنی گہرائی میں نہیں جا سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ
یہ سوراخ بیرونی پرت (قشرِ ارض) کی کل موٹائی کے تیسرے حصے سے بھی کم ہے۔ پھر زمین
کے مرکز میں کیا ہے اور وہ خششِ ثقل کا منبع کس طرح ہے، یہ جاننا کیسے ممکن ہے؟
سوال۲: سینکڑوں
پہاڑی مقامات پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ کششِ ثقل کا رخ زمین کے مرکز کی جانب نہیں
ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر شے کو بلندی سے پستی کی طرف آنا چاہیے۔ اس کے برعکس صورت
ِ حال جیسے magnetic hills
ہماری توجہ کس جانب مبذول کرواتی ہیں؟
تحقیقات بتاتی ہیں کہ پہاڑوں کا
بیشتر حصہ زمین کے اندر ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق پہاڑ ایسے لطیف مادے سے بنا
ہے جو بادلوں کی طرح ہوا میں اڑتا ہے یعنی کششِ ثقل کی کسی حد تک نفی کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم پہاڑوں کے اس رخ سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں اور نوعِ پہاڑ سے ربط
کیسے قائم کر سکتے ہیں__؟
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں ،
”پہاڑ بھی باشعور ہوتے ہیں۔ پہاڑ
بھی سانس لیتے ہیں۔ پہاڑ بھی پیدا ہوتے ہیں اور جوان ہوتے ہیں۔ چونکہ تخلیقی فارمولوں
میں پہاڑ کی تخلیق اور نشو ونما کا فارمولا الگ ہے اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ
پہاڑ جمے ہوئے کھڑے ہیں۔ آدمی ایک منٹ میں 20 مرتبہ سانس لیتا ہے ، پہاڑ 15 منٹ
میں ایک سانس لیتا ہے۔ ہر نوع میں سانس کی معین مقداریں الگ الگ ہیں۔“
مندرجہ بالا اقتباس میں زمین (ارض)
کے ثقل سے آزاد ہونے اور پہاڑوں کی تخلیق کا جاننے کا راز یا فارمولا ہے۔