Topics
حارث__ نوع آدم کا ایک فرد ہے۔ اس کے گھر بچہ کی پیدائش ہوئی۔ نومولود کو
گود میں لیا اور خوب پیار کیا۔ عزیز و اقارب ، دوست ، اور واقف کار حارث کو مبارک
باد دیتے ہیں اور سب اپنے انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ۔ کوئی کہتا ہے کہ
بچہ کے نقوش والدین سے ملتے ہیں اور کسی کو لگتا کہ بچہ نانا نانی اور دادا دادی
سے مشابہ ہے۔ کوئی کہتا کہ یہ چاند کا ٹکڑا ہے اور کوئی اسے پھول کہتا ہے۔ مگر بچہ
کا باپ حارث ان باتوں سے بے نیاز__
اپنی خوشی میں خوش ہے۔ بچہ کے خدوخال مخصوص ہیں البتہ وہ نوع آدم میں موجود تمام
اوصاف سے متصف ہے۔ اس کے دم سے گھر میں رونق آگئی ہے مگر سوچئے کیا تعریف ننھے منے
مٹی کے پتلے کی کی جارہی ہے__؟
اس دوران ایک رشتہ دار نے چابی کا
کھلونا اس کے قریب رکھا۔ حارث نے کھلونے کو اور پھر اپنے بیٹے کو دیکھا تو چونک
گیا۔
کھلونا کسی معصوم بچہ کی طرح تھا۔
دیکھ کر اصل کا گمان ہوا۔ بچہ گہری نیند میں اور کھلونا بے جان تھا۔ بچہ کسمسایا ،
حرکت ہوئی اور حارث کو دونوں میں فرق معلوم ہوا۔ جو رشتہ دار کھلونا لے کر آیا تھا
اس نے چابی گھمائی تو کھلونے میں حرکت پیدا ہوئی، ہاتھ پیر ہلے ، وہ رویا اور چابی
ختم ہونے پر خاموش ہو گیا۔
کسی نے آواز دی ، حارث آواز کی طرف
متوجہ ہوا اور پھر دھیان بٹ گیا۔
حرکت نہ ہو تو ہونا نہ ہونا برابر
ہے۔ تقریباً سوا تین کلو گرام وزنی اور اٹھارہ بیس انچ کا قد __ کسی نے نہیں سوچا کہ ننھے پتلے میں حرکت کا
ماخذ کیا ہے؟
ایسے ماہر کاریگر موجود ہیں جو مٹی
یا پتھر سے وہ شاہکار تخلیق کرتے ہیں کہ اصل کا گمان ہوتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے ان
مجسموں کو باحواس کہا ہے__؟
اگر آپ ان میں بیٹری ڈال کر چلائیں ، پھرائیں ، وہ بات کہلوائیں جو پہلے سے بیٹری
میں ریکارڈ ہے ، کیا اس کے باوجود آپ یہ نہیں کہیں گے کہ یہ کھلونا ہے؟ بیٹری چارج
ہونے کی وجہ سے کھلونے میں حرکت ہے۔ بتایئے ہم میں اور مجسمہ میں کیا فرق ہوا__؟
ممکن ہے کہ علم الابدان کا کوئی
ماہر اعتراض کرے مجسمہ مماثلت کے باوجود ہم سے مختلف ہے۔ وجہ انسانی جسم اور
مصنوعی پتلے کی اندرونی ساخت اور مشینری ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے لیکن سوال
یہ ہے کہ اگر ساخت اور مشینری کو حیات کا ماخذ سمجھ لیا گیا ہے تو یہ سب مردہ آدمی
میں بھی موجود ہوتا ہے۔ وہ حرکت کیوں نہیں کرتا__؟ اگر مشینری حیات کا سبب ہے اور اس میں نقص کی وجہ سے موت واقع
ہوئی ہے پھر مشینری کے نقص کو دور کر کے مردہ جسم کو زندہ کیوں نہیں کیا جاتا__؟
حارث نومولود بیٹے کو محبت سے
دیکھتا ہے لیکن یہ نہیں سوچتا کہ بچہ ہے کیا اور اس میں حرکت کہاں سے آرہی ہے__؟ اور اگر وہ سوچتا ہے تو اس کا سوچنا نہ
سوچنے کے برابر ہے ، ایک آواز آئی اور وہ بھول گیا، ایسا بھولا کہ پھر پلٹ کر نہیں
دیکھا۔
عجیب بات ہے کہ والدین اور رشتہ
دار زندگی کو معاشرہ میں رائج سوچ اور اسلاف کی طرز فکر کے تحت کیوں دیکھتے ہیں۔
ان میں ایک فرد ایسا نہیں ہے جو پوچھے مٹر کے دانہ کے برابر بچہ بیس انچ کا کیسے
ہو گیا؟ اللہ نے اسے ماں کے پیٹ میں خوراک کس طرح فراہم کی اور بچہ نے سانس کیسے
لی__؟
بچہ کو دیکھ کر اپنا بچپن یاد آتا
ہے کہ ہم بھی نومولود تھے ۔ وہ بچہ کہاں گیا وہ ہمارے اندر ہی موجود ہے یا اس نے
اپنی ہیت کھو دی ہے؟ ہم کس طرح تبدیل ہو کر جوان ہو گئے؟ کیا ہم اپنے اندر تبدیلی
کو محسوس نہیں کرتے ؟ پھر یہ دعویٰ کہ میں خود کو جانتا ہوں ، کیا ہے __؟ ان سطروں کو لکھتے ہوئے میں بحرِ استعجاب
میں غوطہ زن ہوں اور سوچتا ہوں کہ میں بھی تو حارث ہوں۔ کیا میں خود سے واقف ہوں__؟ پھر دوسری اشیا سے کیسے واقف ہو سکتا ہوں__؟ خود سے واقف ہوئے بغیر عرصہ حیات گزار دینا
اور یہ سمجھنا کہ ہم جانتے ہیں، کیا الوژن نہیں ہے __؟
میں اب اپنے لئے سوال بن گیا ہوں۔
میں کون ہوں__؟ ایسا سوال ہے جس پر اللہ کے ایک دوست نے تفکر کیا تو منکشف ہوا
کہ ،
” میں ایک پتلا ہوں ۔ پتلے میں خلا
ہے۔ خلا میں کَل پرزے ہیں۔ ہر کَل دوسری کَل سے جڑی ہوئی ہے اور ہر پرزہ دوسرے
پرزہ میں پیوست ہے اس طرح کہ کہیں بھی کوئی حرکت ہو تو سارے کَل پرزے متحرک ہو
جاتے ہیں۔ کَل پرزوں سے بنی مشین کو چلانے کے لئے پتلے میں چابی بھر دی گئی تو
پتلا چلنے پھرنے لگا ۔ چلنے پھرنے ، اچھلنے کودنے اور محسوس کرنے کے عمل سے پتلے
میں میں پیدا ہوگئی۔ میں جانتی ہے کہ چابی ختم ہو جائے گی ، میں
کا وجود عدم ہو جائے گا اور پتلا باقی رہ جائے گا۔
لوگ اس میں کو ایک فرد
مانتے ہیں ۔ میں کو ایک ہستی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بات ہے بھی سچ۔ میں ایک
فرد ہوں ، میری ایک ذات ہے، میری ذات ، میری انا ، میری ہستی کیوں ہے ، کوئی نہیں
جانتا۔میںبھی نہیں جانتی، جب میں خود کو فرد کے روپ میں دیکھتی ہے
تو ظاہر الوجود نظر آتا ہے اور جب خود کو ہڈیوں ، پٹھوں اور کھال سے منڈھے ہوئے
صندوق کے اندر تلاش کرتی ہے تو اسے اپنی ذات نظر نہیں آتی البتہ باطنی آنکھ دیکھتی
ہے۔ عالم ایک نہیں ، بے شمار عالمین ہیں اور ان عالمین میں لاکھوں کہکشائیں
جھماکوں کے ساتھ قائم ہیں۔ لگتا ہے ساری کائناتsparkling کا مسلسل اورمتواتر عمل ہے ، لیزر بیم سے لطیف روشنی کی کرن ہے جس
سے اندرونی دنیا بندھی ہوئی ہے اور اس اندرونی دنیا میں وہ کچھ ہے ، ظاہری آنکھ
جسے دیکھ نہیں سکتی ، شعور ادراک نہیں کر سکتا ، عقل کی وہاں تک رسائی نہیں ، میری
اصل باطن الوجود ہے اور ظاہر الوجود باطن الوجود کا عکس یا فوٹو اسٹیٹ کاپی ہے۔“ (قوس
قزح)
تعجب ہے کہ مادی جسم جسے ہم اصل
فرد پہ محمول کرتے ہیں ، محض خول ہے۔ خول کی تخلیق ، ساخت اور پیچیدگی نوع آدم کو
عطا کئے گئے علم کی وسعت ، مہارت اور اس علم تک رسائی کی روشن دلیل ہے۔
حارث ہو ، بکر یا زید __ سب مٹی کے پتلوں کے نام ہیں۔ ان سے بڑھنے
اور مٹنے والی نسلیں بھی مٹی ہیں۔حارث کی گود میں بچہ کا ظاہر ، باطن الوجود کا
عکس ہے اور باطن اللہ تعالیٰ کے ودیعت کردہ علوم کا امین ہے۔ ان علوم کے تحت حرکت
ہر زون کے مطابق لباس میں ظاہر ہوتی ہے اور حرکت کے مطابق ہر زون میں لباس تبدیل
ہوتا ہے۔ باطنی وجود اللہ تعالیٰ کے علوم کا امین کیسے ہے؟ باطن میں یہ علوم کہاں
سے آئے __؟
” اور ہم نے آدمؑ کو علم الاسما
سکھائے۔“
(
البقرۃ : ۳۱)
نوع آدم کو علم الاسما عطا کئے گئے
ہیں۔ ان علوم کی فضیلت کے سبب فرشتوں نے آدم ؑ کو سجدہ کیا۔
معمہ : مادی
دنیا میں آنے سے لازماً کچھ ایسا ہوا ہے کہ ظاہر ، باطن کو بھول گیا۔ والدین اور
رشتہ دار بچہ کے پیدا ہونے پر تو اظہار مسرت کرتے ہیں لیکن کوئی اس مقام کا تذکرہ
نہیں کرتا جہاں سے یہ آیا ہے ، اور نہ کوئی پوچھتا ہے کہ بچہ کی اصل کیا ہے۔
کیونکہ ہم خود اپنی اصل سے واقف نہیں ہیں اور لباس کو اصل سمجھتے ہیں۔ جس پیرائے
میں ہم خود کو دیکھنے اور سمجھنے کے عادی ہیں، اسی پیرائے میں دوسروں کو قیاس کرتے
ہیں۔
خود
شناسی کار باشد اے فلاں
کار دیگر
ہیچ و پوچ و ہیچ داں
ترجمہ : اے فلاں ! خود شانسی ہی
اصل کام ہے۔ دوسرے فضول کام ہیں۔
کلمہ طیبہ ، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ
اور حج__
تمام عبادات خود شناسی کا علم دیتی ہیں۔ ان سب میں مشترک نکتہ __ اپنی نفی یعنی لاہے۔ عبادت کوئی بھی
ہو ، رسمی نہیں ہوتی ، اس میں حکمت ہے جس کے بغیر عبادت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔
ایئے ان عبادات میں سے ایک ، روزہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
کہ لا کیا ہے۔
خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی
تعلیمات راہ نمائی کرتی ہیں کہ روزہ دراصل لا کا عملی پروگرام ہے۔ لا
کے معنی نفی کے ہیں۔ جب تک فرد لا یعنی نفی کو اپنے اوپر محیط نہیں کرتا ،
الوژن میں رہتا ہے۔ اسلام کا پہلا رکن کلمہ طیبہ ہے۔
لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ
پہلے اپنی نفی اور پھر خالق کا
اثبات__
اللہ تعالی کے عرفان کا راستہ محبوب رب العالمین حضرت محمد ﷺ کی سیرت پر عمل ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ،
” جس نے اپنے نفس کو پہچانا ، اس
نے اپنے رب کو پہچانا۔“
قلندر شعور ”لا“ کا شعور ہے۔ روزہ
اس شعور کو پانے کی عملی مشق ہے۔ روزہ دار خوشی اور رضا سے معینہ مدت کے لئے ان
عوامل کی نفی کر دیتا ہے جو عام حالات میں جائز اور ضروری ہیں۔ کھانا پینا جائز
اور بنیادی ضرورت ہے۔ روزہ میں مخصوص وقت کے لئے کھانے پینے کی نفی کی جاتی ہے
تاکہ جسم میں کثافت بتدریج کم ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ بھوک کے غلبہ کے بجائے فرد کا
بھوک پر غلبہ ہو جائے۔
افطاری اور سحری متوجہ کرتی ہے کہ
خوراک ضرورت کے تحت لیں ، خوراک کو ضرورت نہ بنایا جائے۔ ذہن کھانے پینے سے ہٹنے
سے احساس ہوتا ہے کہ جسم کی اہمیت ثانوی ہے۔ کم کھانے والا کم بولتا اور کم سوتا
ہے اور کم سونے سے وہ حس بیدار ہوتی ہے جو مادی جسم کے بغیر حرکت کرتی ہے۔
روزہ میں معمول کیا ہوتا ہے__؟ روزہ صبح سے شام اور شام سے صبح تک اللہ سے
تعلق قائم کرنا سکھاتا ہے کہ ہر کام اللہ کے لئے کرو۔ اپنی نفی زندگی کا ترک نہیں
ہے، بلکہ اس زندگی کا ترک ہے جو فطرت کے نظام کے خلاف ہے ، اور یہ مشکل نہیں ہے۔
کم از کم جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اس میں ہر وقت تکلیف ، پریشانی اور مسائل کا سایہ
ہے__
ترک کی زندگی اس زندگی سے آسان ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ جب بندہ ترک کرنا سیکھ لیتا ہے
تو راستہ آسان ہو جاتا ہے۔
ترک کیا ہے __؟ وہ سوچ چھوڑ دینا جس میں اللہ شامل نہیں ہے ۔ ترک یہ نہیں ہے کہ
چیزوں کو چھوڑ دیں بلکہ انہیں اعتدال میں استعمال کریں اور یہ سوچیں کہ جو کچھ
میرے پاس ہے یہاں تک کہ سانس ، سب اللہ کی طرف سے ہے۔
رمضان المبارک میں آدمی کی توجہ
تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوچتا ہے اور اللہ کی مخلوق کو آرام
پہنچانے کی کو شش کرتا ہے ۔ ذات باری تعالیٰ کی طرف توجہ سے جسم کی نفی ہوتی ہے
اور جسم کا تعلق میں سے ہے ۔ کیا اس پروگرام پر عمل سے سکون قائم نہیں
ہوتا؟
عظیمی صاحب نے رمضان المبارک کے
دوران اپنی کیفیت کے بارے میں ایک بار لکھا کہ ،
” آج چھٹا روزہ ہے۔ فجر کی نماز کے
بعد مراقبہ میں دیکھا کہ روزہ دراصل ترک اور نفی ہے۔ یعنی ظاہر الوجود انسان باطن
الوجود انسان کے لئے خود کی نفی کرتا ہے۔ جیسے جیسے نفی کا عمل آگے بڑھتا ہے ،
ظاہر الوجود انسان باطن الوجود انسان میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ جب کوئی انسان باطن
الوجود بن جاتا ہے اور خود کو باطن الوجود میں دیکھ لیتا ہے تو مادی دنیا سے نکل
کر نور کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے ۔ وہ سراغ پا لیتا ہے۔ پتلاظاہر الوجود ہے اور
پتلے کے اندر چابی باطن الوجود ہے۔ چابی ہوگی تو پتلا حرکت کرے گا، چابی نہیں ہوگی
تو پتلا حرکت نہیں کرے گا۔ تیس دن تیس راتوں کے ترک سے انسان ایسے حواس میں داخل
ہو جاتا ہے جن کی رفتار ظاہر الوجود کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے جن کی رفتار ظاہر
الوجود سے ساٹھ گنا زیادہ ہے۔ یہی وہ حواس ہیں جو غیب کی دنیا میں وسیلہ سفر بنتے
ہیں۔ غیب کی دنیا کے مشاہدہ کے بعد انسان کے اوپر کیف چھا جاتا ہے اور یہ سرور و
کیف ہی عید ہے۔ مبارک کے مستحق ہیں وہ سعید بچے اور بزرگ جنہوں نے رمضان کے
پروگرام ترک کو اپنایا ، ظاہر الوجود حواس کی نفی کے لئے جدو جہد اور کوشش
کی۔ اعتکاف کی برکتوں سے مستفیض ہوئے اور اپنے دلوں کو نورانی دنیا کے انوار سے
منور کیا۔“