Topics

عارض

”اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔“

(النور : ۳۵)

احسن الخالقین اللہ کا یہ فرمان کائنات میں روشنی کی سائنس کے میکانزم کو کلی طور پر بیان کرتا ہے۔ سماوات و ارض کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو روشنی سے خالی ہو۔ ہر خلا روشنی سے پُر ہے۔ روشنی کا ذکر دیگر آسمانی کتابوں میں بھی بیان ہوا ہے۔

” اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہوگئی۔“

(توریت  :  کتاب پیدائش ۔ باب ۱ ۔ آیت ۳)

روشنی ، روشنی کی ہیت ، رفتار ، اقسام ۔ عوامل اور خصوصیات کا مطالعہ دورِ حاضر کے علوم کاباب ہے۔ جب تحقیق و تلاش نے روشنی کی اصل جاننے کی کوشش کی تو نیوٹن نے روشنی کو تیز رفتار ذرّات پر مشتمل وجود قرار دیا۔ ایک نوجوان محقق تھامس ینگ نے اس سےمختلف نظریہ پیش کیا کہ روشنی ذرّات کے بجائے لہروں پر مشتمل ہے۔ یہ تکنیکی اور تجربات اعتبار سے نیوٹن کے نظریے سے مستند اور جامع تھا لیکن نیوٹن کی شہرت کی وجہ  سےڈیڑھ صدی تک اس نظریے کو پذیرائی نہ مل سکی۔ بالآخر میکٹول  اور آئن اسٹائن نے نوجوان محقق کے نظریے پر توجہ مرکوز کر کے وہ نظریات پیش کئے جو جدید طبیعات کی بنیاد ہیں۔ تحقیق و تلاش کی دنیا میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ ایک محقق کی شہرت ، کسی غیر معروف محقق کے بہتر اور مدلل نظریات کے فروغ میں رکاوٹ بن گئی ۔ کتابوں میں واقعات اور ثبوت درج ہیں کہ کئی غیر معروف محققین کے کارنامے مشہور محققین سے منسوب کر دیئے گئے تاکہ انہیں زیادہ اہمیت ملے۔

روایت ہے کہ آئن اسٹائن جب ہائی اسکول کا طالب علم تھا تو اس نے استاد سے پوچھا ، جناب اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں تو ہمیں روشنی کی شعاع کیسی نظر آئے گی؟

 استاد محترم تسلی بخش جواب نہ دے سکے کیونکہ نیوٹن کے نظریات کی رو سے ایسی صورت ،

۱۔ روشنی کی شعاع ساکن نظر آئے گی۔

۲۔ حالتَ سکون میں روشنی نظر آنا ممکن نہیں،

۳۔ روشنی نظر آنے کے لئے روشنی کا حرکت میں ہونا ضروری ہے۔

سوال آئن اسٹائن کے لئے پہیلی بن گیا۔تفکر سے اس نتیجے پر پہنچا کہ روشنی کے علاوہ کوئی شے روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتی۔ اس نے کہا ،

” کھلی اسپیس میں جہاں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، روشنی کی رفتار یکساں ہوگی خواہ دیکھنے ساکن ہو، مستقل حرکت میں ہو یعنی حرکت میں تبدیلی واقع ہو رہی ہو۔ خواہ کچھ ہو، روشنی جس رفتار (ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ یا تقریباً تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ) سے سفر کرتی ہے، وہ مستقل رہتی ہے ۔“

یہ رفتار موجودہ طبعی علوم میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کی مدد سے ایٹمی اور نیو کلیائی طبیعات ، کوانٹم طبیعات اور اضافیت کی طبیعات کے قوانین وضع کئے جاتے ہیں۔ ایک طرف محقق اس رفتار کو حتمی مانتے ہیں دوسری طرف مستقبل میں اس رفتار میں تبدیلی کو خارج از مکان قرار نہیں دیتے ۔  ان کے مطابق ایسا ہو گیا تو طبعی سائنس انقلاب سے دو چار ہو جائے گی اور موجودہ نظریات باقی نہیں رہیں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا بتائی گئی رفتار حقیقی ہے؟ اس کی پیمائش کیسے کی گئی؟ کون سا پیمانہ استعمال ہوا اور اس پیمانے کی حیثیت کیا ہے؟ آئن اسٹائن اور دوسرے محقق اس پر کیوں متفق ہوئے؟

روشنی کی رفتار ناپنے کا پہلا تجربہ فرانسیسی ماہر طبیعات Hippolyte Fizeau     نے ۱۸۴۹ ء  میں کیا۔ اس نے گھومتی ہوئی گراری کے دندانوں میں سے شعاع گزاری اور آٹھ کلو میٹر دور پہاڑی پر رکھے آئینے پر منعکس کی۔ گراری کی رفتار بتدریج بڑھائی یہاں تک کہ شعاع ایک دندانے سے گزر کر آئینے سے ٹکرائی اور پلٹ کر اگلے دندانے سے گزرتی ہوئی اس مقام پر پہنچی جہاں سے خارج ہوئی تھی۔ نتیجہ موجودہ  رفتار سے قریب تھا۔ بعد میں نقائص دور کئے گئے اور جس رفتار پر اتفاق ہوا، وہ لگ بھگ تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔

لیکن__ ابھی تک جتنے حساس طریقوں سے روشنی کی رفتار معلوم کی گئی ہے ان میں اس تجربے کی طرح روشنی کی شعاع اپنے منبع سے خارج ہو کر قریب یا دور رکھے آئینے پر منعکس ہوئی ہے۔ ایک تجربہ ایسا نہیں کیا جا سکا کہ جس میں شعاع کو منعکس کئے بغیر شعاع کی حرکت میں خلل ڈالے بغیر روشنی کی رفتار معلوم کی گئی ہو۔

لگ بھگ سو سال سے زائد عرصے سے محقق کوشش میں ہیں کہ وہ شعاع میں خلل ڈالے بغیر روشنی کی رفتار معلوم کر سکیں۔ ۲۰۰۹ ء میں طبعی سائنس کے ایک معتبر جریدے ” امریکن جرنل آف فزکس“ میں مقالہ شائع ہوا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تاہم دنیا بھر کے محققین نے مقالے پر شدید تنقید کی۔ پھر ثابت ہوا کہ دعویٰ غلط تھا۔

( سوال یہ ہے کہ جب محقق موجودہ رفتار کو حتمی مانتے ہیں پھر وہ انعکاس یا خلل کے عمل  کے بغیر روشنی کی رفتار کیوں معلوم کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اپنی تحقیق سے مطمئن نہیں؟ اگر مطمئن نہیں تو اس  رفتارکو بنیاد بنا کر جو نظریات انہوں نے قائم کئے ، اس پر اصرار کیوں ہے؟ کیا رائج نظریے کو اس لئے تسلیم کیا جائے کہ یہ فلاں محقق کی ذاتی رائے ہے؟ جبکہ  تحقیق خود اس قاعدے کی پابند ہے کہ جب تک کوئی امر تجرباتی طور پر ثابت نہ ہو،ا سے  تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔(

کائنات میں ایتھر کا وجود   :  میکسویل اور آئن اسٹائن سے قبل برقی مقناطیسی لہروں یعنی روشنی کی حرکت کی  وضاحت جس نظریے کے تحت کی جاتی تھی، اس کی رو سے کائنات میں ہر جگہ انتہائی لطیف سیال  (Liquid)   بھرا ہوا ہے جسے انہوں نے ایتھر کا نام دیا۔ ایتھر میں ارتعاش (Vibration)  کو روشنی کی لہریں اور حرکت قرار دیا گیا۔ ایتھر کا ہر قسم کی روشنی اور مادے سے لطیف ہونا ضروری تھا اور یہی خصوصیت اس نظریے کی جان تھی مگر اس نظریے کو رد کر دیا گیا۔کیوں؟

بیان کیا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن پہلا محقق تھا جس نے ایتھر کے نظریے کو مسترد کیا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ایتھر کو پوری کائنات میں موجود تصور کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ کائنات ایک غیر مادی وجود کی وجہ سے مربوط ہے۔ آئن اسٹائن اپنی رائے ثابت نہ کر سکا۔

 مائیکلسن اور مورلے کا تجربہ  :    ۱۸۸۷   ء میں دو امریکی محققین نے پتھر کی سل ، پارے کے تالاب پر رکھی تاکہ سل ہر سمت گھمائی جا سکے۔ سل کے اوپر مخصوص ترتیب میں روشنی (ٹارچ وغیرہ) ، چند آئینے اور دور بین رکھی۔ روشنی کو آئینوں کی مدد سے شعاعوں میں تقسیم کیا پھر ان شعاعوں کو دور بین میں یکجا کیا۔ ایک شعاع کی حرکت کی سمت زمین کے اپنے مدار میں حرکت کے متوازی رکھی جبکہ  دوسری شعاع کی سمت اس کے مخالف تھی۔ معلوم یہ کرنا تھا کہ اگر ایتھر کائنات میں موجود ہے تو اس کی کوئی ہیت ہوگی ۔ بہاؤ ہوگا۔ بہاؤ کی وجہ سے جب روشنی اس فضا میں سفر کرے گی تو روشنی کی رفتار میں خلل واقع ہو گا لہذا ایتھر کی فضا میں شعاعوں کی حرکت اور رفتار ایک جیسی نہیں ہونی چاہیئے۔ انہوں نے اپنے تئیں فرض کر لیا کہ شعاعیں تعطل کے بغیر دور بین کے عدسے تک پہنچی ہیں لہذا کائنات میں ایتھر ( انتہائی لطیف سیال) نام کی کوئی شے موجود نہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ مطلب یہ ہے کہ روشنی کو مخصوص رفتار تک محدود کرنا دراصل شعور کی محدودیت کو بیان کرنا ہے کیونکہ جو شعور روشنی کی رفتار ناپنے میں مصروف ہے، وہ خود اور زیر استعمال آلات مادی لباس میں قید ہیں۔ مٹی کے شعور اور پیمانوں سے روشنی کو کیسے ناپ سکتے ہیں؟ روشنی کو سمجھنے کے لئے روشنی کے شعور کا ہونا ضروری ہے۔

ایتھر کےبارے میں ابدالِ حق قلندر بابا اولیاء ؒنے جو فرمایا ہے اس کا خلاصہ پڑھئے۔

”بیسویں صدی کے نصف میں ایتھر سے انکار سے پہلے لوگوں کا مفروضہ تھا ۔ اس دورکے محقق کو خیال ہوا کہ ایتھر کی جگہ روح نہ لے لے۔ وہ اس بات کو پہلے ہی نظر انداز کر چکے تھے کہ باطن سے روشنی خارج میں دیکھتی ہے۔ نئے نظریات کی  رو سے ان کا ماننا ہے کہ خارج سے روشنی آنکھوں میں داخل ہو کر دماغ کی اسکرین پر شبیہ بناتی ہے۔“

اقتباس میں محقق کے رویے ، مفروضے اور تحقیق کے اصل پہلو کو جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

تحقیق و تلاش نے جس کو ایتھر یا لطیف ترین سیال کا نام دیا ہے ، وہ کیا ہے خود ان کو نہیں معلوم۔آیا وہ سیال ہے یا نہیں ، انہوں نے نہیں دیکھا ۔ کسی شے کا محض اس بنیاد پر انکار دانش مندی نہیں کہ وہ ہمیں نظر نہیں آتی۔

مثال :    کمرے میں فرنیچر نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ کمرا خالی ہے۔ اگر وہاں کچھ نہیں تو چھت ، فرش اور دیواروں کے درمیان جو فاصلہ ہے ۔ وہ کیا ہے؟ کچھ نہ ہونے کا مطلب یہ ہونا چاہیئے کہ دیوار چھت اور فرش مل کر ایک جسم بن جائیں۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس جسم کا بھی کوئی حجم ، لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی ہے۔ جب خالی اور ٹھوس دونوں اجسام کی پیمائش کی جا رہی ہے پھر دونوں میں فرق کیا ہوا؟ لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی ایک سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے اور تیسرے سے چوتھے نقطے تک دوری ہے۔ دوری قائم نہ رہی تو کائنات نقطے میں سمٹ جائے گی۔ چنانچہ دوری کے اظہار کو ہم خلا ، اسپیس ، ایتھر یا کوئی او ر نام دیں ، وہ موجودات کے مظاہرے کی بساط ہے۔

قرآن کریم میں روشنی کا تعارف رائج تصورات سے مختلف اور لامحدود ہے۔ کائنات پر ہر لمحہ نور محیط ہے۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک نور کے پھیلنے میں ذرّہ بھر تاخیر واقع نہیں ہوتی ورنہ کائنات ختم ہو جائے گی لہذا روشنی کی رفتار کی مادی پیمانوں سے پیمائش ممکن نہیں۔

تحقیق و تلاش (سائنس) کہتی ہے کہ روشنی بیک وقت ایک لہر اور ذرّے کے طور پر حرکت کرتی ہے ۔ لہریں ذرّے کی شکل میں بند ہیں جنہیں لہروں کے پیکٹ یا فوٹان کہا گیا ہے۔ یہ ذرّات مادی وجود نہیں رکھتے ، لہروں کی مخصوص توانائی پر مشتمل ہیں اور تقریباً تین لاکھ کلو میٹر سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتے ہیں۔ اس نظریے کو فی الوقت روشنی کا سب سے بہتر نظریہ تسلیم کیا گیا ہے۔

قارئین ۔۔ اب روشنی سے متعلق روحانی سائنس کا نظریہ پڑھئے ۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں ،

”تصوف میں ایٹم کو نسمہ کہتے ہیں اور تصوف میں فوٹان کو جو نام دیا گیا ہے وہ ”عارض“ ہے۔ یہ دونوں نام اس لئے لکھے ہیں کہ آپ کو علم ہو جائے کہ تصوف میں یہ دونوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں جن کے معانی فوٹان اور ایٹم پورے نہیں کر سکتے مگر مثال دینے کے لئے مجبوراً فوٹان اور ایٹم استعمال کئے گئے۔ نسمہ ایٹم سے قریب تر ہے۔ تفصیل یہ ہورہی ہے تھی کہ اینڈ رو میڈا تک فرق نہیں نکالا گیا تھا کہ ایٹم اور فوٹان الگ الگ ہیں۔ فوٹان کے خواص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ڈائی مینشن نہیں ہوتے اور وہ اتنے تیز رفتار ہوتے ہیں کہ جہاں سے رواں ہوئے ، پل بھر میں کائنات کا چکر لگا کر واپس وہیں آجاتے ہیں۔ یہ حقیقت میں عارض کی خاصیت ہے۔ فوٹان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ سائنس دانوں نے کیا فیصلہ کیا ہے مگر عارض کے بارے میں یہ بات یقینی ہے کہ وہ جس جگہ سے جس پل میں چلتا ہے اسی پل میں کائنات کا دورہ پورا کر کے اپنی جگہ پہنچ جاتا ہے۔ فوٹان کی تعداد سے پوری کائنات بھری پڑی ہے۔“

ہر فرد دوسرے فرد سے روشنی کی وساطت سے ہم رشتہ ہے۔ اگر افراد ِ کائنات کے باہمی رشتے میں لمحے کا بھی وقفہ ہو جائے ، کائنات کا وجود قائم نہیں رہ سکتا۔ عارض جس کو محقق فوٹان کا نام دیتے ہیں، کی یہ خصوصیت ہے کہ کائناتی فاصلے اس کے لیے موجود نہیں ، یہ ہرگوشے میں ہر وقت موجود ہے۔ اس کی رفتار کی پیمائش کسی مادی آلے سے ممکن نہیں اور نہ آدمی کے باس کی بات ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ محقق نے ابھی تک روشنی نہیں دیکھی ، روشنی کو رنگ میں دیکھا ہے۔ لہذا روشنی کی جو رفتار بیان کی گئی ہے وہ مفروضہ ہے اور مفروضے پر تحقیق کا نتیجہ مفروضہ ہوتا ہے۔ حقیقی رفتار نور کے مشاہدے کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی۔۔


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم