Topics
بدقسمتی سے اس نادر کتاب
کے جو نسخے باقی بچے وہ کسی مسلمان ملک یا محقق کی تحویل میں نہیں ہیں۔ ایک نسخہ
فرانس کی سٹراس برگ لائبریری میں ہے جب کہ میڈرڈ (اسپین) کی قومی لائبریری میں اس
کا لاطینی ترجمہ موجود ہے۔ دونوں نسخوں میںسے زمین کے نقشے اور تصویری صفحات غائب
ہیں۔
ارض و سما کی تخلیق ، آسمانوں کا بغیر ستونوں کے قیام، سورج
اور چان کا مقرر راستے پر چلنا ، زمین کی گردش اور بے شمار نشانیاں تفکر کے اسباق
ہیں۔
” وہ اللہ ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمانوں کو جیسا
کہ تم دیکھتے ہو اونچے بنائے۔
پھر عرش پر جا ٹھہرا اور سورج اور چاند کو کام میں
لگا دیا۔ ہر ایک معین میعاد تک
گردش کر رہا ہے۔ وہی کاموں کا انتظام کرتا ہے۔ وہ
اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا
ہے تاکہ تم اپنے پرور دگار سے ملاقات کا تعین کرو۔“ (الرعد : ۲)
گیارہویں صدی عیسوی کے معروف مسلم محقق ابو ریحان محمد بن
البیرونی قرآن کریم کی کائنات میں تفکر کی دعوت سے بہت متاثر ہوئے اور تحقیق و
تفکر میں عمر گزار ی۔ 140 کتابیں لکھیں جن میں سے بیش تر ضخیم اور موجودہ تحقیقی و
تلاش کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ابو ریحان البیرونی ، معروف طبیب و محقق
ابنِ سینا کے ہم عصر تھے۔ دونوں کے درمیان ایک علمی مکالمے کو بڑی شہرت ملی۔
البیرونی کے بڑے کارناموں میں سورج اور چاند گرہن سے متعلق صحیح اندازے ، وقت کی
درست پیمائش ، جغرافیہ کو
ریاضی کے ذریعے سمجھنے کی
کوشش ، جیومیٹری، علمِ پیمائش ارضِ، علمِ فلکیات اور اطلاقی ریاضی سے متعلق بیش
بہا تحقیقات ہیں۔ دیگر محققین کی طرح البیرونی کی تحقیق وقت گزرنے کے ساتھ رد یا
ترک نہیں ہوئی بلکہ معمولی کمی بیشی کے ساتھ آج بھی تسلیم کی جاتی ہے۔
دورِ رفتہ کے مسلم محققین کا یہ پہلو کہ ان کی تحقیق وقت
گزرنے کے ساتھ رد نہیں ہوئی بلکہ مزید تحقیقات کی بنیاد بنی ، انہیں دیگر محققین
سے ممتاز کرتا ہے۔ دراصل مسلم محققین کی اکثریت نے تحقیق کی بنیاد قرآن کریم کو
بنایا جو شک و شبہ سے پاک ہے۔
البیرونی کے سر زمین
پاکستان میں تجربات :
ابو ریحان البیرونی کے عظیم کارناموں میں ایک زمین کے محیط
اور قطر کی درست پیمائش ہے۔ ہزار سال پہلے معلوم کی گئی پیمائش اس قدر درست ہے کہ
موجودہ سائنس کی رو سے اس میں زیادہ سے زیادہ دو فی صد غلطی کا امکان ہے۔سوال
یہ ہے کہ اس بارے میں موجودہ تحقیق کے سو فی صد درست ہونے کا پیمانہ کیا ہے؟ کس
بنیاد پر طے کیا گیا کہ البیرونی کی تحقیق میں دو فی صد غلطی کا امکان ہے؟
البیرونی ، سلطان محمود غزنوی کی حکومت میں سرکاری ماہر
فلکیات تھے۔ جب محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملے کئے تو البیرونی کو اس خطے کے
جغرافیہ اور تہذیب کے مطالعے کا موقع ملا۔ انہوں نے کوہستان ِ نمک کے مقام نند نا
( ضلع جہلم ، پنجاب) میں پہاڑ کی چوٹی پر تجربہ گاہ قائم کی اور زمین کے محیط اور
قطر کی آج کے علوم کے اعتبار سے درست پیمائش کی۔
البیرونی نے تحقیق کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیوں کیا۔۔۔؟ وہ
خوارزم ( موجودہ ازبکستان) میں پیدا ہوئے جس کے ایک طرف ہمالیہ کی مغربی اور بلند
پہاڑوں کی شاخ ہندو کش ہے۔۔ دوسری طرف افغانستان و ایران کے شمالی پہاڑی سلسلے
ہیں۔ البیرونی اس خطے میں مختلف حکمرانوں کے دور میں اعلیٰ اور علمی تحقیقی اور
علمی عہدوں پر فائز رہے۔ اس خطے میں کوہستان ِ نمک سے بلند اور وسیع پہاڑی سلسلے
ہیں پھر یہی علاقہ کیوں۔۔۔؟
مصنوعی سیارچوں کی مدد سے مرتب کردہ ارضی نقشے اور ارضیاتی
سائنس کی تحقیقات وضاحت کرتی ہیں کہ البیرونی نے محض اتفاق یا موقع وضاحت کرتی ہیں
کہ البیرونی نے محض اتفاق یا موقع ملنے پر اس علاقے کا انتخاب نہیں کیا بلکہ ان کا
انتخاب یہاں کی منفرد و جغرافیائی خاصیت کی بنا پر ہے۔
خوارزم ، ایران اور افغانستان کے علاقے جس ارضیاتی پلیٹ پر
واقع ہیں وہ یوریشین پلیٹ کہلاتی ہے۔ پاکستان کے تقریباً تمام پہاڑی علاقے اس پلیٹ
پر موجود ہیں لیکن پاکستان کے دریائی دو ابی میدان ، دریائے سندھ کے بالائی وزیریں
میدان اور ہمالیہ سے نیچے جنوب کی طرف کی طرف ہندوستان اور بنگلہ دیش کا علاقہ جس
ارضیاتی پلیٹ پر واقع ہے وہ انڈین پلیٹ کہلاتی ہے۔
کوہستانِ نمک شرقاً غرباً تقریباً تین سو کلو میٹر طویل ہے ،
چوڑائی آٹھ سے 30 کلو میٹر جب کہ اوسط بلندی 670 میٹر ہے۔ سکیسر کے مقام پر بلندی
1522 میٹر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ اور اس کے شمال اور مغرب کا علاقہ
یوریشین پلیٹ کا حصہ ہیں جب کہ جنوب اور مشرق کی طرف بحیرہ عرب تک میدانی علاقہ
اور ہندوستان، انڈین پلیٹ کا حصہ ہیں۔
جغرافیہ : ضلع منڈی بہاء الدین کے شمال میں دریائے جہلم شر
قاً غرباً بہتا ہے۔ آپ دریائے جہلم پر واقع رسول بیراج کے پل کے جنوبی حصے منڈی
بہاء الدین میں کھڑے ہیں یعنی آپ انڈین پلیٹ پر کھڑے ہیں۔ دریا عبور کر کے شمالی
کنارے سے گزر کر دو تین کلو میٹر آگے بڑھیں تو کوہستانِ نم کے پہاڑ شروع ہوتے ہیں۔
پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچتے ہی آپ یوریشین پلیٹ پر ہوں گے۔
پل سے شمال کی جانب ضلع جہلم ہے۔ جہلم میں کوہستان ِ نمک کے
عین دامن میں چھوٹا گاؤں ہے جس کا نام ” باغاں والا “ ہے۔ گاؤں نصف پہاڑ اور نصف
میدان پر ہے۔ شمال کی جانب چند سو میٹر کے فاصلے پر واقع پہاڑی چوٹی پر نندنا قلعے
کے کھنڈارات کے ساتھ وہ مقام ہے جسے البیرونی نے تجربہ گاہ بنایا۔
راقم الحروف کو اس جگہ جانے کا موقع ملا۔ پہاڑ کی چوٹی جہاں
سے البیرونی نے زمین کے محیط اور قطر کی پیمائش کی ، کھڑے ہو کر جنوب کی طرف دیکھا
جائے تو بغیر کسی رُکاوٹ کے تا حدِ نظر افق تک وسیع میدان نظر آتا ہے۔ یعنی فرد
یوریشین پلیٹ پر کھڑا ہے جو بلندی پر ہے جب کہ جنوب کی سمت ( پستی کی جانب) جو
میدان تا حدِ نظر سامنے ہے ، وہ انڈین پلیٹ ہے۔
ارضیات (geology) کی رو سے اس منظر کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ پہاڑ کے دامن سے شروع
ہونے والے میدان کی سطح جنوب میں بحیرہ عرب تک مسلسل کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ پہاڑ کی
چوٹی سے دور جنوب کی جانب نظر آنے والی افقی لکیر دراصل زمین کا کروی خم ہے۔ اس
طرح زمین کے افق یا کروی خم کے مشاہدے کے لیے یہ بہترین مقام ہے کیوں کہ اس مقام
سے شروع ہونے والی ارضیاتی پلیٹ ( انڈین پلیٹ) سطح سمندر تک درجہ بدرجہ نیچے جا
رہی ہے۔
س: البیرونی نے یہاں سے
زمین کا قطر اور محیط ناپنے کے لیے کس فارمولے کا انتخاب کیا؟
ج: انہوں نے اُسطر لاب × کی مدد سے زمین کے افق کے ساتھ بننے والے زاویہ
نزول(dip angle) کی مقدار معلوم کی پھر ٹرگنو میٹری کے فارمولے قانون الجیب (law of sines) میں اس
مقدار کو استعمال کر کے زمین کا قطر اور محیط معلوم کیا۔ یہ ماضی میں اختیار کئے
گئے طریقوں سے مختلف اور درست طریقہ تھا۔
اس سے قبل زمین کے دو مقامات پر دھوپ سے بننے والے سایوں اور
ان کے زاویوں کے درمیان فرق کی پیمائش کی جاتی تھی جس کے لیے محققین کی دو ٹیمیں
ہونا ضروری تھیں۔ وہ معلومات کا تبادلہ کرتیں پھر زمین کے محیط اور قطر کو جاننے
کے لیے ریاضی کے فارمولوں کا اطلاق کیا جاتا ۔ اس طریق پر پیمائشوں میں موجود سائنس
کے حساب سے 15 فی صد غلطی کا امکان ہوتا ہے۔
البیرونی کے طریق ِ کار کی دوسری خوبی یہ ہے کہ تجربے کے لیے
ایک فرد کافی ہے، مدد گاروں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ قابلِ ذکر ہے کہ جو آلہ (اُسطر
لاب) استعمال کیا گیا ، وہ ان کے دور سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل مسلم ریاضی دان اور
ماہرِ فلکیات ابن خاتم النیریزی نے ایجاد کیا تھا۔
موجودہ دور کے تمام شعبوں کے محقق البیرونی کی خدمات کے معترف
ہیں اور انہیں غیر معمولی ذہانت کا حامل سائنس دان قرار دیتے ہیں۔
× اسطر لاب (ستاروں کی بلندی ، رفتار ، مقام ، گردش اور فاصلہ
دریافت کرنے کا آلہ)
} پاکستان میں طالبات و طلبا کو موقع ملے تو اس تجربہ
گاہ کا اساتذہ کے ہمراہ مطالعاتی دورہ کریں تاکہ انہیں اپنے وطن کی حیرت انگیز
جغرافیائی اور سائنسی اہمیت کا ادراک ہو اور وہ مسلمان محققین کے کارناموں سے واقف
ہوں۔{
ابو ریحان البیرونی مشاہدے کے بغیر قائم کئے جانے والے
مفروضات اور فلسفوں کے خلاف تھے۔ اپنی کتب میں بار ہا اس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں
نے ابنِ سینا سے مکالمے میں یونانی فلسفی ارسطو کے نظریات پہ سخت تنقید کی کہ اس
نے مشاہدے کے بجائے قیاس پر تکیہ کیا۔
البیرونی سے پہلے اور بعد کے مسلم محققین نے بھی مشاہدے کو
اہمیت دی۔ معروف مسلم ریاضی دان اور محقق محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے یونانی
فلسفیوں اور محققین کے مفروضات رد کئے اور مشاہداتی بنیادوں پر سائنسی اور
ریاضیاتی قوانین متعارف کروائے جو آج بھی جدید طبیعات اور ریاضی میں ریڑھ کی ہڈی
کی حیثیت رکھتے ہیں۔
الخوارزمی نے یونانی محقق بطلیموس کے بنائے گئے زمین کے نقشے
میں غلطیوں کی نہ صرف نشان دہی کی بلکہ براعظموں اور سمندروں کا صحیح نقشہ پیش
کیا۔ موجودو محقق اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
مسلمان محققین نے دنیا کی تمام تہذیبوں کے سائنسی علوم کا
جائزہ لیا۔ قیاس و مفروضات کو باہر کیا اور تجربات و مشاہدات اور تحقیق کے اعلیٰ
طریقِ کار سے سائنسی علوم میں روح پھونکی۔ موجودہ علوم کی بنیاد بلاشبہ مسلمان
محققین کی جہد ِ مسلسل کی مرہون ِ منت ہے۔
مسلمان محققین کی نمایاں
خصوصیات :
الخوارزمی ، البیرونی ، ابنِ سینا ، النیریزی ، طوسی ، الجاحظ
اور دیگر جنہوں نے تحقیق و تفکر کو انفرادی عمل کے بجائے بے مثال تحریک کی شکل دی،
ان کی تحقیق کا محرک کیا تھا کیوں کہ اتنی منظم اور مسلسل علمی تحریک کی مثال
ڈھونڈنا محال ہے۔
ان کی کتب اور دستاویزات میں جو طرزِ مشترک ہے وہ یہ کہ کتب
کے آغاز میں موضوع کے اعتبار سے قرآنی آیا اور ان سے اخذ کردہ نکات درج ہیں۔ بعض
میں احادیث کا بھی ذکر ہے۔ متن میں تحقیقات اور تجربات کے ذکر کو بار بار قرآنی
آیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آخری صفحات میں کاوش اور جدو جہد کو
اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ انعام سمجھ کر اس کا شکر ادا کیا گیا ہے اور ممکنہ بشری
خطاؤں پر معذرت طلب کی گئی ہے۔
زمین کی شکل و
صورت : عام خیال ہے کہ زمین گیند نما ہے۔ سائنسی جریدوں ، رسائل ، کتابوں اور
فلموں میں گول شکل دکھائی جاتی ہے۔ سیٹلائٹ سے حاصل شدہ تصاویر اور خلا باز بھی
یہی بتاتے ہیں۔ زمین کی شکل کے بارے میں کئی نظریات ہیں تاہم ماہرین ارضیات کسی
ایک تصور کو حتمی قرار نہیں دے سکے۔
٭ مشہور نظریہ
گیند نما ہے۔
٭ دوسرے نظریے کے
مطابق زمین قطبین سے پچکی ہوئی اور استوار پر قدرے باہر نکلی ہوئی ہے۔
٭ تیسرا نظریہ
کہتا ہے زمین کا محیط بیضوی ہے۔
٭ بعض ماہرین کے
نزدیک حقیقت سے قریب تر نظریہ ناشپاتی یا پپیتا نما ہونا ہے۔
ناشپاتی اور پپیتا تقریباً ہم شکل ہیں۔ دونوں کی شکل بیضوی
ہے۔ گیند نما شکل کے نظریے کو اس وجہ سے عام کر دیا گیا ہے کہ گیند کا قطر اور
محیط معلوم کرنا ، اس پر خطوط عرض بلد اور طول بلد کا اظہار دیگر اشکال سے آسان
ہے۔
محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے معرکہ آرا تصنیف ' صور ۃ الارض “
میں یونانی جغرافیہ دان بطلیموس کے وضع کردہ زمین کے نقشے کو رد کر کے صحیح نقشہ
مرتب کیا اور شکل وصورت کی تصویری وضاحت کی۔ بدقسمتی سے اس نادر کتاب کے جو نسخے
باقی بچے وہ کسی مسلمان ملک یا محقق کی تحویل میں نہیں ہیں۔ ایک نسخہ فرانس کی
سٹراس برگ لائبریری میں ہے جبکہ میڈرڈ (اسپین ) کی قومی لائبریری میں اس کا لاطینی
ترجمہ موجود ہے۔ دونوں نسخوں میں سے زمین کے نقشے اور تصویری صفحات غائب ہیں۔ یہ
کتاب یورپی اقوام اور محققین کے لیے خزانہ ثابت ہوئی۔ اس کی مدد سے سمندروں اور
براعظموں کو کھنگال ڈالا۔ جغرافیہ دان اور جہاز ران کرسٹوفر کولمبس نے مسلمان
محققین کی تحقیق کی روشنی میں زمین کا نقشہ ترتیب دیا اور اس کی تصویر بنائی۔ تصویر
میں زمین پپیتے کی طرح ہے۔
روحانی نظریہ : روح انسان
کی اصل ہے۔ روح کی صلاحیتیں لا محدود ہیں۔ ان صلاحیتوں سے حاصل ہونے والے تجربات و
مشاہدات شک اور شبہ سے پاک ہیں۔
عظیم روحانی سائنس دان ابدال ِ حق قلندر بابا اولیا ء رحمتہ
اللہ علیہ زمین سے متعلق فرماتے ہیں،
۱۔ زمین پپیتے
کی طرح ہے اور Six Screen Dimension ہے۔
۲۔ زمین محوری
اور طولانی گردش میں لٹو کی طرح گھوم رہی ہے۔ ہر 10 ہزار سال کے بعد زمین کی belt تبدیل
ہوتی ہے۔ پانی کی جگہ ابادیاں بن جاتی ہیں اور آبادیں زیرِ آب اجاتی ہیں ، اور اس
کی ابتدا ہو چکی ہے۔
۳۔ زمین دراصل
آدم و حوا کا شعور ہے جو ارتقا کی طرف گامزن ہے۔