Topics
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے،
” بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے باہم
تبدیل ہونے میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں۔“ (آل
عمران : ۱۹۰)
کائنات میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی شے میں
نشانیاں ہیں جو غیر جانب داری سے تفکر کرنے والے فرد پر یقین اور علم و معرفت کے
دروا کرتی ہیں۔ آسمانی دنیا ہو ، روشنی کا زون ہو یا ہماری زمین __ہر تخلیق خالق و
مالک ، احد و صمد اللہ تعالیٰ کا پتہ دیتی ہے کیوں کہ ہر شے اللہ کی طرف سے ہے اور
اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔
کرہ زمین میں آدمی کی شماریات سے زیادہ مخلوقات جنگل ، پہاڑ
، ریگستان ، سطحِ مرتفع اور وسیع و عریض میدان سب کی بنیاد ذرّات ہیں۔ ذرّات مزید
چھوٹے ذرّات سے مل کر بنے ہیں۔ یہ چھوٹے ذرّات روشنی کے تانے بانے سے مرکب ہیں۔
ذرّات آپس میں پیوست اور یک جان ہو کر کہیں چٹانوں او ر
پہاڑوں کی شکل اختیار کرتے ہیں تو کہیں بکھر کر ریگستان کا منظر پیش کرتے ہیں۔
کہیں آدمی ، چوپائے یا درخت بنتے ہیں اور کہیں ایجادات اور صنعت کے طور پر ظاہر
ہوتے ہیں۔
مادہ کی ظاہر خصوصیات میں ٹھوس پن ، مائع ، گیسی حالت ،
جمود ، وزن ، حجم ، کثافت اور تغیر شامل ہے۔ یہ سب مزاحمت اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے
گزرتے ہیں۔ جب کہ مادہ کے انتہائی چھوٹے ذرّات یعنی ایٹم اور ایٹم کے ذیلی ذرّات
کی دنیا (realm quantum) میں ایسے عوامل کار فرما ہیں جو مادہ کی
عام خصوصیات سے قطعاً مختلف ہیں۔ یہ عوامل اور مظاہر نشانیاں ہیں جو نوع آدم کو
مادہ کے خول سے نکل کر روشنی اور نور کی دنیا میں داخل ہونے کی دعوت دیتی ہیں۔
ایٹم کے ذیلی ذرّات میں ممتاز ذرّہ الیکٹران ہے۔اگرچہ ایٹم
کا وجود تمام ذیلی ذرّات کے مشترکہ خواص پر قائم ہے لیکن ایٹم کا بیرون ، الیکٹران
پر مشتمل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر قسم کا ایٹم الیکٹران کے غلاف میں بند ہے۔ نیو
کلیائی تعاملات (Reactions) اور تقریباً تمام کیمیائی اور طبعی مادی
خواص الیکٹران کی مر ہونِ منت ہیں۔ گویا ماحول اور ہمارے جسم کا مادہ مختلف عناصر
یعنی متفرق اقسام کے ایٹموں پر مشتمل ہے مگر ہم زندگی الیکٹران کے زیرِ اثر گزارتے
ہیں جو ایٹم کا بیرونی حصہ ہے۔
حواس خمسہ کا دارومدار الیکٹران پر ہے۔ الیکٹران کی خصوصیات
اور طرزِ عمل حیرت انگیز اور دلچسپ ہیں۔ اگر کسی طریقہ سے الیکٹران کی خصوصیات کسی
بڑے حجم میں متحرک کر دی جائیں تو بڑے حجم کی شے کائنات میں پلک جھپکتے کہیں بھی
منتقل کی جا سکتی ہے۔
الیکٹران کی خصوصیات کی مختصر تفصیل یہ ہے۔
الیکٹران کہاں ہے__؟
ہائیڈروجن کا ایٹم سادہ ترین ہے۔ مرکز میں ایک پروٹان اور
اس کے گرد ایک الیکٹران محو گردش ہے لیکن گردش دائرہ یا بیضوی مدار میں ہرگز نہیں
بلکہ پروٹان کے گرد ایک کرہ کی صورت میں ہورہی ہے۔ گردش کے کروی مدار کی
کوئی واضح حدود نہیں، یہ مرکزہ ( نیوکلس) کے گرد دھند کی شکل میں پھیلی ہوئی ہے۔
یعنی اگر ہم ہائیڈروجن کے الیکٹران کو تلاش کرنا چاہتے ہیں تو وہ مرکزہ کے گرد
دھند لے کرہ میں کسی لمحہ کہیں بھی ہو سکتا ہے۔
اگر ہم مرئی روشنی میں الیکٹران کو دیکھنا چاہیں تو نہیں
دیکھ سکتے کیوں کہ الیکٹران کا حجم مرئی روشنی کے طول موج سے بھی چھوٹا ہے۔اگر
چھوٹے طول موج اور زیادہ فریکوئنسی کی روشنی استعمال کی جائے تو اس روشنی کی
توانائی سے الیکٹران کا مقام اور حرکت کا حتمی تعین نہیں کر سکتے۔ محققین نے اس
عجز کو ایک قانون سے ظاہر کیا ہے کہ الیکٹران کا مقام ( پوزیشن) اور حرکت کی رفتار
( مومینٹم) بیک وقت معلوم نہیں کی جاسکتی۔
سوال : اگر الیکٹران کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا
تو مادی حواس ہمہ وقت جو دیکھتے، سنتے یا چکھتے ہیں وہ سب کیا ہے؟ کیا ہم الیکٹران
سے براہ راست مخاطب ہو سکتے ہیں__؟
الیکٹران کیا ہے__؟
اگر الیکٹران مادی ذرّہ ہے پھر خاص مقام پر اس کی نشان دہی
کیوں نہیں کی جا سکتی؟ وجہ یہ ہے کہ الیکٹران ہمہ وقت حرکت پذیر ہے اور یہ حرکت
بالکل سیدھی یا دائرہ میں نہیں بلکہ سائن ویو ( ) کی صورت میں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
محققین کہتے ہیں کہ الیکٹران کا طرز عمل دہرا ہے۔ بعض حالات
میں یہ ذرّہ جب کہ بعض میں لہر کی خصوصیات ظاہر کرتا ہے۔ الیکٹران میں موجود مقدار
سے واضح ہے کہ الیکٹران مادی ذرّہ ہے جو لہر کی شکل میں حرکت کرتا ہے۔ اسی طرح
فوٹان وہ ذرّہ یا شے ہے جس میں بظاہر مادی مقدار اور ابعاد نہیں البتہ توانائی
موجود ہے۔ لیکن محض توانائی پر مشتمل ہونے کے باوجود ذرّہ اور لہر دونوں کی
خصوصیات فوٹان میں موجود ہیں۔ قرآن کریم میں ہر شے کی دہری نوعیت کی سائنس کو بیان
کیا گیا ہے۔ خالق کائنات فرماتے ہیں،
”اس نے ہر طرح کے ثمرات کے جوڑے دہرے پیدا کئے ہیں۔“ (الرعد : ۳)
الیکٹران اور کوانٹم سرنگ :
کیا مادی وجود کا کائنات میں ایک جگہ سے اچانک غائب ہو کر
بظاہر بغیر کسی وقفہ کے ، دور دراز یا نزدیک جگہ پر صحیح سلامت ظاہر ہونا ممکن
ہے__؟
مثال کے طور پر طالب علم ٹینس کی گیند دیوار پر مسلسل مارتا
ہے۔ گیند دیوار سے ٹکراتے ہوئے پلٹتی ہے اور دوبارہ طالب علم کے ہاتھوں میں چلی
جاتی ہے۔گیند دیوار سے خواہ کتنی مرتبہ کیوں نہ ٹکرائے، ایسا نہیں ہوتا کہ دیوار
کے دوسری طرف نکل جائے اور دیوار اپنی حالت میں برقرار رہے۔ ہزاروں لاکھوں بار
گیند کے ٹکرانے سے ایک مرتبہ بھی توقع نہیں کی جا سکتی کہ گیند دیوار کی رکاوٹ بیک
جنبش ابرو پار کر کے دوسری طرف نکل جائے__ لیکن الیکٹران کی سطح پر ایسا ممکن ہے۔
متحرک الیکٹران کے سامنے رکاوٹ ہو تو زیادہ امکان ہے کہ
الیکٹران رکاوٹ سے ٹکرا کر پلٹ آئے اور یہ عمل جاری رہے لیکن یہ امکان بہرحال
موجود رہے گا کہ الیکٹران رکاوٹ توڑ کر دوسری طرف منتقل (teleport) ہو سکتا ہے
اور ایک مقام سے غائب ہو کر کائنات میں کہیں بھی دوسرے مقام پر ظاہر ہو سکتا ہے۔
الیکٹران کا رکاوٹ کو غیر معمولی طریقہ سے عبور کرنا tunneling
effect کہلاتا ہے۔
۱۔ الیکٹران اور دوسرے ایٹمی ذرّات کا ایک نقطہ سے غائب ہو
کر دوسرے نقطہ پر ظہور کیا غیر مادی صلاحیت اور عمل کا اظہار نہیں ہے؟
۲۔ کیا ہم الیکٹران اور دوسرے ایٹمی ذرّات کی غیر معمولی
صلاحیتوں کو تصرف میں لا کر بڑے مادی اجسام کو کہیں بھی منتقل کر سکتے ہیں؟
۳۔ اس غیر معمولی صلاحیت کا حصول کیسے ممکن ہے؟
محققین نے کسی حد تک دریافت کیا ہے کہ ان ذرّات میں ایک
مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہونے کی غیر معمولی صلاحیت ہے لیکن اس صلاحیت پر تصرف
کیسے ہو، یہ بات ابھی سائنس کی حدود سے باہر ہے!
کائنات کی ہر خشک وتر شے کا علم قرآن کریم میں موجود ہے۔
حضرت سلیمانؑ اور ملکہ بلقیس کے تخت کو حاضر کرنے کا واقعہ قرآن کریم میں ہے۔
وہ کون سا علم ہے جس کے تحت بھاری بھر کم تخت پلک جھپکنے سے
بھی کم وقفہ میں سینکڑوں میل دور صحیح و سالم منتقل کیا گیا؟
ایٹم ، الیکٹران ، پروٹان اور نیوٹران وغیرہ کی دریافت کو
ڈیڑھ سو سال بھی مکمل نہیں ہوئے جب کہ آفاقی اسرار و قوانین کے علوم ہر دور میں
الہامی کتب میں بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن کریم کا ئناتی فارمولوں کے علوم کی عظیم
ترین اور حتمی الہامی دستاویز ہے۔ انبیائے کرام کے قصص میں ان علوم اور ٹیکنالوجی
کا بیان ہے جو مادہ کی سطح تک محدود نہیں بلکہ مادہ کی بساط اور روح کی صلاحیت کا
علم دیتی ہیں۔
مادی محققین کوشش قابل قدر ہے۔ انہوں نے متعدد ایجادات کی
ہیں لیکن الہامی کتب میں مادی ذرّات اور الیکٹران وغیرہ کی غیر مادی خصوصیات نوع
آدم کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ مادہ کی کنہ میں موجود غیر مادی حقائق کو تلاش کرے۔ اب
یہ دور حاضر کے محقق پر منحصر ہے کہ ذرّات کے غیر مادی رخ کو تحقیق کا مرکز بناتا
ہے یا فکر کو مادہ تک محدود رکھتا ہے۔
کائنات میں ایک الیکٹران کا تصور :
1940ء کے موسم بہار میں ماہر طبیعات جان اے ویلر کو خیال
آیا کہ کیا وجہ ہے کہ کائنات میں موجود تمام الیکٹران ایک ہی چارج اور مادہ کی
یکساں مقدار رکھتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ وہ سب ایک الیکٹران ہوں۔ اس نے خیال کا
اظہار اپنے قابل شاگرد سے کیا۔ شاگرد بھی سوچ میں پڑ گیا۔بظاہر یہ عجیب اور دور
پرے کی بات لگتی ہے لیکن کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟
ویلر نے اس خیال کو رد نہیں کیا بلکہ سوچ بچار جاری رکھا کہ
ممکن ہے ایک ہی الیکٹران ٹائم اسپیس میں لمحہ بہ لمحہ خود کو دہرا رہا ہو جس سے
لگتا ہے ہو کہ بہت سارے الیکٹران ہیں۔ ایک ہی الیکٹران ماضی حال اور مستقبل کی پٹی
پر آگے اور پیچھے کی طرف رواں دواں ہو۔ چوں کہ فرد لمحہ موجود میں زندگی گزارتا ہے
، اسے الیکٹران کی ہمہ جہت حرکت سے گمان ہوتا ہو کہ لاشمار الیکٹران بے شمار جگہوں
پر موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ یہی الیکٹران جب ٹائم اسپیس میں آگے کے بجائے پیچھے کی
طرف حرکت کرتا ہو تو پاسیٹران کہلاتا ہو۔ یہ موضوع اگرچہ مختلف اور تعجب خیز ہے
لیکن محقق سوچ بچار کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر الیکٹران ایک ہے تو تخلیقات کی
انفرادیت کس طرح قائم ہے__؟
ممثل کلیات ابدالِ حق بابا اولیا ؒ فرماتے ہیں :
” اللہ تعالیٰ کثرت میں ہر ایک فرد کی ذات کے ساتھ خود کو
وابستہ کر رہے ہیں ۔ ہر فرد کی منفرد حیثیت اس ہی لئے اپنی جگہ قائم ہے۔ روشنی کا
مرکز ایک ہی چراغ ہے۔ زید اور محمود دونوں کو ایک ہی چراغ سے روشنی مل رہی ہے۔
البتہ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ تغیر روشنی میں واقع نہیں ہوتا۔ روشنی بدستور
اپنی حالت پر قائم ہے۔ صرف زید اور محمود کے طرزِ بیان میں تغیر ہے کیوں کہ وہی
روشنی زید میں زید کی تصویر حیات ہے اور محمود میں محمود کی۔ تصوف میں اس طرز کو
مرتبہ کہتے ہیں۔ اگر ہم مرتبہ کا ترجمہ عام زبان میں کرنا چاہیں تو انگریزی کا ایک
لفظ ' میکانزم' استعمال کر سکتے ہیں۔ یہی میکانزم کی اساس ایک ہے۔ فقط نام الگ الگ
ہیں۔ یہی میکانزم یا مرتبہ لاشمار انواع پر مشتمل ہے۔ یہی میکانزم آدمیوں میں زید
اور محمود ہے یہی درختوں میں آم اور بادام ہے۔ ایک ہی روشنی ہے جو ان سب کی شکلیں
بناتی ہے۔ یہ میکانزم (مرتبہ) ایسے سیاہ نقطوں سے بنا ہے جو کائنات کی اصل ہے۔ ان
سیاہ نقطوں کو تجلی کہتے ہیں۔ ان کی گردش دہری ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں جہاں اللہ
تعالیٰ نے تکرار کا مفہوم استعمال کیا ہے وہاں یہی دہری حرکت مراد ہے۔ دہری حرکت
ہر سمت میں واقع ہوتی ہے۔ اس طرح بیک وقت وہ ہر پہنائی ، ہر گہرائی ، ہر سمت اور
وقت کے کم ترین یونٹ میں جاری وساری ہے۔یہ دہری حرکت صدوری ہوتی ہے یعنی سیاہ نقطہ
جو زمان(time) ہے پہنائی ، گہرائی اور سمتوں میں پے درپے
چھلانگ لگاتا رہتا ہے۔ جہاں تک اس نقطہ کی چھلانگ ہے وہاں تک مکان(space) کی شکل و صورت
بنتی رہتی ہے۔ اس سیاہ نقطہ میں وہ ساری شکلیں جو مکانی وصورت میں نظر آتی ہیں
مخفی ہیں۔ جب یہ نقطہ چھلانگ لگاتا ہے تو مخفی مظاہر کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ اس
ہی روپ کا نام کائنات ہے۔ اس نقطہ میں لاشمار پردے ہیں۔“ ( لوح و قلم)
قارئین کرام ! ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیا ؒ کی بصیرت
افروز تحریر غور سے پڑھیے
روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کائناتی حقائق خواہ وہ مادہ سے
متعلق ہوں یا رنگ و نور کی دنیا سے ، ان سے آگہی صرف ان قدسی نفس خواتین وحضرات کو
حاصل ہے جن کی فراست قیاس اور فلسفہ نہیں بلکہ اللہ کا نور ہے۔ حدیث مبارک ہے،
” مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“ (ترمذی)
اولیا ء اللہ کی تعلیمات انبیائے کرام کے علوم کے تابع ہیں۔
ذرّہ یا کرہ کی حقیقت کا علم انبیائے کرام کے علوم کو سمجھنے اور ان میں تفکر کئے
بغیر ممکن نہیں۔ الیکٹران درحقیقت کن مقداروں پر مشتمل ہے اور ان پر تصرف کس طرح
ممکن ہے۔ قرآن کریم میں کائنات کی تسخیر سے متعلق فارمولے موجود ہیں۔
”اس کا امر یہ کہ جب کسی شے ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ
'ہو' اور وہ ہو جاتی ہے۔“ (یٰسۤ : ۸۲)
کائنات اللہ تعالی ٰ کے حکم کُن کا مظاہرہ ہے۔ اللہ کا حکم
ہر فرد کی زندگی ہے اور زندگی خود دہرا رہی ہے۔ اگر فرد اپنے اندر دور کرنے والی
الیکٹری سٹی سے واقف ہو جائے تو اسے زمان و مکان کا وقوف ہو جائے گا۔